تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     28-09-2014

نئی سیاسی ڈکشنری

لسانیات کے ماہر ایک پروفیسر نے تجویز کیاہے کہ گلوبٹ کانام ایک اصطلاح کے طورپر آکسفرڈ ڈکشنری میں شامل کیا جائے۔ جس سے مراد ہوگی کہ ایک ایسا شخص جوتخریب اور توڑ پھوڑ کے معنی اورمفہوم ادا کرے ۔تجویز کیاگیاہے کہ آکسفرڈکشنری کے بھارتی اورپاکستانی ایڈیشن میں ''گلو‘‘ کا لفظ شامل کیاجائے ،''بٹ‘‘ برادری دوسری برادریوں کی طرح ہی پُر امن اور باعزت ہے ،لہٰذا اس کا حوالہ دینا مناسب نہیں ہے۔قیاس کیاجارہاہے کہ ڈکشنری میں ''گلو ‘‘ ''گلوازم ‘‘ اور ''گلونائزیشن ‘‘ کی اصطلاحات شامل کی جاسکتی ہیں۔ ماہر لسانیات کی طرف سے کشمیری برادری کے ساتھ ہمدردی کے رویے سے مجھے ان قومی رہنمائوں کی تیزابی تقریریں بھی یاد آگئیںجو وہ ہر شب کنٹینر کے اندر اور باہر سے کرتے ہیں۔ اس جوڑی کی خدمت میں عرض ہے کہ میاں برادران کی سیاست اور حکومت پر بلاشبہ ہزار مرتبہ تنقید کی جائے مگر ان کے کشمیری ہونے پر تنقید کرنا غیر مناسب فعل ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ کے لئے بٹ برادری نے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔مقبول بٹ آزادیِ جموںوکشمیر کے سرخیل تھے جنہوں نے بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف جام ِشہادت نوش کرکے ثابت کیاکہ کشمیری ایک حریت پسند قوم ہے۔لہٰذا میاں برادران کے کشمیری ہونے کا طعنہ پوری کشمیری قوم کو نہ دیاجائے۔
طنز وطعنہ اور گلہ شکوہ سے آگے بڑھتے ہوئے بات کی جائے تو ہمارے ہاں معاشرت، سیاست،جمہوریت اور آمریت کے وسیع میدانوں میں ایسے ایسے کردار نمودار ہوئے ہیں کہ اگر گلو بٹ انہیں کہیں مل جائے تو گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر پانچ سو روپیہ نذر بھی کرے۔ ذرا سوچیں کسی روز گلو کو اچانک چوہدری شجاعت کی زیارت ہوجائے تو اس کی تمام تر بڑھکیں گونگی نہیں ہوجائیںگی؟مٹی پائو گروپ آف انڈسٹریز کے روح ورواں کا نام جب بھی آئے گااس سے مراد لی جائے گی کہ ان کی سیاست میں سب سے زیادہ Political Elasticity (سیاسی لچک) پائی جاتی ہے۔ چوہدری برادران مشرف کو 10مرتبہ وردی میں بطور صدر قبول کرنے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری کو بھی صدقِ دل سے صدر تسلیم کرلیتے ہیں۔ یہ چوہدری برادران کی لچکدار سیاست کی معراج ہے کہ وہ بیک وقت عمران خان کی تبدیلی اور طاہر القادری کے انقلاب کے ہمنوا بھی ہیں۔وہ لندن پلان کے بھی روح ورواں ہیںلہٰذا ان کا نام سیاسیات کی ہرقسم کی ڈکشنری ، لغت حتیٰ کہ چھوٹی بڑی جنتریوں میں بھی شامل کیاجانا چاہیے۔ 
ہمارے سویلین اور فوجی حکمران کئی قسم کے ریکارڈ ہولڈرز ہیں۔اب جنرل ریٹائرڈ مشرف کو ہی لیجئے، ان سے قبل کسی آمر نے اپنے آپ کو عدالتوں کے سپرد نہیں کیاتھا ۔سپر د تومشرف صاحب نے بھی نہیں کیالیکن ان کے حوالے سے یہ کہاجاسکتا ہے کہ ''صاف چھپتے بھی نہیں ‘سامنے آتے بھی نہیں ‘‘۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد کی ان تقریروں کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے جو انہوں نے میڈیا کا دھیان دھرنے والوں سے ہٹانے کے لئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کیں۔ڈکشنری میں ان کانام ''جمہوریت کے باڈی گاڈ‘‘ کی حیثیت سے درج کیاجاناچاہیے۔ محترم آصف علی زردای کانام سیاست میں افہام وتفہیم اور برداشت کی سیاست کے حوالے سے درج کیاجانا چاہیے۔انہوں نے جس طرح اپنے دور میں میاں برادران کی اپوزیشن، میڈیا اور جوڈیشل ایکٹوازم ، اسٹیبلشمنٹ اور سب سے بڑھ کر الطاف بھائی کو ڈیل کیا، ان کا نام ڈکشنری سمیت تزکِ بابری اور تزک جہانگیری میں بھی درج کردینا چاہیے۔ آصف زرداری کی جملہ کامیابیوں کاتفصیلی تذکرہ علیحدہ جلدوں میں ''فرہنگ آصفیہ ‘‘ کے عنوان سے محفوط کیاجاسکتاہے۔ 
گورنر پنجاب محمد سرور کا تذکرہ بھی میڈیا میں خاص انداز سے کیاجارہاہے۔رات گیارہ بجے والے تجزیہ نگار بتارہے تھے کہ گورنر سرور کو میاں برادران سے شکایات ہیں۔حمزہ شہباز بھی ان کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں ۔ گورنر صاحب کو چھوٹے موٹے کام کی اجازت بھی وزیر اعلیٰ سے لینا پڑتی ہے ۔ہیلی کاپٹر کے حصول کے لئے انہیں کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتاہے جوحکمران فیملی کے تصرف میں ہوتاہے ۔گورنرسرور کانام لندن پلان کے حوالے سے لیاجارہاہے ۔وہ الطاف بھائی کو ملنے لندن بھی گئے تھے ، آنے والے دنوں میں وہ کیاکریں گے معلوم نہیں تب تک ان کا نام ''ناراض نسلیں‘‘ کے طور پر شامل کیاجاسکتاہے ۔ شیخ رشید کا نام ڈکشنری میں کئی حوالوں سے شامل کیاجاسکتاہے ۔ایک وقت تھا جب عمران خان کہاکرتے تھے کہ ''خدا انہیں شیخ رشید جیسا سیاستدان بننے سے محفوظ رکھے‘‘اسی قسم کے خیالات اب آصف زرداری کے حوالے سے ہیں۔کپتان سیاست میں اتنا تو سمجھ ہی چکے ہیں کہ شیخ رشید ، قادری ، چوہدری برادران اور آصف علی زرداری میں سب سے بھاری کون ہے؟کپتان اگر کراچی میں جا کر ایک عظیم الشان جلسہ پھڑکاتے ہوئے متحدہ اور الطاف حسین کا نام اپنی زبان پر نہیں لاتے تو پھر تبدیلی کسے کہتے ہیں ؟ تبدیلی آنہیں رہی۔تبدیلی آچکی ہے۔ لہٰذا کپتان کا نام اور ''تبدیلی‘‘ کی اصطلاح سنہرے حروف میں ڈکشنری میں شامل کی جاویں ۔
