تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-09-2014

آزمائش

حکمران کی ذمہ داری بہت بڑی ہوتی ہے۔ خودپسندی کا وہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ عجیب بات مگر یہ ہے کہ ان میں سے اکثر خودپسند ہوتے ہیں۔ اللہ کی کتاب سچ کہتی ہے‘ آزمائش ہی ہے‘ زندگی آزمائش ہی۔ 
اقوام متحدہ میں وزیراعظم کے خطاب پر دانشوروں کا ردّعمل دلچسپ ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا: یہ آئی ایس آئی کا لکھا ہوا سکرپٹ تھا۔ دوسرے نے ارشاد کیا: فوج غالب آ گئی۔ 
پینتیس برس ہوتے ہیں سجاد میر کے ساتھ سلیم احمد کی خدمت میں حاضر تھے۔ اپنا ایک مضمون انہوں نے پڑھ کر سنایا ''فلسفی وہ شخص ہوتا ہے‘ جو ایک تاریک رات میں‘ ایک بند کمرے میں‘ ایک کالی بلی کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہو... نے وہ بلی پکڑ لی ہے‘‘۔ بعض پاکستانی اخبار نویس معلم بن گئے ہیں۔ ان کی تحریروں سے یہ ٹپکتا ہے کہ دنیا کی ہر بات کا انہیں علم ہے۔ امام شافعی نے کہا تھا: اپنی رائے کو میں سو فیصد درست سمجھتا ہوں لیکن اس امکان کو بھی سو فیصد ہی تسلیم کرتا ہوں کہ اس کے غلط ہونے کا امکان ہے۔ ہم تجزیہ کرتے ہیں‘ غلط بھی ہو جاتا ہے۔ جب درست ہو تو اس کا حوالہ دیتے ہیں‘ جب غلطی ہو جائے تو کبھی کبھار اس کا ذکر بھی کرنا چاہیے۔ زندگی کی عظیم ترین مسرتوں میں سے‘ شاید سب سے بڑی مسرت سیکھنے کا عمل ہے۔ وہ کیا سیکھے گا جو اپنا سامنا کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو۔ 
پاکستانی معاشرے کی بدیہی سچائیوں میں سے ایک یہ ہے کہ فوج اور سول میں ہم آہنگی کے بغیر‘ یہ ملک ڈھنگ سے چل نہیں سکتا۔ ہم آہنگی کا اصول یہ ہے کہ وہ سچائی اور بے ساختگی کے ساتھ بروئے کار آنی چاہیے۔ بہترین اتحاد‘ اصولوں پر تشکیل کردہ اتحاد ہوتا ہے‘ مجبوری کا نہیں۔ پاکستان کا تو ذکر ہی کیا کہ وہ خود سے آٹھ گنا بڑے دشمن کے ساتھ پیدا ہوا اور اس کے ساتھ ہی جیتا ہے۔ 236 برس کی جمہوری تاریخ رکھنے والے امریکہ بہادر کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ افغانستان کے بارے میں صدر اوباما کی ترجیحات مختلف تھیں مگر انہیں پینٹاگان کی ماننا پڑی۔ صاف صاف امریکی جنرل یہ کہتے تھے کہ صدر کو ہماری راہ پر چلنا پڑے گا۔ 
دنیا کے ہر ملک میں دفاعی معاملات اسی طرح طے پاتے ہیں۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ عسکری معاملات کا ادراک فوجی قیادت ہی کر سکتی ہے۔ رائے اس کی غلط بھی ہو سکتی ہے؛ چنانچہ اس پر بحث ہونی چاہیے مگر خوش دلی کے ساتھ۔ 
بالادستی سول کی ہونی چاہیے۔ اختیار سیاسی قیادت کو سونپا جاتا ہے۔ اس امر کو لیکن کمال بے دردی کے ساتھ نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ ہر اختیار کی حدود ہوتی ہیں۔ حق حکمرانی آئین کی حدود میں بروئے کار آنا چاہیے۔ اب ایک حکمران تو وہ ہوتے ہیں‘ اپنا اقتدار بچانے کے لیے فوج کے سامنے جو بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ مثلاً سابق صدر زرداری۔ ان سے سکیورٹی پالیسی بنانے کی درخواست کی گئی تو جواب ملا‘ جی ایچ کیو بنا دے‘ وہ اس پر دستخط کردیں گے۔ دوسرے ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نوازشریف ایسے‘ وزیراعظم کی بجائے جو خود کو بادشاہ سلامت سمجھتے ہیں۔ اختلاف رائے کو نافرمانی سمجھتے ہیں۔ 
عسکری قیادت نے بھی پہاڑ سی غلطیاں کیں۔ ایک آدھ نہیں‘ تین بار لگ بھگ ایک ایک عشرے کے لیے فوج اقتدار میں رہی۔ اس کی وجہ سے ایک خاص مزاج پروان چڑھا ہے۔ ایک جنرل نے جو سبکدوش ہو چکے‘ ایک بار اس ناچیز سے کہا: ہر ملک میں ایک گروہ ہوتا ہے‘ جو قیادت کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو۔ پاکستان میں یہ فوج ہے۔ 
بجا ارشاد لیکن تجربہ اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتا۔ بے شک فوجی حکومتوں میں معیشت فروغ پذیر ہوتی اور امن و امان بہتر ہو جاتا ہے۔ غربت اگر کم ہوئی تو جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں۔ دوسرا پہلو مگر یہ ہے کہ جو کچھ فوج تعمیر کرتی ہے‘ آخری برسوں میں وہ سب کا سب برباد ہو جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اگر یہ نسخہ واقعی کارگر ہوتا تو کسی اور ملک میں بھی آزمایا جاتا۔ انسان کی فطرت یہ ہے کہ اس کی بہترین صلاحیت آزادی میں بروئے کار آتی ہے۔ آزادی میں ڈسپلن اور ڈسپلن میں آزادی۔ فروغ پذیر اور مہذب معاشرہ اداروں کی تعمیر کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ ایک ایسا نظام جہاں سبھی قانون کے پابند ہوں اور خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ کیا جا سکے۔ سب سے بڑھ کر اخلاقی اقدار کا فروغ‘ احساس اور شعور کی نشوونما۔ احساسِ ذمہ داری کے بغیر آزادی حیوانیت ہے۔ 
اقوام متحدہ میں وزیراعظم کا خطاب آئی ایس آئی کا لکھا ہوا نہیں تھا؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ نیویارک روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی۔ ظاہر ہے کہ اس میں بھارتی رویے پر بھی بات ہوئی ہوگی اور ظاہر ہے کہ کشمیر پر بھی۔ 
سال گزشتہ کے خطاب میں بھی وزیراعظم نے کشمیر کا ذکر کیا تھا‘ لیکن اس بھرپور انداز میں نہیں۔ اس ایک برس میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔ یہ بات واضح ہو گئی کہ دہلی کا رویہ تکبر پر مبنی ہے اور کیوں نہ ہو۔ ایک ہزار برس کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ اس خطے میں برہمن کو مسلمانوں پر بالادستی حاصل ہوئی ہے۔ بھارت ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے اور عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ 1988ء تک پاکستان کی شرح نمو‘ بھارت سے زیادہ رہی‘ کبھی کبھی تو تین گنا تک۔ پھر انہوں نے تاریخ سے سبق سیکھا اور ہم نے جو کچھ سیکھا تھا‘ وہ بھی بھلا دیا۔ اس اثنا میں صرف جنرل مشرف کے چند برس ایسے تھے‘ جب بھارت کے برابر نہ سہی‘ معاشی فروغ میں ہماری رفتار قدرے تسلی بخش تھی۔ یوں تو ہماری سول حکومتوں کا حال بھی پتلا ہی رہا‘ فوجی حکومت کا مسئلہ مگر یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی حال میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کر ہی نہیں سکتی۔ 
جلدی نہ سہی‘ تاخیر ہی سے سیکھا جائے۔ ان پر صد ہزار افسوس جو سیکھنے سے انکار ہی کردیں۔ مارشل لاء اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت ایسے فرسودہ نظریات کو اب ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردینا چاہیے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ سیاسی جماعتوں میں کمزوریاں ہیں۔ ان کمزوریوں سے انہیں نجات پانا چاہیے اور اس عمل میں پورے معاشرے کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ خیرخواہی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ صحیح مشورہ دیا جائے‘ خواہ وہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ آخر کار سچائی ہی غالب آتی ہے اور آخر کار زندہ ضمیر کے ساتھ جینا ہی‘ بامعنی زندگی ہے۔ سرکارؐ کا ارشاد یہ ہے: جو مجھ سے محبت کرتا ہے‘ وہ جھوٹ نہ بولے اور خیانت نہ کرے۔ 
خارجہ امور پر وزیراعظم اور عسکری قیادت میں فاصلہ اگر کم ہوا تو یہ خوش آئند ہے۔ اندازِ فکر کا اختلاف مگر اب بھی ان میں پایا جاتا ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کی برطرفی کے بعد‘ جب مسلسل ان کی توہین کی جاتی رہی‘ وزیراعظم نے بعض ناقص تصورات پال لیے۔ بھارت اور افغانستان کے بارے میں ان کے تجزیے المناک حد تک غیر منطقی ہیں۔ بجا کہ نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پرویز رشید‘ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور شدید بدتمیزی‘ حکمران کا ظرف لیکن بڑا ہونا چاہیے۔ نہیں ہوگا تو وہ نقصان اٹھائے گا اور اتنا کہ اس کی زندگی بے ثمر ہوگی۔ اپنے ملک اور معاشرے کو تعمیر کرنے کی بجائے‘ وہ اس کی بربادی کا باعث بنے گا۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف تو شاید کچھ سیکھ سکیں‘ پرویز رشید قسم کے لوگوں سے وزیراعظم کو فوراً ہی نجات پا لینی چاہیے۔ اطلاعات کا وہ وزیر ہے اور پیغام اسے دینا ہوتا ہے مگر جملے بازی کے سوا کوئی ہنر رکھتا ہی نہیں۔ پڑھنے لکھنے ہی سے نہیں‘ پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت سے بھی اسے گریز ہے۔ 
اس نادر روزگار صوفی فضیل بن عیاضؒ نے امیر المومنین ہارون الرشید سے یہ کہا تھا: اے خوبصورت چہرے والے تیرا کیا ہوگا۔ تجھے تو پوری امت کا حساب دینا ہے۔ آج ہارون الرشید کی قبر تک باقی نہیں اور فضیلؒ راہ سلوک کے ہر مسافر کے دل میں زندہ ہے۔ 
حکمران کی ذمہ داری بہت بڑی ہوتی ہے۔ خودپسندی کا وہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ عجیب بات مگر یہ ہے کہ ان میں سے اکثر خودپسند ہوتے ہیں۔ اللہ کی کتاب سچ کہتی ہے‘ آزمائش ہی ہے‘ زندگی آزمائش ہی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved