تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     29-09-2014

شہنشاہِ معظم

میرے سامنے شائع شدہ ایک ایسی خبر ہے جس سے مکمل طور پر ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کو ملک کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کے ذہن میں کوئی تصویر، کوئی خاکہ،کوئی آئوٹ لائن نہیں جس سے وہ کاروبار مملکت چلائیں۔ یہ ایک ایسی مضحکہ خیز صورتحال ہے جس کا کسی صورت دفاع نہیںکیا جاسکتا۔
ذرا منظر کا تصور کیجیے۔ کابینہ کا اجلاس ہو رہا ہے۔ وزیراعظم حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے کرسی صدارت پر تشریف فرما ہیں۔ وزیراعظم پوچھتے ہیں کہ اضافی بلنگ کا جو معاملہ ہوا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وزیراعظم وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف سے پوچھتے ہیں کہ وہ وزارت کے سربراہ ہیں۔ وہ بتائیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ وفاقی وزیر جواب میں ایسا الزام لگاتے ہیں کہ اگر کوئی بھی سنجیدہ وزیراعظم ہوتا تو معاملے کو آر یا پار کرتا اور وہیں اجلاس کے دوران کرتا۔ خواجہ آصف پوری کابینہ کے سامنے الزام لگاتے ہیں کہ ''پنجاب‘‘ ایک سیکرٹری اور ایک مشیر کے ذریعے ان کی وزارت چلا رہا ہے۔ بڑے فیصلے وفاقی وزیر کے علم میں لائے بغیر کیے جاتے ہیں اور ان فیصلوں پر عمل اس سیکرٹری اور مشیر کے ذریعے کرایا جاتا ہے۔ انہوں نے برملا کہا کہ ان کی وزارت ''پنجاب‘‘ چلا رہا ہے۔ وزیر مملکت عابد شیر علی نے بھی کہا کہ فیصلے کوئی ''اور‘‘ کرتا ہے اور عوام انہیں مطعون کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر اس کے ساتھ ہی اپنا استعفیٰ پیش کر دیتے ہیں۔
یہ ایک ایسا سنجیدہ معاملہ تھا کہ وزیراعظم کو وہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہیے تھا۔ انہیں پوچھنا چاہیے تھا کہ خواجہ آصف ''پنجاب‘‘ سے کیا مراد لے رہے ہیں؟ وہ سیکرٹری اور مشیر کون ہیں جو وزارت کے معاملات سنبھال کر بیٹھے ہیں؟ کابینہ کے اس اجلاس میں ان دونوں حضرات کو طلب کیا جاتا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ وجہ ظاہر ہے پنجاب سے مراد پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔ ایک وزیر نہیں سو وزیر شکایتیں کرتے رہیں اور استعفے پیش کرتے رہیں، بھائی آخر بھائی ہے۔ وزارت کا ، رولز آف بزنس کا، ملک کے وقار کا، کابینہ کے سامنے باعزت رویے کا... جتنا بھی مقام و مرتبہ ہے، خاندان کے سامنے تو پھر بھی کچھ نہیں!
وزیراعظم کے بھائی ملک کے وفاقی دارالحکومت میں میٹرو چلانے کے بھی ذمہ دار ہیں اور دوسرے ملکوں میں جا کر وزارت خارجہ کے معاملات بھی چلاتے ہیں، کبھی بھارت، کبھی چین، کبھی ترکی اور کبھی برطانیہ۔
لیکن اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر پانی و بجلی ایک طرف وزیراعظم کو استعفیٰ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک غیر موثر اور کمزور وزیر بن کر نہیں رہنا چاہتے اور وہ نام کا وزیر بننے کی بجائے قلمدان چھوڑنے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن دوسری طرف جب وزیراعظم ان کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے اور ان کی شکایت پر ایکشن لینے کے بجائے محض یہ کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب اپنا کام جاری رکھیں، تو خواجہ صاحب کی ساری بے بسی کافور ہو جاتی ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک کمزور اور غیرموثر وزیر ہیں۔ جھنڈے والی کار اور کابینہ کے اجلاس میں دھری ہوئی ایک کرسی دراصل اتنی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ اس کی خاطر اگر کمزور اور غیر موثر وزیر بھی بننا پڑے اور وزارت ہائی جیک بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں!
مسلم لیگ نون کی حکومت کتنی ''باعزت‘‘ ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ایک معروف خاتون ایتھلیٹ کے بقول پنجاب کے ایک سینئر وزیر نے یوتھ فیسٹیول میں انہیںطلائی تمغہ پہنایا مگر پھر یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ انہیں چیک دیا جائے گا۔ چیک بینک میں جمع کرایا تو وہ بائونس ہوگیا۔ نوسربازی کی یہ ایک پست مثال ہے!!
جس ملک میں وفاقی وزارتیں وزیراعظم کے قریبی رشتہ دار چلا رہے ہیں اور وزراء استعفے پیش کرتے پھر رہے ہیں، جس ملک میں وزیر طلائی تمغے پہنا کر واپس لے لیتے ہیں، اس ملک کے وزیراعظم اقوام متحدہ جاتے ہیں تو ان کیلئے ''گلف سٹریم‘‘ سے پرائیویٹ جیٹ جہاز لیا جاتا ہے۔ جس کا کرایہ دس ہزار ڈالر (یعنی دس لاکھ روپے) فی گھنٹہ ہے۔ ایک طرف کا سفر اٹھارہ گھنٹے کا ہے۔ دو طرفہ سفر چھتیس گھنٹے ہوا۔ کل لاگت تین لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر یعنی تین کروڑ ساٹھ لاکھ روپے آئی۔ جس ہوٹل میں وزیراعظم ٹھہرے اس کے عام کمرے کا کرایہ آٹھ ہزار ڈالر (یعنی آٹھ لاکھ روپے) یومیہ ہے۔ امریکی صدر اوباما نے یہی کمرہ لیا۔ تاہم وزیراعظم کیلئے خاص سویٹ لیا گیا جس کا کرایہ مبینہ طور پر بارہ ہزار ڈالر یومیہ ہے۔ تیس کمرے اس کے علاوہ بک کرائے گئے۔ ایک دن کا کرایہ ان تیس کمروں کا (30x8000) دو لاکھ چالیس ہزار ڈالر یعنی دو کروڑ چالیس لاکھ روپے بنا۔ سنا ہے کہ لاہور کے ایک ریستوران سے کھانا بھی منگوایا گیا۔ اس کے نقل و حمل پر آٹھ ہزار پانچ سو ڈالر خرچ ہوئے۔ یہ صرف موٹے موٹے اخراجات ہیں۔
اس سارے پس منظر میں اس حقیقت پر غور کیجیے کہ اقوام متحدہ نے پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ وہ القاب لگائے جو بادشاہوں اور شہنشاہوں کے لئے مخصوص ہیں۔ یعنی ہزہائی نس! جبکہ جمہوری ملکوں کے سربراہوں کے نام کے ساتھ ہز ایکسی لنسی لکھا جاتا ہے!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved