تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     26-09-2014

ایک ماں کا بادشاہ کے نام خط

برسوں بعد ایسا ہوا ہے کہ ایک کتاب ''Suleiman ...The Magnificient‘‘ خریدی اور اس کا پہلا صفحہ جس پر چند تعارفی سطریں لکھی ہوئی تھیں، پڑھ کر رک گیا۔ اس میں ایسے خط کا ذکر کیا گیا ہے، جسے کئی دفعہ پڑھا ہے لیکن دل کو تسلی نہیں ہوئی۔
یہ کتاب ایک فرانسیسی مورخ آندرے کلاٹ نے سلطنت عثمانیہ کے سب سے بڑے بادشاہ سلیمان کی زندگی اور فتوحات پر لکھی جس سے ایک وقت میں پورا یورپ کانپتا تھا اور اس کی بادشاہت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی جسے تمام ترک بادشاہوں میں سب سے بڑا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ سولہویں صدی کے اس بڑے بادشاہ سلیمان کی کہانی بھی عجیب ہے۔ 
آندرے (1909-2002ء) ایک صحافی تھا ۔ تاریخ کا شوق بڑھا تو مورخ بن بیٹھا ۔ اس نے سلیمان کی زندگی پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس نے فرانس کے بادشاہ فرانسس اول کی اس وقت مدد کی تھی جب وہ اپنے دشمنوں کے ہاتھ شکست کھا چکا تھا اور پورے یورپ میں کوئی اس کی مدد کو تیار نہیں تھا ۔
برسوں کی ریسرچ کے بعد 1989ء میں ٓاندرے نے یہ کتاب مکمل کی ۔ فرانسیسی میں لکھی گئی کتاب کو بڑے عرصے بعد انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اور یہ کتاب اب میرے سرہانے پڑی ہے اور میں اسے ختم نہیں کر پارہا۔ 
میں جب بھی تاریخ یا فلاسفی پر کوئی کتاب خریدوں تو کوشش کرتا ہوں کہ اس کا تعارف نہ پڑھوں بلکہ پہلے کتاب پڑھ لوں اور پھر اس پر کمنٹری کا مزہ لوں کہ اس طرح یہ کتاب آپ بہتر انجوائے کر سکتے ہیں ۔ 
فرانس کا بادشاہ فرانسس اول اس وقت اٹالین جنگیں لڑ رہا تھا‘ جو فرانس اور روم کے درمیان لڑی جارہی تھیں۔ فرانسس اول شکست کھا گیا تو فرانسیسی بادشاہ کی ماں کو کچھ اور نہ سوجھا تو اس نے ایک خط ترک بادشاہ سلیمان کو لکھا اور اس سے اپنے بیٹے کے دشمنوں کے خلاف مدد مانگی ۔ترکوں اور فرانسیسیوں کو محسوس ہوا کہ بہتر ہوگا وہ مل کر Habsburg شاہی خاندان کے خلاف لڑیں ۔ تاہم عیسائی فرانسیسی بادشاہ کی ایک مسلمان بادشاہ سلیمان سے مانگی گئی اس مدد کو پورے کرسچن یورپ میں برا سمجھا گیا کہ وہ کیسا بادشاہ تھا جو اپنے کرسچن مخالفوں سے لڑنے کے لیے ترکوں کے مسلمان بادشاہ کی مدد مانگ رہا تھا ۔ اس پر بس نہ کی گئی بلکہ یورپ میں ایسے ایسے کارٹون بنائے گئے جن میں بتایا گیا کہ فرانس کے بادشاہ نے کیسے نان کرسچن کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا اور اپنی جان بچانے کے لیے ایک مسلمان بادشاہ کی مدد کا طلب گار تھا۔ تاہم فرانسس اول نے اس وقت یہ جواز پیش کیا کہ وہ جو اتحاد بادشاہ سلیمان سے کر رہا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ترکوں کے زیراثر علاقوں میں بسنے والے مسیحیوں کی زندگیوں کو مزید محفوظ اور بہتر بنائے۔ اس سے پہلے ترک بادشاہ سلیمان سے اتحاد کرنے کا خیال اس وقت آیا جب فرانسس اول میڈرڈ میںاپنے دشمنوں کی قید میں تھا اور اس کی ماں نے خفیہ طور پر سلیمان سے مدد مانگنے کا فیصلہ کیا۔ یورپ میں ایک ماں نے فروری 1526ء میں وہ خط لکھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب مغل جنگجو بابر ہندوستان میں ابراہیم لودھی کو پانی پت کی جنگ میں شکست دے کر مغل سلطنت کی بنیاد رکھ رہا تھا ۔ 
تاہم بادشاہ سلیمان تک فرانسس اول کی ماں کا خط نہ پہنچ سکا ۔ اس کی ماں بڑے عرصے تک سلیمان کے جواب کا انتظار کرتی رہی کہ شاید وہ اس کے بیٹے کے دشمنوں کے خلاف جنگ میں مدد کرے۔ تاہم جب نو ماہ بعد بھی ماں کو کوئی جواب نہ ملا تو اس نے دوبارہ دسمبر میں ترک بادشاہ کو ایک نیا خط لکھا۔ یہ خط ترک بادشاہ کے استنبول دربار میں پہنچ گیا۔ خفیہ خط بادشاہ سلیمان کو دیا گیا جس میں فرانسس کی مدد کی درخواست کی گئی تھی ۔ 
ایک ماں کے لکھے گئے اس خط سے فرانسس اور ترکوں کے درمیان دوستی کا ایک ایسا معاہدہ ہوا جو ڈھائی سو برس تک چلتا رہا کیونکہ اس میں دونوں کا فائدہ تھا‘ لہٰذا تمام تر طعنوں اور فتوئوں کے باوجود فرانسیسیوں اور ترکوں نے اس اتحاد کو ختم نہ کیا ۔ 
ایک ماں کا خط ملنے کے بعد بادشاہ سلیمان نے فرانس کے بادشاہ فرانسس اول کے نام خط کچھ یوں شروع کیا ۔
''میں بادشاہوںکا بادشاہ ہوں۔ دنیا کے خود مختار حکمرانوں پر میرا حکم چلتا ہے۔ اس کرۂ ارض پر جتنے بھی بادشاہ ہیں‘ ان کو تاج میں ہی تقسیم کرتا ہوں... میں با یزید کا بیٹا ہوں... بادشاہ سلیم کا وارث ہوں... میں اس کائنات میں خدا کا سایہ ہوں... میں سفید سمندر اور سیاہ سمندر کا بادشاہ ہوں۔ روم اور اناطولیہ کا مالک ہوں۔ میں رم، زولکیڈر، کردستان، آذربائیجان، ایران، شام، مصر، مکہ، مدینہ، یروشلم، بیت المقدس، سب عرب، یمن اور دیگر علاقوں کا مالک ہوں جو میرے عالی شان بزرگوں نے فتح کیے تھے اور سب سے بڑھ کر میں نے اور بھی بہت علاقے اپنی تیزتلوار سے فتح کر رکھے ہیں۔ 
آپ نے اپنے پیغام بر کے ذریعے مجھ سے یہ درخواست کی ہے کہ آپ کے ملک پر دشمن نے قبضہ کر لیا ہے اور فرانسس اول اس وقت اپنے دشمن کی قید میں ہے اور ایک قیدی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اب جب کہ آپ نے مجھ سے مدد مانگی ہے تو پھر مایوس نہ ہوں۔ ہمت پکڑیں۔ ہمارے جنگجو آبائواجداد نے کبھی جنگوں سے منہ نہیں موڑا اور دشمن کے علاقوں کو فتح کیا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے ایسے علاقوں کو فتح کیا ہے جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہمارے گھوڑے ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہتے ہیں‘‘۔ 
ترکوں کو اس خیال نے بڑا لطف دیا کہ وہ اب فرانسیسیوں کے ساتھ مل کر ایک نیا جنگی اتحاد بنائیں گے اور ان کو یورپ میں زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا... 
