تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     28-09-2014

ہمارے سازشی نظریے

سازشی نظریہ ایک بہت ہی مفید ایجاد ہے ۔اس نظریے کی بنیاد اس بات کا مکمل القان ہے کہ عالمی قوتیں ہمارے خلاف سازشوں میں مسلسل مصروف ہیں ۔جنرل مرزا اسلم بیگ کا یہ بیان کہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے مغربی ممالک کی سازش کا نتیجہ ہیں اسی قومی سوچ کا غما ز ہے ۔موصوف پاکستان میں سازشی نظریے کے بڑے داعیوں میں سے ہیں اور 1990ء سے اس نظریہ کے پرچار میں مصروف ہیں۔اس وقت ان کا خیال تھا کہ کویت پر غاصبانہ حملہ اور پھر قبضہ کرنے والا صدام حسین مغرب کے خلاف مزاحمت کرنے والا ہیرو ہے۔سازشی نظریے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان غور و فکر کی تکلیف سے بچ جاتا ہے ۔اصلاح اعمال کے بوجھ سے آزاد ہو جاتا ہے ۔کیونکہ جب آپ کو مکمل یقین ہو جائے کہ امریکہ ہندوستان برطانیہ وغیرہ سب پاکستان کو ہدف بنائے ہوئے ہیں تو آپ کی نفسیاتی کیفیت اس آہوئے صحرا والی ہو جاتی ہے جس کے اردگرد تین چار درندے رہتے ہوں۔
ہمارے ہاں یہ سوچ عام ہے کہ بنگلہ دیش بھارت اور مغربی ممالک کی سازش کا نتیجہ تھا۔اس سوچ کا فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخی غلطیوں کا سامنا کرنے سے بچ جاتے ہیں۔ مگر نقصان اور نہایت شدید نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ہم وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔میں نے کئی بھارتیوں سے سنا ہے کہ برصغیر کی تقسیم بھی دراصل برطانوی سازش تھی کہ ہندوستان بہت طاقتور ملک نہ بن سکے اور پاک ہند جنگوں میں مغربی اسلحہ استعمال ہوتا رہے۔اسی نظریہ کے حامل لوگ مجھے عرب ممالک میں اکثر ملے ہیں۔میں نظریہ سازش پر یقین نہیں رکھتا لیکن کئی دفعہ اسے مکمل طور پر رد کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے لیکن میں اس کوشش میں ضرور رہتا ہوں کہ اس نظریے کو عقل اور دلائل کی کسوٹی پر ہر صورت پرکھوں مثلاً بنگلہ دیش کے حوالے سے اکثر میرا سوال ہوتا ہے کہ کیا بھارت نے ذوالفقار علی بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ڈھاکہ میں ہونے والے پارلیمینٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کریں۔
حال ہی میں سیلاب کے حوالے سے پھر سازشی نظریہ سامنے آیا ہے کہا گیا ہے کہ ہندوستان نے پیشگی وارننگ دینے کی بجائے چناب اور جہلم کا پانی پاکستان کی طرف چھوڑ دیا۔اس سوچ میں بھی سقم ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب جموں اور وادی کشمیر میں چند گھنٹوں میں ریکارڈ بارش ہوئی تو ہندوستان اتنے پانی کو کیسے روک سکتا تھا ۔دوسرے ہمارے انڈس واٹر کمشنر نے کہا ہے کہ ہندوستان نے ہمیں اطلاع کر دی تھی۔ دراصل سیلاب کی تباہی میں کچھ قصور ہمارا اپنا بھی تھا ۔ہمارے محکمہ موسمیات نے بارشوں کی وارننگ دے دی تھی۔اس صورت میں ضروری تھا کہ منگلا ڈیم میں مخزون پانی کا وافر حصہ پہلے سے نہروں میں چھوڑ دیا جاتا۔سیلاب کا ریلا پہلے ڈیم کو بھرتا اور پھر آگے جاتا۔کیا اس بات کی کوئی تحقیق کرے گا کہ منگلا ڈیم کو بروقت خالی کیوں نہ کیا گیا۔کیا ہندوستان نے کہا تھا کہ اپنی عقل استعمال نہ کرو۔
ہمارے سازشی نظریے کی ایک جلی اور واضح مثال ملالہ یوسف زئی پر ہونے والا قاتلانہ حملہ تھا ۔یار لوگوں کا کہنا تھا کہ حملہ ہوا ہی نہیں یہ سب ڈرامہ ہے جو مغربی طاقتوں کے کہنے پر رچایا گیا ہے اور اس ڈرامے کا مقصد طالبان کے خلاف آپریشن کو شروع کرانا تھا حالانکہ غور سے دیکھیں تو ملالہ پر حملے اور طالبان کے خلاف آپریشن کے درمیان لمبا وقفہ ہے لیکن سازشی نظریہ کے حامیوں نے اس ضمن میں کیا کیا دلائل نہ دیے ۔کسی نے کہا کہ منہ پر گولیاں لگیں اور چہرہ سلامت رہا یہ کیسے ہوا ۔کسی نے دلیل دی کہ اگر واقعی ملالہ کے سر کی سرجری ہوتی تو تمام بال سر پر کیسے رہتے۔چند ہفتے پہلے ملالہ کے قاتل گرفتار ہوئے تو نظریہ سازش کے حامی آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ایک صاحب کہنے لگے کہ ملالہ کو یہ بھاری رقوم اس کے مغربی آقائوں نے دی ہیں ۔بھئی ملالہ نے کتاب بھی تو لکھی ہے ۔اسے درجنوں انعام بھی تو ملے ہیں۔ہمیں امریکہ کی خیرات پر اعتراض نہیں لیکن ایک دختر پاکستان سیلاب متاثرین کے لیے امداد بھیج دے تو ہم ہزار کیڑے نکالتے ہیں کیونکہ ہماری نظر میں وہ مغربی سازش کا حصہ ہے۔
تو جناب حل آسان ہے کشکول توڑ دیا جائے ،آئی ایم ایف اور امریکہ کو خدا حافظ کہیے اور ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے شروع کر دیجیے۔پاکستان کی عزت نفس بھی بحال ہو جائے گی،ہم اپنے فیصلے اپنے قومی مفاد کی روشنی میں کرنے لگ جائیں گے جس طرح برادر اسلامی ملک ترکی کرتا ہے لیکن افسوس ہم یہ بھی نہیں کرتے تو پھر ہم چاہتے کیا ہیں کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ سے امداد بھی لیتے رہیں ،آئی ایم ایف کے آئی سی یو میں ہماری نگہداشت ہوتی رہے اور ہم اپنی تمام بیماریوں کا سبب بھی مغرب کو سمجھتے رہیں۔
نظریہ سازش کے ضمن میں سب سے دلچسپ صورت حال نائن الیون کے حوالے سے سامنے آئی۔کئی سال یار لوگ کہتے رہے کہ یہ امریکی حکومت اور یہودیوں کا رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔دونوں ٹاورز میں بارود رکھا گیا ۔ٹاورز کے مختلف دفتروں میں کام کرنے والے یہودی اس دن چھٹی پر تھے ۔حملہ آوروں کے نام فرضی تھے ۔اصلی حملہ آور امریکی حکومت اور یہودیوں کے ایجنٹ تھے۔مقصد افغانستان اور عراق پرحملے کا جواز بنانا تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ حملے انیس دہشت گردوں نے کئے جن کا لیڈر محمد عطانامی مصری نوجوان تھا ۔فضائی حملہ آوروں کی اکثریت عرب شہریت کی حامل تھی۔ان سب کے نام درجنوں مرتبہ اخباروں میں آ چکے ہیں آج تک کسی مصری یا اماراتی فیملی نے یہ نہیں کہا تمام ناموں کے حامل لوگ زندہ ہیں۔میں نے واشنگٹن میں صحافت کے میوزیم میں نائن الیون کے دو دہشت گردوں کے پاسپورٹ دیکھے ہیں جو قدرے جلے ہوئے ہیں لیکن ان کے نام پڑھے جا سکتے ہیں۔کیا کبھی ان کی حکومتوں نے کہا کہ یہ پاسپورٹ جعلی ہیں۔میں نے نظریہ سازش والوں سے بھی بحث کی ہے لیکن وہ اب بھی مصر ہیں۔ استدلال یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے کو سطح زمین پر چلنے والی چیونٹی کا بھی علم ہوتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ چار ہوائی جہاز امریکہ میں اغوا ہوں اور اسے علم نہ ہو۔ وہ مجھے اب بھی باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ نائن الیون سی آئی اے اور یہودیوں کی سازش تھی۔تو پھر اسامہ بن لادن کا پاکستان میں کئی سال قیام کس کی سازش تھی؟
لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ نظریہ سازش کے داعیوں کے مطابق ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا مارا جانا بھی ٹوپی ڈرامہ تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ایبٹ آباد میں مارا جانے والا شخص کوئی اور تھا۔اسامہ کی تین بیویاں اور ان کے بچے اب آزاد ہیں۔ اگر ایبٹ آباد میں ہونے والی کارروائی محض ڈرامہ تھی تو اسامہ کے پس ماندگان حقیقت سے پردہ کیوں نہیں اٹھا سکتے ؟آخر سیاسی بلوغت اور بے لاگ سوچ ہم میں کب آئے گی ؟ کب تک ہم نظریاتی جنگل میں یونہی بھٹکتے پھریں گے؟
جنرل اسلم بیگ اس دفعہ دور کی کوڑی لائے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق امریکہ ،برطانیہ ،کینیڈا کے علاوہ پاکستان کے خلاف سازش میں ایران بھی شامل ہے ۔مقصد پاکستان میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے ذریعے مارشل لا لگوانا تھا ۔مارشل لا کے خلاف ہر طرح کی مزاحمت یقینی تھی۔ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ سکتا تھا۔ انتہائی عدم استحکام کی صورت میں مغربی ممالک کہتے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں ،ان کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی امن فوج کا بھیجنا ضروری ہے یا ویانا والی اٹامک ایجنسی کے نمائندے پاکستان میں رہ کر ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔
ہمارا اب قومی شیوہ بن چکا ہے کہ بغیر تحقیق کے بات کر دیتے ہیں جاوید ہاشمی کا یہ بیان کہ لندن میں عمران قادری ملاقات میں گورنر چودھری محمد سرور موجود تھے ،اسی ذہنی کمزوری کی علامت ہے ۔جب ہاشمی صاحب سے ثبوت مانگا گیا تو فرمانے لگے کہ یہ بات میں نے کسی سے سنی تھی ۔سبحان اللہ اتنا تجربہ کار سیاست دان اور سنی سنائی باتوں پر مکمل ایمان‘دکھ کی بات یہ ہے کہ جب ہاشمی صاحب نے یہ بہتان لگایا تو گورنر صاحب جرمنی میں سیلاب زدگان کے لیے امداد اکٹھی کر رہے تھے۔
گورنر سرور اور ملالہ پاکستان کے سافٹ چہرے ہیں ۔مغربی ممالک دونوں کو پسند کرتے ہیں لیکن دونوں محب وطن پاکستانی ہیں۔ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو اپنی سوچ کی اصلاح ضروری ہے ۔نظریہ ضرورت مفید ایجاد ہے لیکن خطرناک بھی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved