تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     28-09-2014

دشمن کو نیچا دکھانا تو بنتا ہے

دنیا کی 10 بڑی معاشی طاقتوں میں سے ایک‘ بھارت کے وزیراعظم‘ نریندر مودی بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لئے نیویارک گئے تھے۔ انہوں نے بھی ہوٹل میں قیام کیا۔ ہوٹل انتظامیہ نے مختلف تصاویر کے ساتھ‘ مہمانوں کو ترغیب دینے کے لئے جو عیاشیاں بیان کی ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہمان کو اپنے بوٹ مفت پالش کرانے کی سہولت میسر ہو گی۔ ہوٹل کا نام ہے ‘ پیلس ہوٹل۔ یہ مین ہٹن میں 50ویں سٹریٹ پر میڈیسن ایونیو میں واقع ہے ۔ سڑک کے دوسری طرف سینٹ پیٹرک کیتھڈرل ہے۔ یہ عمارت 55منزلہ ہوٹل کے علاوہ ولارڈ ہائوس پر مشتمل ہے۔ اسے ہیمزے ہوٹل پیلس کہا جاتا تھا۔ پیلس ہوٹل بنانے کے لئے ہیمزے نے ایمری روتھ اینڈ سنز کی خدمات حاصل کیں کہ وہ 55منزلہ عمارت کے لئے‘ ریفلکٹو گلاس اور اینوڈیزڈایلومینیم سے بنی عمارت کا ڈیزائن تیار کریں۔ 1981ء میں ہیمزے پیلس ہوٹل کا افتتاح ہوا۔ 1992ء تک اس ہوٹل کو ہیمزے نے چلایا۔ 1992ء میں ایک پرائیویٹ کمپنی‘ نیویارک لمیٹڈ نے حصے داری میں خرید کر‘ اس کے انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ جب یہ ہوٹل ہیمزے کی ملکیت تھا‘ تو اس کی بیوی لیونااسے کنٹرول کرتی تھیں۔ اس وقت کا سٹاف اسے ''کوئین آف مین‘‘ (گھٹیا)کہا کرتا تھا۔ نام ہی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کی بنیا خاتون تھی۔ یہ ہوٹل مختلف خریداروں کے ہاتھ سے ہوتاہوا‘ آخر سلطان آف برونائی کی کمپنی کے زیرانتظام چلا گیا۔ سلطان نے اسے بینکرپٹسی کورٹ کی رضامندی سے حاصل کیا۔ 2011ء میں نارتھ وڈ انویسٹرز نے‘ یہ ہوٹل سلطان آف برونائی سے خرید لیا۔ 
کسی زمانے میں ولارڈ مینشن میں میڈیسن ایونیو کی جانب سے گھوڑا گاڑیوں کے داخلے کا راستہ تھا، جسے اب پیلس ہوٹل کے وسیع و عریض کورٹ یارڈ میں بدل دیا گیا ہے۔ ہوٹل کی تزئین و آرائش کے وقت کورٹ یارڈ کو ازسرنو ڈیزائن کر کے‘ اسے 15ویں صدی کے اطالوی گرجائوں کی طرز پر بنایا گیا۔ پیلس ہوٹل کے 822 گیسٹ روم ہیں‘ جن کا ایک رات کا کرایہ 525ڈالر یومیہ سے لے کر 1100 ڈالر تک ہے۔ اول تو مودی صاحب نے 525 ڈالر والا کمرہ ہی پسند کیا ہو گا۔ زیادہ فضول خرچی کے موڈ میں ہوئے‘ تو درمیانے درجے کا کمرہ چھ سات سو ڈالر میں لے لیا ہو گا اور اس میں بھی امریکی صدر کی طرح بھائوتائو یقینا کیا ہو گا۔ 14ویں فلور پر رہائشی سہولتیں ارزاں کرنے کے لئے‘176 کمرے اور سویٹس بنائے گئے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مودی صاحب نے ان میں سے ‘بنک مینجروں یا کمپنی ایگزیکٹوز والا کوئی کمرہ لے لیا ہو۔ اس ہوٹل کی نمایاں خصوصیت‘ وہ گوشہ عافیت ہے جہاں امریکہ کے مشہور ٹی وی ڈرامے ''گوسپ گرل‘‘ کی ایکٹریسوں اور ایکٹروں کا راج ہے۔ یہیں پر ان کے فوٹوشوٹ بھی ہوتے ہیں۔ ہوٹل کے کورٹ یارڈ میں‘ مختلف پارٹیوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ جیسے مختلف ایوارڈز کی پارٹیاں۔ یہاں براڈوے کے نامور ستارے آتے ہیں۔ مس امریکہ کے سالانہ انتخاب کی تقریبات اور ہفتہ وار ٹری لائٹنگ ہوتی ہے۔ نیویارک شہر کے‘ 
فیشن ویک کی تقریبات ہوتی ہیں۔ ہوٹل نیویارک پیلس میں شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے لطف اندوز ہونے کے مواقع بھی دستیاب ہیں۔ اگر آپ جدیدترین ڈیزائن دیکھنے کے لئے‘ ففتھ ایونیو میں جانا چاہتے ہیں‘ تو چند قدم دور ہی نگاہیںلبھانے والے منظر سامنے آ جاتے ہیں اور اگر آپ اپنی ملکہ کے ساتھ نیویارک آئے ہیں‘ تو صرف 5منٹ پیدل چل کر‘ گرلز پیلس میں پہنچ جاتے ہیں۔ نیویارک کاسب سے بڑا شاپنگ مال‘ راک فیلر سینٹر بھی ہوٹل کے قریب ہے۔''مڈٹائونز کرائون جیول‘‘ میں آنکھیں سینکناہوں‘ تو براڈ وے شو کے ستارے 5منٹ کے پیدل فاصلے پر نظر آتے ہیں۔ ہوٹل کے اندر 6ریسٹورنٹ اور 2 باریں ہیں۔ ہوٹل سے آپ سڑک کے دوسری طرف واقع کیتھیڈرل کو اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں اور ورزش کے لئے بہترین فٹنس سنٹر موجود ہے۔ اس کی اہمیت یوں ہے کہ وزیراعظم مودی علی الصباح ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ ورزش کرتے ہیں۔ سخت مذہبی مزاج رکھتے ہیں۔ ورزش کرتے وقت اگر سامنے کوئی عبادت گاہ نظر آ رہی ہو‘ تو یہ بھارتی وزیراعظم کے مزاج کے مطابق ہے۔ ہوٹل کے اندر مختلف زبانیں جاننے والے مددگار بھی موجود ہیں‘ جو آپ کو فیشن ایبل کیفیز سے لے کر‘عمدہ سے عمدہ تفریح کے لئے مشورے دے سکتے ہیں۔ آپ کے لئے ریزرویشن کرا سکتے ہیں۔ تھیٹرٹکٹ کا انتظام کر سکتے ہیں اور کوئی بھی چیز جس کے آپ طلب گار ہوں‘ اسے حاصل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ کمرے کے اندر منی بار موجود ہے‘ جہاں سے کوئی بھی ڈرنک نکال کر پی جا سکتی ہے۔ کمرے میں کھانا منگوانے کے لئے 24 گھنٹے روم سروس میسر ہے۔ مہمان اپنا پسندیدہ ٹی وی شو‘ پلازمہ پر مفت دیکھ سکتے ہیں۔ پے موویز کی سہولت بھی موجود ہے (سیاحت کرنے والے افراد اس کا مطلب جانتے ہیں)۔ مہمان اپنی ای میل ہائی سپیڈ انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ باتھ رومز میں ماربل لگا ہے۔کمرے کے لئے ٹرن ڈائون سروس جسے ہم روم میکنگ کہتے ہیں‘ ہمہ وقت دستیاب ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ بستر جتنی مرتبہ چاہیں خراب کر لیں‘ ہوٹل سٹاف اسے فوراً دوبارہ درست کرنے کے لئے آ سکتا ہے۔مہمان چاہے تو فرمائش کر کے اپنے بوٹ بلامعاوضہ پالش کرا سکتا ہے۔ ہوٹل کے اندر بھی ویلے پارکنگ موجود ہے اور ایسے گیراج بھی قریب ہی واقع ہیں‘ جہاں آپ سٹریٹ پارکنگ میٹر پر اپنی کارپارک کر سکتے ہیں۔ 
بھارتی وزیراعظم کے قیام کے لئے جو ہوٹل منتخب کیا گیا‘ اس کی تفصیل پڑھ کر آپ کو بھی اندازہ ہوا کہ عطاالحق قاسمی بھی چاہیں‘ تو اسی ہوٹل میں باآسانی پرتعیش رہائش کا مزہ لے سکتے ہیں۔ جیسے بھارتی وزیراعظم کو میسر آیا۔ہمارے بہت سے ٹی وی اینکرز بھی‘ اسی ہوٹل میں قیام کر کے‘ نریندر 
مودی سے زیادہ عیش کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھ لیا ہو گا‘ وہاں کئی ایسی سہولتیں دستیاب ہیں‘ جن سے نریندر مودی فیضیاب نہیں ہوئے ہوں گے۔ مثلاً گوسپ گرلز کارنر‘ براڈوے ستاروں کے جمگھٹے یا ٹرن ڈائون سروس ‘ جس کی مدد سے آپ جب چاہیں بستر درست کرا سکتے ہیں۔ کل میں اپنے وزیراعظم کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کی جھلکیاں پیش کر چکا ہوں۔ ہو سکتا ہے‘ نریندر مودی کا دل بھی اسی طرح کے عیش و عشرت کے لئے للچاتا ہو مگر وہاں کے وزرائے اعظم کو لیچڑ قسم کے پارلیمنٹ سے واسطہ ہے۔ میڈیا بھی بہت گندا ہے‘ جو لفافہ لے کر بھی‘ اپنے وزیراعظم کی شاہ خرچیوں کو چھپانے سے انکارکر دیتا ہے اور پارلیمنٹ تو اتنی بدلحاظ ہے کہ وزیراعظم سرکاری دورے کے دوران‘ اپنے کسی دوست کے ساتھ سرکاری خرچ پر تھیٹر دیکھ لے‘ تو اس کی خبر بھی میڈیا میں آ جائے گی اور اگلے روز پارلیمنٹ کے بنئے‘ نہ صرف وزیراعظم سے دوست کے ٹکٹ کا خرچ واپس مانگ لیں گے بلکہ لمبی لمبی تقریریں کر کے‘ وزیراعظم کو شرمندہ بھی کریں گے کہ انہوں نے غریب عوام کے پیسے کو مال مفت دل بے رحم کی طرح کیوں خرچ کیا؟ وزیراعظم کا ایسے ہوٹل میں قیام کرنا‘ جس میں قدرے بہتر متوسط طبقے کے لوگ قیام کر سکتے ہیں‘ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ جمہوری ملک کا وزیراعظم ‘ سرکاری دوروں کے دوران‘ ایسے ہوٹلوں میں رہتا ہے‘ جہاں بالائی متوسط طبقے کے لوگ چاہیں‘ تو وہ بھی اپنے وسائل سے ان میں رہ سکتے ہیں۔آپ نے یہ بھی پڑھ لیا ہو گا کہ وزیراعظم مودی نے‘ جس ہوٹل میں قیام کیا‘ وہاں عام لوگوں کو آمدورفت کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں بھارتی شہریوں نے ہوٹل پیلس کے گرد جمگھٹے لگا رکھے تھے۔ میڈیسن ایونیو‘ مین ہٹن کا پررونق علاقہ ہے‘ جہاں ہر وقت عام لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ مودی صاحب ہوٹل میں اپنا سامان رکھوانے کے فوراً بعد‘ نیچے سڑک پر آ کر استقبال کرنے والوں کے درمیان گھس گئے تھے۔ امریکیوں کی فراہم کردہ سکیورٹی دھری کی دھری رہ گئی اور وہ سڑک پر مزے سے‘ ہجوم کے اندر گھومتے ہوئے‘ دور تک چلے گئے اور پھر اسی طرح پیدل واپس ہوٹل میں آ گئے۔ جبکہ ہمارے وزیراعظم کی قیام گاہ ایسے ہوٹل میں تھی‘ جس کی سڑک بھی‘ کسی حکمران کے ہوٹل میں قیام پر بند کر دی جاتی ہے۔ مودی کو کوئی خوف نہیں تھا کہ یوں سڑک پر نکل آنے سے‘ ہجوم کے اندر کوئی شخص' گومودی گو کا نعرہ لگا دے گا۔ وہ بے دھڑک عوام کے درمیان میں گھس گئے اور ان کی محبتیں وصول کر کے‘ بخیروعافیت اپنے کمرے میں واپس چلے گئے۔میرے آج اور کل کے دونوں کالم‘ ناقابل تردید سچائی پر مبنی ہیں۔ نہ میں نے کسی کی تعریف کی ہے‘ نہ برائی۔ جو کچھ جیسا ہے‘ ویسے ہی بیان کیا۔ البتہ کہیں کہیں اپنا تبصرہ ضرور کیا ہے۔ اگر آپ کوئی نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں‘ تو صرف یہ ہے کہ میں نے بھارتی وزیراعظم کی تنگدستی اور محرومی کو ضرور نمایاں کیا ہے۔ دشمن کو اتنا سا نیچا دکھانا تو بنتا ہے۔آپ اپنی پارلیمنٹ سے بھارتیوں جیسی ادنیٰ حرکت کی توقع نہ رکھیں۔ ہماری پارلیمنٹ آئین اور جمہوریت کاسختی سے تحفظ کرتی ہے۔عوامی مفاد کے لئے وزیراعظم سے کوئی سوال کرنا‘ اس کے نزدیک آئین اور جمہوریت دشمنی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved