دو تازہ ترین لطیفے پیش ہیں۔ اعجاز الحق نے بیان دیا ہے ''عمران اور قادری آمریت لانا چاہتے تھے۔‘‘ دوسرا لطیفہ بھی ایک بیان ہے۔ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا''کسی صورت مڈٹرم انتخابات نہیں ہوں گے۔‘‘
آپ بھی کیا یاد کریں گے؟ آج آپ کو نیویارک کے وارڈ روف ایسٹوریا ہوٹل کی سیر کراتے ہیں‘ جہاں ہمارے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے‘ حالیہ دورہ نیویارک کے دوران قیام فرمایا۔ ان کی دیکھا دیکھی صدر اوباما کو بھی یہی شوق چرایا اور وہ بھی اسی ہوٹل میں قیام کرنے آ پہنچے۔ لیکن ہماری نقل نہیں کر پائے۔ ہم نے ہوٹل کا نرخ نامہ پڑھ کر سربراہی سویٹ بک کرا لیا تھا۔ لیکن وہائٹ ہائوس کے انتظامی افسروں نے‘ ہوٹل سٹاف سے کرایہ کم کرنے کے لئے باقاعدہ سودے بازی کی۔ ایک کمرے کا اصل کرایہ 7ہزار امریکی ڈالر ہوتا ہے۔ یار لوگوں نے 8 ہزار صرف شوشا کے لئے لکھ دیا۔ اوباما کے عملے نے سودے بازی کرتے ہوئے یقینا کہا ہو گا کہ ''دیکھو بھائی! ہمارا صدر بادشاہ نہیں۔ کالاکلوٹا سا آدمی ہے۔ اتفاق سے ووٹ لے کر صدر بن گیا۔ اسے اتنے مہنگے کرائے کا پتہ چلا‘ تو وہ سوٹ کیس اٹھا کر‘ ریلوے سٹیشن کے قریب کسی ہوٹل میں چلا جائے گا۔ بہتر ہے‘ آپ کرائے میں اتنی کمی کر دیں کہ ہمارے صدر کو آرام کی نیند آ جائے۔ ورنہ رات بھر مہنگا کرایہ یاد کرتے کرتے کروٹیں بدلے گا۔ امریکیوں کے اپنے صدر کے بارے میں خیالات کا مجھے تجربہ ہو چکا ہے۔ میں واشنگٹن میں سید اکمل علیمی اور سینیٹ کی ایک اعلیٰ عہدیدار کے ساتھ‘ وہائٹ ہائوس دیکھتا پھر رہا تھا۔ ابتدائی جائزہ لیتے ہی میں نے کہا ''یہ تو نارمل سی رہائش گاہ ہے۔ میں سوچتا تھا کہ ایک سپرپاور کا سربراہ اچھی جگہ رہتا ہو گا۔‘‘ سینیٹ کی خاتون افسر نے جواب میں کہا ''آپ کا کیا خیال تھا‘ ہمارا صدر کوئی بادشاہ ہو گا؟ وہ ہمارا منتخب صدر ہے۔ ہم اسے بادشاہوں کی طرح
رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘میرا صدیوں پرانا احساس غلامی جھنجھلا کر رہ گیا۔
ہمارا تو ایوان صدر بھی‘ جو ایک فارغ سے آدمی کے لئے وقف رہتا ہے‘ امریکی صدر کی رہائش گاہ سے‘ سینکڑوں گنا زیادہ جاہ و جلال رکھتا ہے۔ جب میں نے پڑھا کہ امریکی صدر کے لئے سویٹ بک کرتے وقت‘ ان کا سٹاف سودے بازی کر کے‘ نرخوں میں کمی کراتا ہے‘تو مجھے زیادہ حیرت نہ ہوئی۔ وارڈروف ایسٹوریا ہوٹل میں‘ امریکی صدور روایتی طور پر اسی وقت سے ٹھہرتے ہیں‘جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس شروع ہوئے۔جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس پر‘ کئی مرتبہ ایک سو سے زیادہ سربراہان مملکت نیویارک میں آتے ہیں۔ جن میں سے کئی اسی ہوٹل میں قیام کرتے ہیں۔ لیکن سب کو یہاں قیام کرنا نصیب نہیں ہوتا۔ اس مرتبہ بھی صدر اوباما کے علاوہ جو چند خوش نصیب وارڈ روف میں ٹھہرے ‘ان میں ماشاء اللہ ہمارے وزیراعظم شامل ہیں۔ اس ہوٹل میں قیام کرنے والے سربراہان مملکت کے عملے اور خود عزت مآب کے ساتھ‘ ان سہولیات کے بارے میں تبادلہ معلومات کیا جاتا ہے‘ جو ہوٹل کی طرف سے فراہم کی جائیں گی۔مثلاً شاہی مہمان کے لئے جو کھانا تیار ہو گا‘ وہ ان کے ذاتی خدمت گار کو‘ کچن میں بلا کر اس کے سامنے پکایا جائے گا اور جب تک وہ معزز مہمان کی میز تک نہیں پہنچ جاتا‘ وہ ذاتی ملازم اس پر نظر رکھے گا۔ مہمان کے ذاتی عملے کا انٹرویو کر کے پہلے سے فہرست مرتب کر لی جاتی ہے کہ معزز مہمان کی رہائشی عادات کس قسم کی ہیں اور میزبان کو شاہی خواب گاہ کے اندر کیا کیا انتظامات کرنا ہوں گے؟ بعض سربراہان مملکت اپنے کھانے کا معاملہ ذاتی عملے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ بعض ایسے نہیں ہوتے۔ جیسے جارج ایچ ڈبلیو بش کھانوں کے انتہائی شوقین تھے۔ وہ اپنے کھانوں کے متعلق ایک ایک چیز کے بارے میں کرید کرید کر پوچھاکرتے۔ گوشت کہاں سے آیا ہے؟ کس چیز کا ہے؟ اس میں کیا کیا ڈالو گے؟ کیسے پکایا جائے گا؟ سربراہان مملکت کی میزبانی کرنے والے ہوٹل کے آفیسر نے بتایا کہ ایک بار سیکرٹری آف سٹیٹ جیمزبیکر اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر برینٹ ‘ صدر بش کے ساتھ برطانوی وزیراعظم جان میجر کا انتظار کر رہے تھے۔جب وہ آ گئے‘ تو صدر بش نے چھوٹتے ہی پوچھ لیا ''آج آپ کیا کھائیں گے؟‘‘ہوٹل میں سویٹ بک کرانے سے پہلے مہمان کو پورا انٹرویو دینا پڑتا ہے۔ اس سے پسند ‘ناپسند اور مطلوب اشیا کے بارے میں دریافت کرکے‘ فہرست بنائی جاتی ہے۔ اسی ''پوچھ گچھ‘‘ کے دوران مہمان کی حیثیت کے بارے میں اندازہ کر لیا جاتا ہے۔ اگر مہمان ہوٹل کے معیار کے مطابق نہیں‘ تو اسے سویٹ دینے سے معذرت کر لی جاتی ہے اور اگر مہمان کسی طریقے سے سویٹ بک کرا کے‘ چابی لینے میں کامیاب ہو جائے‘ تو عملے کو پتہ چلتے ہی‘ اسے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ہوٹل سے نکال دیا جاتا ہے۔ مہمان کی حفاظت کے لئے باریک بینی سے سکیورٹی چیک کئے جاتے ہیں۔ ان سے مہمان کے ساتھی اور سٹاف کے لوگ بھی مستثنیٰ نہیں۔کھانوں میں مہمان کی پسند ناپسند کا چارٹ‘ پہلے سے بنا کرکچن میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ہر معزز مہمان کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنا باورچی ساتھ لایا ہے‘ تو اسے کچن میں مکمل پرائیویسی کے ساتھ کھانا پکانے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
ہوٹل میں کچھ حصے‘ مخصوص مہمانوں کے لئے تیار کئے جاتے ہیں۔مثلاً 35ویں فلور پر جنرل ڈگلس میکارتھر کا سویٹ تھا‘ جہاں ان کی پسند کاڈیسک بنایا گیا تھا۔ جنرل میکارتھر کی بیوہ بھی اسی ہوٹل میں 48سال قیام پذیر رہیں۔ صدر کینیڈی نے اپنے سویٹ میں روکنگ چیئرز‘ رکھوائی ہوئی تھیں۔ صدرریگن نے عقاب کے سر پر کھڑی ایک میز اور سونے کا اوول مرر ہوٹل کو تحفے میں دے رکھا
ہے۔ ہوٹل کے برآمدوںاور دروازوں پر رکھی ہوئی مختلف آرائشی اشیا‘ مختلف مہمانوں کے تحائف پر مشتمل ہیں۔ امریکی صدر کے لئے سویٹ کا ایک کمرہ ‘بالکل وہائٹ ہائوس کی طرز پر آراستہ کیا گیا ہے۔ اسی ڈیزائن کے ٹیلیفون سیٹ بھی‘ ویسی ہی جگہوں پر رکھے گئے ہیں‘ جیسے وہائٹ ہائوس میں ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ٹیلیفون کا بٹن بھی اگر پلنگ کے بائیں طرف ہے‘ تو ہوٹل میں بھی بائیں طرف ہی رکھا جائے گا۔ اس ہوٹل میں عالمی تاریخ کی ممتاز شخصیات قیام فرما رہ چکی ہیں۔ صدر کینیڈی‘ صدر آئزن ہاور‘ ڈیوک اینڈ ڈچز آف ونڈسر‘ صدر جانسن ‘ صدر نکسن اور بیرونی مہمانوں میں صدر ڈیگال‘ اسرائیل کے بن گوریان‘ نکیتا خروشیف۔ ہوٹل کا عملہ اپنے کسی مہمان کے بارے میں کوئی انفارمیشن دینے پر تیار نہیں ہوتا۔ وارڈ روف‘ نیویارک کے ان ہوٹلوں میں ہے‘ جہاں سیدھی سڑک آپ کو بلڈنگ کے نیچے لے جاتی ہے۔ آپ کی کار سیدھی لفٹ کے دروازے پر جا کے رکتی ہے۔ مہمان کار سے اترتے ہی پہلا قدم لفٹ کے اندر رکھ سکتا ہے۔ نیویارک میں وارڈ روف واحد ہوٹل نہیں جس میں سربراہان مملکت قیام کرتے ہوں۔ ایسے کئی ہوٹل ملتی جلتی سہولتوں کے ساتھ شہر میں موجود ہیں۔ مثلاً رٹز کارلٹن ہوٹل اور سنٹرل پارک۔وارڈ روف میں یہ بھی دریافت کر لیا جاتا ہے کہ معزز مہمان کو کن الفاظ میں مخاطب کرنے کی اجازت ہو گی؟ مثلاً صدور‘ خارجہ سیکرٹریز اور سفیر عموماً یور ایکسیلینسی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ جبکہ بادشاہ اور ملکائیں‘ اپنے آپ کو یورمیجسٹی یا یور رائل ہائی نس کے القاب سے مخاطب ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہوٹل اپنے معزز مہمانوں کو‘ ان کے اپنے ملک کی ٹی وی نشریات دکھانے کا خصوصی اہتمام کرتا ہے۔ عموماً سربراہان مملکت کے سویٹ ان کی پسند کے مطابق ڈیکوریٹ کئے جاتے ہیں۔مہمانوں کو چابی کے ساتھ ہی‘ ہوٹل کے ان ملازمین کی فہرست تصویر کے ساتھ فراہم کر دی جاتی ہے‘ جو ان کی خدمت میں حاضر ہونے کے اہل ہوں گے۔ یہ تفصیلات پڑھ کر‘میرا تو سر فخر سے بلند ہو گیا ہے۔ اس مرتبہ صرف 18سربراہان مملکت‘ ہوٹل وارڈ روف میں قیام فرمانے کا خرچ اٹھا سکے ہیں۔ یہ جان کر دل خوش ہوا کہ ہوٹل کے کچن میں مہمان کے خصوصی باورچی کو‘ اپنے علاقے اور پسند کے کھانے تیار کرنے کی مکمل سہولتیں اور پرائیویسی فراہم کی جاتی ہے۔ یقینی طور پر ہمارے وزیراعظم اور ان کے ساتھی پھجا طرز کے پائے‘ زعفرانی پلائو‘ جمبوپرائون‘ تیتر اور کالے ہرن کے گوشت سے‘ نیویارک میں بھی لطف اندوز ہوئے ہوں گے اور زعفرانی پلائو کی خوشبو تو عمارت کے علاوہ باہر سڑک تک گئی ہو گی۔ ہوٹل کی ایک خصوصی سہولت کا ذکر میں نے جان بوجھ کر آخر میں رکھا ہے۔ ذہن میں رکھیے کہ اس ہوٹل میں سربراہان مملکت قیام فرماتے ہیں۔ اس طرح کے اعلیٰ سطحی مہمان کی فرمائش پر ‘ لفٹ میں خصوصی طور سے ایسے آئینے لگا دیئے جاتے ہیں‘ جن میں اپنا عکس دیکھ کر‘ مہمان خوف محصوری سے محفوظ رہے۔ بلاشبہ یہ سربراہان مملکت کا مرض ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ہمارے وزیراعظم کو ایسے آئینے لگوانے کی ضرورت پڑی ہو گی۔ چند ہفتے پہلے ضرور تھی۔ مگر اب نہیں۔