الطاف بھائی نے سیاست میںٹیلی فون کی ایجاد سے جس طرح استفادہ کیاہے ان کا نام ڈکشنری میں شامل کیا جانا چاہیے۔ ٹیلی فون کا موجد کہیں بھائی کو ملتا تو گھٹنوںکے بجائے پیریں (پائوں) پڑتے ہوئے اپنی اگلی ایجادات کے لئے آشیر باد لیتا۔ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی میں باغی اور داغی ہونے کا فیصلہ ہو جائے توان کانام اصل صفات کے ساتھ شامل کیاجائے۔ جاوید ہاشمی پر داغی ہونے کا الزام لگایاجارہاہے جبکہ فریق دوم کے حوالے سے یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہوچکی ہے، لہٰذا وہ بھی میرٹ پر ہیں۔بزرگ سیاستدان غلام مصطفی کھر کا نام ''سابق شیر ِازدواج ‘‘ کے طور پر شامل کیاجاسکتاہے۔یہ ٹائٹل آج جس سیاستدان کے پاس ہے اس کا نام آکسفرذ میں شامل کئے جانے کی اور بہت سی وجوہ ہیں۔ ان کی خفیہ تصنیف ''کشتہ ہائے وفا‘‘ زیر مارکیٹ دستیاب ہے جو مطالعہ کے لائق ہے۔ 
معروف کالم نگار وسعت اللہ خان نے پرویز خٹک کو ''پرویز کتھک‘‘ کا تخلص دیاہے۔مجھے اعتراض ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ڈی جے بٹ کے ڈھول پر مجہول سا ڈانس کرتے ہیں جو خٹک اور کتھک دونوں پیرائے سے باہر ہے ،بہر حال ان کی مون ریکنگ حرکات کو رقص کے زمرے میں شامل کرنے کی استدعا کی جاتی ہے۔
سیاست کے بالی وڈ کے دیگر سٹارز میں وزیر اعلیٰ سند ھ قائم علی شاہ کا نام بھی ممتاز ہے۔شاہ جی نے وزارت اعلیٰ کی ہیٹرک فرمائی ہے۔ ان کا نام بمعہ تصویر شامل کیاجائے اورنیچے لکھ دیا جائے ''مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘۔چوہدری نثار علی خان اور چوہدری اعتزاز احسن کے ناموں کے نیچے لکھا جاسکتا ہے کہ ''سوتن کبھی سہیلی ‘‘ یا ''سکندر اور پورس ‘‘۔ایک ولی عہد سیاست کا نام نہیں صرف کوڈ دیا جائے کہ ''پولٹری کنگ ‘‘ سب سمجھ جائیں گے کہ کس ہستی کا ذکر ِخیر ہے۔ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو کے نام ''زیر تعمیر قیادت ‘‘ کے طور پر شامل کئے جاسکتے ہیں جبکہ مونس الٰہی کا نام ''تلاش ِگمشدہ ‘‘ کے طور پر ڈکشنری میں شامل کئے جانے کی سفارش کی جاتی ہے۔
خواجہ سعد رفیق کے نام کے ساتھ لکھا جانا چاہیے''بریانی ایکسپریس‘‘۔اسحاق ڈار کی حیثیت فلمسٹار شان جیسی ہے جو فلم انڈسٹری فلاپ ہونے کے باوجود سپرسٹار ہیں۔ہماری اکانومی فلاپ اور وزیر خزانہ سپر ہٹ جا رہے ہیں۔ رحمن ملک کانام ''ملک طیارہ ‘‘ کے طور پر شامل ہوسکتا ہے ۔اس سے قبل ہمارے ہاں ''گجرطیارہ ‘‘ اور ''وڑائچ طیارہ ‘‘ بھی ٹرانسپورٹ کی دنیا میں معروف ہیں۔مولانا فضل الرحمن کانام پٹرولیم مصنوعات میں دلچسپی کے حوالے سے میرٹ پر ہے۔ محمود اچکزئی کی چادر کی سیاست کو عمران خان نے '' اک چادر میلی سی‘‘ قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔کپتان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے ہاں تو سیاست کی ایسی چادریں لہراتے دیکھی جاسکتی ہیں جن کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ ''جنم جنم کی میلی چادر‘‘۔امیر جماعت اسلامی کانام ''امن کا سفیر ‘‘ ماروی میمن ''امن کی بلبل ‘‘ اور شیریں مزاری کا نام ''تبدیلی کی کوئل ‘‘ کے طور پر شامل کیاجانا چاہیے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved