اکثر اوقات کسی اچھی اور بری چیز کے درمیان چوائس موجود ہوتی ہے، لیکن مشرق وسطیٰ میں یہ چوائس بد اور بدتر کے درمیان ہے۔ یہاں، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ بُرے افراد کون ہیں، لیکن اچھے بھی اچھائی کے معیار سے بہت دور ہیں۔ داعش (دولت اسلامیہ عراق و شام) جسے آئی ایس آئی ایس کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، قتل و غارت، اغوا اور لوٹ مار کرتے ہوئے برائی کے انتہائی درجے پر ہے، اس لیے اس کو ختم کرنے یا اس کا ہاتھ روکنے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کا خیر مقدم کیا جا سکتا ہے؛ تاہم اس کے مقابلے کے لیے بنایا جانے والا اتحاد بہت حوصلہ افزا نتائج کی یقین دہانی نہیں کراتا۔ اس خطے کے بعض ممالک نے ہی ان انتہا پسندوں کو تقویت دینے کے لیے وسائل فراہم کیے تھے۔ شام میں جہاد کرنے والے باغیوں کو گزشتہ تین سال سے ہتھیار اور مالی امداد فراہم کر کے ان ممالک نے داعش جیسے خون آشام عفریت کو سر اٹھانے کا موقع دیا۔ داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں امریکہ پیش پیش ہے، لیکن اس کا ماضی بتاتا ہے کہ ایسی تحریکوں کو ختم کرنے کی امریکی کاوشیں نہایت مستعدی سے ناکامی سے ہمکنار ہوتی رہیں۔ اس کی ''پُرخلوص‘‘ کارروائیوں کی وجہ سے عراق، لیبیا اور افغانستان لہو رنگ ہیں اور ان میں پہلے سے بھی زیادہ فساد ہے۔ اس کے باوجود امریکہ ہی وہ واحد ملک ہے جو آئی ایس آئی ایس پر کاری ضرب لگانے کی اہلیت رکھتا ہے۔
گزشتہ صدی پر نظر دوڑاتے ہوئے ہم جان سکتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے اس خطے میں کی جانے والی مغربی مداخلت نے انتشار اور مسائل کے سوا کچھ پیدا نہیںکیا۔ اس مداخلت کی وجہ یہاںسے نکلنے والا تیل تھا۔ اس کے نتیجے میں یہاں بدترین آمریت اور نااہل حکومتیں وجود میں آئیں؛ تاہم مغربی جمہوریتوں نے یہاں نسل در نسل اپنا تسلط قائم رکھنے والی آمریتوں کی حمایت کی۔ امریکہ نے بارہا یہ دعویٰ کیا کہ اس نے القاعدہ کے خلاف فتح حاصل کر لی ہے، لیکن عملی طور پر ہوا یہ کہ اس تنظیم نے کسی اور روپ میں کہیں اور کارروائیاں شروع کر دیں۔ افغانستان میں اس کی کمر توڑنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن یمن، عراق اور شام میں اس کی شاخیں فعال ہو گئیں۔ صومالیہ اور کچھ دوسرے ممالک میں اس کے پرچم تلے مختلف گروہ قتل و غارت گری کرتے ہیں۔
اس کے اس طرح شاخ در شاخ پھیلتے جانے سے میرے ذہن میں جیسن (Jason) اور ارگوناٹس (Argonauts) کی یونانی دیومالائی کہانی آتی ہے۔ اس کے مافوق الفطرت صلاحیتوں کے مالک ہیرو کو سنہری خزانے تک پہنچنے کے لیے بہت سی دشوار مہمات سر کرنی تھیں۔ ان میںسے ایک کھیت میں ڈریگن کے دانتوں کی فصل بونا تھی۔ اس دشوار ترین مہم میں وہ جہاں بھی ڈریگن کا زہریلا دانت بوتا وہاں سے خونخوار جنگجو زمین سے نکل پڑتے اور اس سے لڑنے لگتے۔ آج کل ہم بھی اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ واحد سپر قوت، امریکہ کی وجہ سے مزید جہادی گروہ سر اٹھا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ ایسا نہ کرے تو ان جہادی قوتوں کو کون چیلنج کرے گا؟ اس وقت داعش کے جنگجو ایزدی اور کرد باشندوں کو بے رحمی سے ہلاک کر رہے ہیں۔ اگر اب تک امریکی جنگی طیاروں اور ڈرونز نے مداخلت نہ کی ہوتی تو ہم وسیع پیمانے پر نسل کشی دیکھ رہے ہوتے۔ اس بمباری کے باوجود داعش کے جنگجوئوں نے بہت زیادہ افراد کو ہلاک کیا ہے جبکہ سینکڑوں کم سن بچوں، لڑکوں اور لڑکیوں، کو غلام بنایا جا رہا ہے۔
اپنے ٹھکانوں پر ہونے والی بمباری کا جواب دینے کے لیے داعش نے یرغمال بنائے گئے دو امریکیوں کے سر قلم کر دیے۔ اس پر اتنا اشتعال برپا ہوا کہ امریکی صدر، بارک اوباما کو اس کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کرنا پڑا۔ اُنہوں نے اسے ''نیٹ ورک آف ڈیتھ‘‘ قرار دیا۔ امریکی اور کچھ عرب ریاستوں کے جنگی جہاز شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ صرف فضائی قوت ہی ایک منظم گروہ کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کون سی ریاست فوجیں اتارنے کی جرات کرے گی؟ مغربی طاقتوں نے وہاں فوجی دستے اتارنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ مقامی ممالک اس خطرے سے نمٹنے کے لیے کیوں کچھ نہیںکر رہے ہیں؟ عرب ممالک نے، جو زمینی دستے بھیجنے کے لیے تیار نہیں، چند جہاز بھجوا کر برائے نام موجودگی ظاہر کر دی۔ اسے عام فہم زبان میں خانہ پری کہا جاتا ہے۔ ایسے اقدامات سے داعش جیسے گروہ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ایران ایسا ملک ہے جو آئی ایس آئی ایس کا مقابلہ کر سکتا ہے، لیکن اس کی موجودگی واشنگٹن کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ترکی پہلے ہی پندرہ لاکھ شامی مہاجرین کے سیلاب سے نمٹنے کی کوشش میں بے حال ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ترکی امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے دے، لیکن وہ بھی اس جنگ میں عملی حصہ لیتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ کولیشن شامی حکومت کے ساتھ تعاون کرتی، لیکن بشارالاسد کی طرف سے اپنے مخالفین کو سختی سے کچلنے کی پالیسی نے سیاسی طور پر صدر اوباما کے لیے ان کی حمایت کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ پینٹاگان کو امید ہے کہ شامی باغیوں میں سے نسبتاً معتدل مزاج کو تربیت اور ہتھیار فراہم کر کے داعش کے مقابلے پر اتارا جا سکتا ہے؛ تاہم یہ دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے اور افغانستان اور عراق میں ہونے والے تجربات کے بعد پینٹاگان کو سوچنا چاہیے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔
اب اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ ہم ڈریگن کے بیج بو کر ان سے پیدا ہونے والے جہادیوں کو مسلح ہو کر انسانوںکو قتل کرنے سے کیسے روکیں؟سب سے پہلے ہمیں اس بات میں واضح ہونا چاہیے کہ یہ کسی عقیدے کا نہیں بلکہ صرف اقتدار پر قبضے کے لیے رچایا جانے والا خونی کھیل ہے۔ دنیا بھر میں نیم خواندہ ملا یہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی طاقت اور اثر کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ وہ اس بات کو ظاہر نہیں ہونے دیتے لیکن بنیادی طور پر وہ لڑائی کے ذریعے دیگر افراد پر اپنی اتھارٹی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ لڑائی کے لیے نوجوان لڑکوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات اور جہاد کا سہارا لیتے ہیں‘ لیکن ان کے اعمال، قتل و غارت اور لوٹ مار ظاہر کرتے ہیں کہ اُنہیں اسلامی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں۔