افغانستان میں صدارتی انتخابات کے آخری مرحلے کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان 21 ستمبر کو ہونے والی 'مصالحت‘ اس قدر نامناسب ہے کہ سامراج کے اپنے تجزیہ نگار بھی اس کھلواڑ کو قابلِ نفرت قرار دے رہے ہیں۔ سامراج کے سب سے وفادار جریدے دی اکانومسٹ نے کئی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ تازہ ترین شمارے میں معاہدے کی تقریب کے متعلق لکھا گیا کہ ''دونوں امیدواروں میں سے کسی نے بھی گفتگو نہیں کی اور نہ ہی وہ پُرسکون دکھائی دے رہے تھے... سبکدوش ہونے والے صدر حامد کرزئی کی موجودگی میں چار صفحات پر مشتمل معاہدے پر دونوں امیدواروں اور بعد ازاں بطور گواہان امریکی سفیر جیمزکنگھم اور افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے سینئر نمائندے جان کوبش (ان دونوں کو حامد کرزئی نے صدارتی محل میں ہونے والے تقریب میں شرکت سے روک دیا تھا) نے دستخط کئے۔ معاہدے کی رو سے صدر کے وسیع اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔ کئی لوگوں کے خیال میں جمہوری عمل کے لیے نقصان دہ اس پس پردہ ڈیل کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی الیکشن کمیشن نے اشرف غنی کو فتح یاب اور ڈاکٹر عبداللہ کو سی ای او قرار دے دیا۔ ڈاکٹر عبداللہ کے مطابق انتخابات میں ایسا فراڈ کیا گیا تھا جو پکڑا نہیں جا سکتا۔ خوش کرنے کے لیے حیران کن طور پر ووٹوں کی تعداد اور ووٹ ڈالنے والوں کی شرح کا اعلان نہیں کیا گیا۔ کسی پرائمری سکول میں کھیلوں کے مقابلے جیسے اس معاہدے کے مطابق 'سب جیت گئے‘۔ یہ سب کچھ شدید انتخابی معرکے، متوازی حکومت کے قیام کی دھمکیوں اور خانہ جنگی کے خوف کے بعد کروایا گیا‘‘۔
کارپوریٹ میڈیا پر براجمان سیاست دانوں اور دانشوروں نے اپنے تجزیوں میں جس بنیادی اور تلخ حقیقت کا ذکر مناسب نہیں سمجھا وہ یہ ہے کہ افغانستان سامراج کے قبضے میں ہے۔ سامراجیوں نے اپنے ڈالر جہاد، پراکسی جنگوں اور براہ راست جارحیت کے ذریعے اس ملک کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اس نظام کو حتمی و آخری ماننے والا ہر دانشور اس کے سامنے سر تسلیمِ خم کر چکا ہے۔ بحیثیت قوم اس ملک کی خود مختاری، قومی آزادی اور ریاست کی وحدت کا وجود ہی نہیں ہے۔ جس طرح ایران کی گارڈین کونسل صرف اپنے منظور نظر افراد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے بالکل اسی طرح افغانستان میں امیدواروں کے لئے لازم ہے کہ نو آبادیاتی قبضے اور سامراجی آقائوں کے 'تقدس‘ پرکوئی سوال نہ اٹھائیں۔
2001ء میں ''دہشت کے خلاف جنگ‘‘ کا آغاز کرنے والے عالمی دہشت گرد نہ صرف اپنے بیان کردہ مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ ذلت آمیز شکست سے دوچار ہیں۔ مزید رسوائی سے بچنے کے لیے راہِ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جنگجو سردار، دہشت گرد جہادی گروہ، طالبان کہلانے والے متحارب جتھے اور جمہوری کٹھ پتلیاں، سب سامراج کی پیداوار ہیں۔ اس ملک کی بربادی کا آغاز 1979ء میں سی آئی اے کے ڈالر جہاد سے ہوا تھا جس کا مقصد اپریل 1978ء میں ثور انقلاب کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے اور انتہائی ریڈیکل اصلاحات کرنے والی بائیں بازو کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ سی آئی اے نے ردِ انقلاب کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہیروئن کی پیداوار اور منشیات کی تجارت کا طریقہ کار متعارف کرایا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس خطے میں سامراج کے سٹریٹجک مفادات کے ساتھ ساتھ اس کی دلچسپی بھی کم ہو گئی؛ تاہم منشیات کی پیداوار اور تجارت کا نیٹ ورک نہ صرف قائم رہا بلکہ پھیلتا گیا۔ آج دنیا کی 95 فیصد منشیات افغانستان میں پیدا ہوتی ہیں اور پاکستان کی معیشت کا دو تہائی حصہ کالے دھن پر مبنی ہے۔ منشیات اور جرائم پر مبنی اس معیشت کا سیاسی و سماجی چہرہ زہریلی اور درندہ صفت بنیاد پرستی کے شکل میں سامنے آیا ہے جو آج بھی اس خطے کو تاراج کر رہی ہے۔
افغانستان پر سامراجی قبضے سے کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ عورتوں کے حقوق بدستور سلب ہیں، معیشت بدحال اور جینا محال ہے، ملائیت کا جبر عوام کی زندگیوں کو جہنم بنا رہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں سامراج اور اس کے حواریوں کی کمزوری کو بھانپتے ہوئے طالبان نے اپنی کارروائیاں تیز تر کر دی ہیں۔ 2014ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران حملوں کی تعداد اور تباہی
2001ء سے لے کر اب تک کسی بھی سال سے زیادہ ہے۔ امریکہ کی بنائی گئی نام نہاد افغان قومی فوج سے بھگوڑوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ افغان فوجی طالبان سے جا ملتے ہیں جو سرکار سے زیادہ 'تنخواہ‘ دیتے ہیں۔ کالے دھن کی زیادہ سے زیادہ حصہ داری کے لئے طالبان کے مختلف دھڑ ے آپس میں اور دوسرے جہادی گروہوں کے ساتھ خونریز لڑائیوں میں مصروفِ ہیں۔ جس طرح عراق میں امریکہ کے دیے گئے جدید اور تباہ کن ہتھیار ISIL (موجودہ ریاست اسلامی) کے ہاتھ لگے ہیں ویسے ہی افغانستان میں نیٹو کے ہتھیار اور تربیت یافتہ فوجی اس کے اپنے خلاف استعمال ہو رہے ہیں ۔
سامراج کے ہر اقدام کا نتیجہ ناکامی اور بربادی کی صورت میں نکلا ہے اور نکلے گا۔ افغانستان میں ''جمہوریت‘‘ کا امریکی ڈھونگ بری طرح ناکام اورکھل کر بے نقاب ہو چکا ہے۔ پوری دنیا امریکی سامراج کی بے بسی اور بیوقوفی پر ہنس رہی ہے۔ امریکی قبضے کے دوران ہونے والے تمام انتخابات میں کھلے عام دھاندلی ہوتی رہی ہے لیکن آج دنیا کی ''سپر پاور‘‘ اتنی کمزور ہے کہ اس کی اپنی کٹھ پتلیاں بھی بے قابو ہو گئی ہیں جنہیں 'منانے‘ کے لئے دونوں امیدواروں کو شریک اقتدار کر لیا گیا ہے۔ اتوار کو طے پانے والا معاہدہ شراکت اقدار کے وسیع تر منصوبے کی تکمیل تھا جس میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ گارڈین ایک حالیہ مضمون میں لکھتا ہے کہ ''اس معاہدے کا سب سے
حیران کن نکتہ آرٹیکل ڈی ہے جس کے مطابق: 'دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم کے لیڈر‘ یعنی اپوزیشن لیڈر کے عہدے کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے تسلیم کیا جائے گا۔ اس آرٹیکل میں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ اپوزیشن لیڈر قومی حکومت کا اتحادی ہو گا، لیکن کیا جمہوریت میں سیاسی اپوزیشن کا کردار حکومت کی پالیسیوں اور طرزِ عمل پر چیک رکھنا نہیںہوتا؟ یا پھر افغانستان میں اس لازمی عناصر کی موجودگی کو ضروری ہی نہیں سمجھا گیا؟ موجودہ سیاسی حقائق کی روشنی میں، ایک ایسے سی ای او (ڈاکٹر عبداللہ) سے اطاعت کی توقع کرنا مشکل ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ انتخابات جیت چکا ہے‘‘۔
اسلامی بنیاد پرست اگر خطے کو بربریت میں دھکیل رہے ہیں تو سامراجیوں نے بھی پہلے سے تباہ حال اور برباد سماج کو مزید انتشار سے دوچار کر دیا ہے۔ معاشی ناہمواری آسمان سے باتیں کر رہی ہے، غربت بڑھ رہی ہے اور افغانستان کے عام لوگ شدید بیگانگی اور مایوسی کا شکار ہیں۔ ان حالات میں نام نہاد طالبان کو اپنی حاکمیت جبراً مسلط کرنے کے لیے سازگار حالات میسر آتے ہیں؛ تاہم سامراج کے انخلا کے بعد بڑے پیمانے پر ''طالبان‘‘ کے احیا اور اقتدار پر قبضے کے امکانات کم ہیں۔ ایسے میں خلق پارٹی اور ثور انقلاب کی درخشاں روایات نئی نسل کے شعور کو زیادہ ریڈیکل نقطہ نظر سے مسلح کر سکتی ہیں۔ لیکن افغانستان پھر ایک ایسی صورتحال سے جڑا ہوا ہے جہاں نوجوان زیادہ تیزی سے سوشلسٹ نظریات کو اپنی سیاسی جدوجہد کا حصہ بنا رہے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے انقلابات کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخی، معاشی اور ثقافتی رشتے نہایت گہرے ہیں۔ اس خطے کا انقلاب جعلی رکاوٹوں کو مٹا ڈالے گا۔ یہی تاریخ کا انتقام ہو گا۔