دوسری طرف جب یہ خبر پھیلی کہ فرانس اور ترکوں کا اتحاد ہورہا ہے تو ایک اور بادشاہ چارلس پنجم نے Habsburg-Persian اتحاد کے لیے کوششیں تیز کر دیں تاکہ سلطنت عثمانیہ پر پیچھے سے حملہ کیا جائے۔ ایرانی بادشاہ کو بھی سفیر بھیجے گئے کہ وہ سلطنت عثمانیہ پر حملہ کرے۔ 
اس دوران فرانسس اول پرترک بادشاہ سے معاہدے پر تنقید بڑھی تو اس نے مسیحی دنیا میں اپنی ساکھ بڑھانے کے لیے سلیمان کو خط لکھا کہ وہ مسجد واپس کرے جس پر کبھی چرچ ہوا کرتا تھا ۔ تاہم سلیمان نے شائستگی سے انکار کردیا لیکن یہ وعدہ فرانسس سے ضرور کیا کہ اس کی سلطنت میں مسیحیوں کا خیال رکھا جائے گا۔ 
اس کے ساتھ ہی سلیمان نے فرانسیسی تاجروں کو بھی وہ سہولتیں دوبارہ لوٹا دیں جو کچھ برس پہلے چھین لی گئی تھیں تاکہ فرانسس اول کو احساس ہو کہ ترک اس کی عزت کرتے ہیں۔ 
اس اثناء میں فرانسس اول کاایک سفیر سلیمان سے اس کے دربار میں ملا۔ اس نے سلیمان کے دربار کا نقشہ کچھ یوں کھینچا... ''یہ حیرت انگیز دربار ہے۔ یہاں کسی پر کوئی تشدد نہیں ہوتا۔ تاجر، عورتیں بڑے سکون سے سفر کرتے ہیں ۔ انہیں چھیڑنے کا کوئی تصور تک نہیں کر سکتا۔ لگتا ہے جیسے یورپ کا کوئی قصبہ ہو۔ زندگی اس طرح آسان ، پُرسکون اور محفوظ ہے جیسے وینس میں ہوتی ہے۔ سب کو انصاف ملتا ہے اور انصاف دیکھ کر یوں گمان ہونے لگتا ہے جیسے ترک اب نیک مسیحی بن چکے ہیں اور کرسچن ترک بن چکے ہیں‘‘۔ 
دوسری طرف سلیمان‘ فرانسس اول سے اتنا مانوس ہوچکا تھا کہ اس نے ایک خط میں لکھا کہ وہ اب اسے نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ وہ اسے اپناچھوٹا بھائی سمجھتا ہے اور یوں یہ اتحاد مزید گہرا ہوتا چلا گیا ۔ 
اس خوبصورت کتاب میں سولہویں صدی کے کرسچین اور مسلمان بادشاہوں کی جنگوں، دشمنیوں اور دوستیوں کی کئی طویل داستانیں رقم ہیں‘ لیکن سب سے اہم وہ صفحات ہیں جہاں فرانسس اول کی بے بس ماں اپنے بیٹے کو دشمنوں کی قید سے رہائی دلوانے کے لیے خط لکھتی ہے اور ترک بادشاہ سلیمان اس کا جواب دیتا ہے۔ 
رات گئے جب میں یہ کتاب پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کئی صدیاں گزر گئیں۔ کتنے تنہا چاند ان وقتوں میں گرم صحرائوں، ٹھنڈے سمندروں اور بے رحم پہاڑوں پر ابھرے اور ڈوبے‘ لیکن وقت کی دھول ایک ماں کے آنسوئوں سے لکھے گئے اس خط کی سیاہی کو نہ مٹا سکی۔
ایک ایسی ماں جو بیٹے کو یورپی دشمن کی قید میں پا کر تڑپ اٹھی تھی اور اپنے مذہب اور یورپ کے طعنوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ایک مسلمان بادشاہ کو مدد کے لیے خط لکھ مارا تھا ۔ ایک ایسا خفیہ خط جس نے ترکوں کی تاریخ کے بہت بڑے بادشاہ کو ایک لمحے میں جہاں موم کی طرح پگھلا کر رکھ دیا تھا اور یورپ میں ترکوں اور فرانسیسیوں کے درمیان ڈھائی سو برس طویل دوستی کی بنیاد رکھی، وہیں پورے یورپ کی تاریخ بھی بدل گئی تھی...! 
ایسا کام صرف ایک ماں ہی کر سکتی تھی! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved