تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     26-09-2014

جو کہتے ہیں اگر عمران خان لندن میں دھرنادیتے!

جو کہتے ہیں عمران خان لندن میں دھرنا دیتے ‘ پھر ہم دیکھتے‘ ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا‘ انہیں میں بتاتا ہوں کہ کیا سلوک ہوتا!
آنکھیں کھولیںاور چلیں میرے ساتھ لندن۔ شاہی خاندان کے حواری‘ پجاری اور لکھاری ذرا یاد کر لیں 6 اپریل 2009ء کی تاریخ اور مقام،لندن کا پارلیمنٹ سکوائر۔ دھرنا کون دے رہا ہے؟ برطانوی نژاد سری لنکن کمیونٹی۔ کتنے لوگ تھے؟ دس ہزار سے زائد۔دھرنا کتنے روز جاری رہا؟73 روز۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا‘ آنسو گیس پھینکی؟ نہیں۔ ربڑ کی گولیاں یا بارہ بور کے فائر کئے؟ نہیں۔ کیا وہاں کی خون لیگ کے گلوبٹ حملہ آور ہوئے؟ نہیں۔ وہاں کسی چودھری نثار نے حکم دیا کہ پارلیمنٹ سکوائر دو گھنٹے میں خالی کرایا جائے چاہے اس کیلئے سترہ لاشیں ہی کیوں نہ گرانی پڑیں؟ نہیں۔ جس سکوائر پر یہ بیٹھے‘ وہاں سے ٹریفک گزر رہی تھی؟ جی نہیں مکمل بلاک تھی۔تو پھر برٹش ممبرز پارلیمنٹ میں جانے کیلئے کون سا راستہ اختیار کرتے تھے؟ ہائوس آف لارڈز والا متبادل داخلی راستہ۔ کیا یہ گاڑیاں لے کر اندر جاسکتے تھے؟ نہیں بالکل نہیں‘ گاڑیاں کہیں دور‘ باقی راستہ پیدل۔ کیا ججوں کے گزرنے کا راستہ بھی بند تھا؟ جی ہاں۔ کیا وہ بھی پیدل متبادل راستوں سے جاتے تھے؟ جی ہاں۔ کیا ججوں نے یہ آرڈر کئے کہ کل ہم نے پارلیمنٹ سکوائر سے گزرنا ہے لہٰذا راستہ خالی کیا جائے؟ جی نہیں‘ ایسا کوئی حکم نہیں آیا۔ دھرنے والوں نے خیمے لگائے تھے؟ ہاں لگائے تھے۔ اچھا تو پھر ان کے مطالبات کیا تھے؟ برطانوی انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات ؟ نہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج؟ نہیں‘ یہ بھی نہیں۔ برطانیہ میں سر ی لنکن شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک؟ نہیں‘ حضور نہیں۔ تو پھر کیا تکلیف تھی انہیں؟کیوںبیٹھے
تھے وہاں؟ لندن پلان کے تحت؟ ایم آئی سکس‘ سی آئی اے‘ کے جی بی‘را‘ موساد کے کہنے پر ؟ امریکہ ‘کینیڈا‘ ایران کی آشیر باد پر؟ نہیں ‘ نہیں ‘ نہیں۔سنو غور سے۔ ابھی تسلی کراتا ہوں۔ اس وقت سری لنکا میں تامل باغیوں کے خلاف خوفناک آپریشن جاری تھا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا ‘ برطانوی حکومت سری لنکا کو آپریشن فوری بند کرنے کا کہے کیونکہ وہاںان کے عزیز رشتہ دار وںکی جانوں کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان میں ایک شخص جو بیس روز سے بھوک ہڑتال پر تھا‘ بولا: برطانیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہ آپریشن بند کرائے ۔ اگر وہ بھوک ہڑتال سے مر گیا تو اس کی ذمہ دار برطانوی حکومت ہو گی۔تو پھر کیا وہاں کے شاہی وزیروں نے بھاشن نہیں دئیے کہ تم شہری تو ہمارے ملک کے ہو‘ آپریشن باغیوں کے خلاف سری لنکا اپنے ملک میں کر رہا ہے‘ ہم مامے لگے ہیں تمہارے یا تمہاری حکومت کے، جو جا کر آپریشن بند کرائیں؟ کیا وہاں کے کروڑی دانشور وں نے بودی دلیلیں دیں کہ کیا ہم نے تامل ٹائیگرز پیدا کئے جو تم ہمارے خلاف دھرنا دئیے بیٹھے ہو؟ کیا ہائوس آف لارڈز میں اچکزئیوں‘مولانوں ‘ اعتزازوںاور آفتابوں نے منہ پھاڑ کر کہا کہ چند ہزار شہری وہ بھی سری لنکن‘ ہمیں کیسے ڈکٹیٹ کر سکتے ہیں‘ پولیس کو انہیں اٹھا کر دریائے ٹیمز میں پھینک دینا چاہیے؟کیا ایسی کھلی دھمکیاں کسی نے دیں؟ کیا کسی نے انہیں بلوائی‘ ملک دشمن اور کرائے کے ایجنٹ قرار دیا؟ کیا کسی ایک شخص کو بھی پولیس نے ہاتھ لگایا؟ کسی نے احتجاج کے جمہوری حق کو سلب کرنے کی کوشش کی؟ 
نہیں ‘ حضور نہیں۔ یہ مسئلہ برطانیہ کا پیدا کردہ تھا نہ وہ اس سلسلے میں کوئی فوجی ایکشن لے سکتا تھا‘ اس کے باوجود برطانیہ نے اپنے شہریوں کے جذبات کو سمجھا‘ ان کے درد کو محسوس کیا چنانچہ نہ صرف انہیں دھرنے کی اجازت دی بلکہ ہر روز ایک وزیر وہاں آتا‘ دھرنوں والوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھتا‘ان کے ساتھ ہمدردی کرتا۔یہی نہیں بلکہ برطانیہ نے اسی وقت اقوام متحدہ میں اپنا نمائندہ بھیجا تاکہ انسانی حقوق کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھا سکے۔ 
ہے کسی میں تھوڑی سی شرم‘ تھوڑی سی غیرت‘ جو اس واقعے سے سبق سیکھے۔ کہاں ہیں جمہوریت کے وہ ٹھیکیدار جو کہتے تھے‘ برطانیہ میں ایسا احتجاج نہیں ہوتا۔ کوئی ٹریفک بلاک نہیں کرتا۔ پارلیمنٹ کے راستے بند نہیں کرتا۔ اب انہیں سانپ سونگھ جائے گا اور یہ نئی نئی تاویلیں گھڑیں گے کہ انہوں نے وزیراعظم کا استعفیٰ تو نہیں مانگا تھا۔ بھائی‘ یہ استعفیٰ مانگتے تو وہاں کا وزیراعظم چوبیس گھنٹے بھی نہ لگاتا اور ان کی تاریخ بھی یہی ہے۔ بحری جہاز میں آگ لگ جائے تو شپنگ کا وزیر از خود استعفیٰ دے دیتا ہے‘ ٹرین حادثہ ہو جائے تو وزیر ریلوے کو جانا پڑتا ہے لیکن یہاں کیا ہوتا ہے؟ ماڈل ٹائون میں 114لوگوں کو گولیوں سے بھوننے کے بعد بھی کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔چاٹنا ہے لوگوں نے ایسی جمہوریت ‘ ایسے آئین اور ایسی حکومت کو؟ جمہوریت دیکھنی ہے تو برطانیہ کی دیکھو کہ ڈیلی میل نے بھوک ہڑتال کرنے والے تامل شخص پر الزام لگایا کہ وہ دوران ہڑتال برگر کھاتا رہا ہے ‘ جس پر اس نے مقدمہ کر دیا۔ تو عدالت نے ڈیلی میل کو غلط بیانی پر اسی ہزار ڈالر جرمانہ کر دیا۔یہ ہوتی ہے جمہوریت اور یہ ہوتا ہے انصاف۔
کہاں ہیں آزاد عدلیہ کے چیمپئن۔ جو کہتے تھے ہم نے چیف جسٹس کو بحال کرایا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ پولیس سے تعلیمی ادارے خالی کرانے کا حکم دے چکی تھی تو پھر عمل درآمد افریقہ کی ضلعی حکومت اور پولیس نے آ کر کرانا تھا؟ توہین عدالت بھی یہ کریں اور عدلیہ کی آزادی کے ٹھیکیدار بھی یہی بنیں‘ قتل بھی کریں‘ ثواب بھی لیں۔
کل پھر وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک نوٹس لیا۔ وہ حسب معمول ملتان میں زیادتی کی شکار بچی کے گھر پہنچ گئے۔ میڈیا نے پھر اس خبر کو نمایاں طور پر فلیش کیا۔ لیکن کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ انہوں نے ڈیرہ غازی خان میں بھی لڑکی سے زیادتی کا نوٹس لیا تھا‘ اس کا کیا بنا؟ اس سے قبل مظفر گڑھ میں زیادتی کا شکار لڑکی کو انصاف نہ ملنے پر خودسوزی کے واقعہ کی خبر کا نوٹس لیا تھا‘ اس کا کیا بنا؟اس سے قبل نوشہرہ میں بچی سے زیادتی اور قتل کا نوٹس لیا، اس کا کیا بنا؟اس سے قبل گکھڑ منڈی میں8 سالہ بچی کے قتل کا نوٹس لیا‘ اس کا کیا بنا؟ اس سے قبل ساہیوال میں اجتماعی زیادتی کی شکار لڑکی کی فریاد سنی تھی‘ اس کا کیا بنا؟ اس سے قبل لاہور گنگارام ہسپتال میں چھ سالہ بچی سے زیادتی کا نوٹس لیا تھا‘ اس پر کیا ایکشن ہوا؟ پوچھا کسی نے؟ 
ماروی میمن کل شام پختونخوا حکومت کے خلاف وائٹ پیپر پڑھ رہی تھیں۔ لیکن انہیں وزیرقانون رانا مشہود کی کارستانیاں نظر نہ آئیں۔ ماروی میمن کو ویسے بھی اب کوئی سیریس نہیں لیتا کیونکہ لوگوں کو پتہ ہے کل یہ ق لیگ میں بیٹھ کر پیپلزپارٹی کے خلاف وائٹ پیپر پڑھتی تھیں، آج نون لیگ میں تحریک انصاف اور ق لیگ کے خلاف بول رہی ہیں تو کل پیپلزپارٹی میں جا کر یہی کام نون لیگ کے خلاف شروع کر دیں گی۔ کرنے دیں ‘انہیں اسی کی تنخواہ ملتی ہے۔
کل ایک بینک میں ایک رکشہ والا روتا ہوا چالان جمع کرا رہاتھا۔بولا، تین گھنٹے لائن میں لگ کر 160روپے کی گیس بھروائی‘ اگلے چوک میں وارڈن نے دو سو روپے کا چالان کر دیا۔آدھی دیہاڑی گزر گئی۔چار سو روپے لگ گئے ہیں لیکن ایک پیسہ نہیں کمایا۔ بچے بھوکے ہیں۔ اسے دیکھ کر دل کیا کہ دیوار سے ٹکر مار کر اپنا سر پھوڑ لوں۔
حکمرانوں کو مبارک ہو۔ ان کی رعایا میں ایک اور بندہ کم ہو گیا۔ رحیم یار خان میں دو بچوں کی ماں سلمیٰ کو تیس ہزار کا بل آ گیا ۔ بیوہ عورت کہاں سے اتنے پیسے لاتی۔ بالآخر اسی راستے پر چل پڑی جو حکمرانوںنے عوام کیلئے چھوڑا ہے۔ خود زہر کھاکر قبر میں پہنچ گئی اور حکمرانوں کی موج لگ گئی۔ انہیں تصویریں بنانے اور خبریں چلوانے کا ایک اور موقع مل گیا۔ یہ میرے اور آپ کے پیسوں سے ہیلی کاپٹر میں پٹرول ڈلوائیں گے اور جا کر ہمدردی کی فلم چلائیں گے۔ایک دو افسر باتنخواہ معطل ‘ باقی کی سرزنش۔ رہے نام اللہ کا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved