تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     30-09-2014

بشرط زندگی وہ آ رہا ہے

اور آج کتاب عشق کا اگلا ورقہ کھل گیا۔ آج سے مراد‘ وہ 45 دن ہیں‘ جن میں عوام نے دھرنا دے کر ‘ پورے ملک کی سیاست بدل کے رکھ دی۔ اب نہ وہ حکومت رہ گئی‘ نہ اس کا دبدبہ۔ نہ ظلم اور نہ ہی جبر اور حکومتی جاہ و جلال کے سامنے‘ اپنے جذبات کچل کے پہلے کی طرح چپ رہنے والے‘ رہ گئے۔اب جھکے ہوئے سر بلند ہو گئے ہیں۔ سلے ہوئے ہونٹ کھل گئے ہیں اور کچلے ہوئے حوصلے‘ بڑھ گئے ہیں۔ حکومتی جاہ و جلال کے سامنے سہم کر رہ جانے والے ‘عوام نے بولنا شروع کر دیا ہے۔ پہلے اکادکا واقعات ہو جاتے تھے‘ جیسے پی آئی اے کے جہاز کا واقعہ‘ سکھر کے گھوڑا گاڑی والے کا قصہ یا اسی طرح کے چھوٹے موٹے واقعات کا ذکر ہوتا تھا۔ اب تو بات شاہی گھرانے تک پہنچ گئی۔ جناب وزیراعظم کی صاحبزادی نے‘ اپنی ایک خادمہ کو پی آئی اے کے جہاز کی اکانومی کلاس سے ‘ بزنس کلاس میں اپنے پاس بلوانا چاہا۔ جیسے ہی پائلٹ کو اطلاع ملی‘ اس نے یہ کہہ کر جہاز اڑانے سے انکار کر دیا کہ میں اپنی ایئرلائنز کے ساتھ یہ ناانصافی برداشت نہیں کروں گا۔ مگر اب تو کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ وزیراعظم سیلاب زدگان کے درمیان گئے‘ تو تباہ حال لوگوں نے ''گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگا دیئے۔ وہ نیویارک تشریف لے گئے‘ تو یو این کی عمارت کے سامنے ڈیڑھ دو ہزار پاکستانیوں کا ہجوم‘ مسلسل ''گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگاتا رہا۔ یہ لوگ پورے امریکہ سے نیویارک آئے تھے۔ ہر پاکستانی کی ٹیکسی پر ہاتھ سے لکھا ہوا سٹکر لگا تھا۔ ''گو نواز گو‘‘۔ یو این کی جنرل اسمبلی والوں نے‘ ہمارے وزیراعظم کا نام ہزہائی نس سے شروع کیا‘ تو ان کے گورے چٹے چہرے پر تازگی آئی۔ 
کراچی کے عظیم الشان جلسے کو‘ ایم کیو ایم کے ساتھ مک مکا کا نتیجہ قرار دے کربعض اخباریوں اور درباریوں نے حکومت کو کافی دلاسہ دے دیا تھا۔ لاہور والوں نے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ مینار پاکستان کے سبزہ زار میں‘ اتنی بڑی تعداد میں جمع ہو گئے کہ غیرملکی اخبارنویسوں نے بھی جلسے کے حاضرین کی تعداد 2لاکھ سے زیادہ لکھی۔میں اس جھگڑے میں نہیں پڑتا۔ خواجہ آصف کی بات درست ہے کہ جلسہ بہت بڑا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ جلسہ یا بہت بڑا ہوتا ہے یا پھر کچھ نہیں ہوتا۔ چھوٹے جلسے کو جلسہ کہنا‘دل کے بہلانے کا فضول سا جتن ہے۔ اتوار کو پورے لاہور کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا۔ ''گو نواز گو۔‘‘ ایک دن پہلے شریف خاندان کے ولی عہد‘ طلباوطالبات کی ایک تقریب میں گئے‘ تو انہیں بھی ''گونوازگو‘‘ کے نعرے سننا پڑے۔ واپس جانے لگے‘ تو طلبا کے گھیرے میں آئی ہوئی ان کی کار پولیس نے نکلوائی۔ جو لوگ دھرنے کی اہمیت سے انکار کر رہے ہیں‘ وہ تو یہ بھی نہیں مانیں گے کہ ''گو نوازگو‘‘ کا نعرہ اب پاکستان ہی نہیں‘ دنیا بھر میں پھیل گیا ہے۔ جہاں جہاں پاکستانی رہتے ہیں‘ وہاں کوئی نہ کوئی ''گو نواز گو‘‘ ضرور کہتا ہے۔ لندن والے تو یہ افواہ بھی اڑا رہے ہیں کہ ہزہائی نس‘ اپنے کروڑوں کی مالیت کے فلیٹ والی عمارت کا‘ پچھلا دروازہ استعمال کرتے رہے۔ ایسے حالات میں یہی دروازہ مفید رہتا ہے۔ دھرنا چونکہ اسلام آباد شہر کے‘ ایک چھوٹے سے گوشے میں لگا تھا‘ اس لئے کروڑ پکا کرنے والوں کو‘ باتیں بنانے کا موقع ملتا رہا۔ جس کا انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ لیکن لاہور کے جلسے نے‘ ان کے اوسان خطا کر دیئے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اب وہ عمران خان کو سیاسی ناکامی کا طعنہ اور وزیراعظم کو سیاسی کامیابی کی مبارکباد کیسے دیں؟کچھ کروڑپکا کرنے والے‘ نیمے دروںنیمے بروں کی حالت میں‘ کھایا پیا حلال کر رہے تھے۔ لیکن بعض کی دیدہ دلیریاں دیکھنے کے لائق تھیں۔ ایک نے کہا ''بڑے جلسوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ وزیراعظم نوازشریف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘ دوسرے نے کہا''نوازشریف چلا بھی جائے تو کیا فرق پڑے گا؟ اس کی جگہ دوسرا آ جائے گا۔ نظام تو وہی رہے گا۔‘‘ایک نے کہا ''حکومتیں صرف انتخابات سے بدلتی ہیں اور انتخابات بہت دور ہیں۔‘‘ ایک اور نے رائے دی ''جلسہ ایک دن کا کھیل ہوتا ہے۔ رات گئی بات گئی۔‘‘ ان لوگوں کا قصور نہیں۔ یہ لوگ غلط سے غلط کام کرنے کے لئے بھی‘ دل کو تسلی دینے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ جیسے یورپ اور امریکہ میں رہنے والے مسلمان‘ ہندو کی دکان پر بھی ''حلال‘‘ کا لفظ لکھا دیکھ کر‘ شکم پری کرنے ریسٹورنٹ میں گھس جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ‘ ایسے ہی خیالوں میں مست رہنا چاہیے۔ وہ اس کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ ان کی آنکھوں میں ایک جالا سا لگ جاتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں سب کچھ دھندلا دکھائی دینے لگتا ہے۔ وہ اس دھندلے پن میں اپنی خو اہشوں کے عکس دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں‘ وہی حقیقت ہے۔ ایک صاحب نے اعلان کیا ''عمران کا عقل کا خانہ خالی ہے۔ ‘‘مجھے بتانا پڑا کہ دانشور‘ محمد خاں جونیجو بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنے محدود اختیارات کے ساتھ بھی کرپشن پر روک لگا دی تھی۔ بلکہ اپنے ایک طاقتور وزیر کو کرپشن کے الزام میں برطرف بھی کر دیا تھا۔ ایسے دانشمند‘ ذہین اور ہوشیار آدمی کا کیا فائدہ ؟جو قدرت کی دی ہوئی‘ قابل قدر صلاحیتوں کو‘ ملکی خزانہ اور غریبوں کے گھر لوٹنے کے لئے استعمال کرے؟ اہم بات یہ ہے کہ زمانہ کوئی بھی ہو‘ بہترین حکمران وہی ہوتا ہے‘ جو ہر شعبے کے ماہرین کی مشاورت کی روشنی میں فیصلے کرے۔ مغل بادشاہ‘ اکبر اعظم ان پڑھ تھا۔ لیکن اس کے درباریوں میں ہندوستان کے بہترین اور منتخب مشیر موجود تھے۔ اس نے جس کامیابی سے حکومت چلائی‘ اس کی مثالیں آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب تو ادارے وجود میں آ گئے ہیں۔ طرزحکومت اگر جمہوری ہو‘ توحکومت اور انتظامیہ کے سربراہ کا‘سقراط ہونا ضروری نہیں۔ دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ کے صدر ریگن غیرمعمولی تو کیا‘ معمولی ذہین بھی نہیں تھے۔ لیکن اپنے دور کے کامیاب ترین صدر ثابت ہوئے۔ وہاں کے منتخب ادارے اور ایوان صدر کا سٹاف اور ان کا طرزکارکردگی ایسا تھا کہ صدر ریگن کسی بھی معاملے پر مدعا بیان کر دیتے۔کئے کرائے فیصلے آتے۔ وہ انہیں اپنی اتھارٹی کی سند دے کر‘ نافذالعمل کر دیتے۔ 
ان کی پریس بریفنگ بھی پہلے سے تیار ہوتی۔ وہائٹ ہائوس میں ایک میڈیا بریفنگ روم ہے۔ یہاں صدر کا میڈیا ترجمان اور کبھی کبھی خود صدر‘ بریفنگ دیتے ہیں۔ وہائٹ ہائوس میں تمام بڑے میڈیا گروپس کے مستقل نمائندے موجود رہتے ہیں۔ بریفنگ روم کے ساتھ ہی‘ نیچے تہہ خانے میں ایک ریسٹورنٹ ہے‘ جہاں صحافیوں کو ضرورت کی ہر چیز دستیاب رہتی ہے اور وہ بل ادا کر کے‘ کچھ بھی کھا پی سکتے ہیں۔ ساتھ وقت گزاری کے لئے ٹیلیویژن لگے رہتے ہیں۔ جیسے ہی پریس سیکرٹری یا صدر کو بریفنگ کے لئے آنا ہو، تہہ خانے میں اطلاع جاتی ہے۔ 10منٹ کے اندر اندر‘ سب نمائندے لپک کر بریفنگ روم میں آ جاتے ہیں۔ سب اپنی اپنی کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ بریفنگ دینے والا عہدیدار کھڑا ہو کربریفنگ دینا شروع کر دیتا ہے۔ میں نے بطور مہمان صحافی‘ صدر ریگن کی ایک بریفنگ 
دیکھی۔ پہلے ان کے پریس سیکرٹری نے آ کرروسٹرم پر سفید رنگ کے کارڈ رکھے اور ساتھ ہی پیپر شیٹ رکھ دیا۔چند لمحوں میں صدر ریگن آئے۔ انہوں نے رسمی علیک سلیک کے ساتھ ہی ‘حاضرین کی طرف دیکھا۔ قریب کھڑے پریس سیکرٹری نے صحافیوں کے نام لے لے کر انہیں سوال کرنے کی دعوت دی اور جناب صدر نے کارڈ اٹھا اٹھا کر ‘جواب دینا شروع کر دیئے۔ بریفنگ کے بعد نیچے ریسٹورنٹ میں جا کر میں نے صدر کی بریفنگ کے طریقہ کار کے بارے میں پوچھا۔ پتہ چلا کہ پیپرشیٹ پر سوال کرنے والے صحافیوں کے نام لکھے ہوتے ہیں اورکارڈز پر ان کے سوالوں کے جواب۔ جس صحافی کا نام پکارا جاتا ہے‘ وہ اپنا سوال دہراتا ہے۔ صدر متعلقہ کارڈ اٹھا کر‘ اس پر لکھا گیا جواب سنا دیتے ہیں۔ معلومات دینے والے دوست نے بتایا کہ کئی بار ایسا ہوا کہ صدر نے غلط کارڈ اٹھا لیااور کسی اور کے سوال کا جواب دے ڈالا۔ یہ وائٹ ہائوس کے بریفنگ روم میں آنے والوں کے لئے ایک عام بات تھی۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کے دور میں انتظامی یا حکومتی سربراہ کے لئے خصوصی مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جبکہ قیادت کی صلاحیتیں قدرت کا عطیہ ہوتی ہیں۔عمران خان بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا ثبوت‘ کھیل کے میدان میں دے چکے ہیں۔ خدا نے جسے یہ صلاحیت عطا کی ہو‘ اس کا استعمال ہر جگہ ہو سکتا ہے۔ یہی ریگن تھے‘ جنہوں نے انتخابات سے پہلے صدارتی مباحثوں میں شاندار کارکردگی دکھائی تھی۔ اداکار تو وہ تھے ہی۔ اپنے مکالمے اچھی طرح یاد کر لیتے اور اداکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی باری پر بول جاتے۔وہ ہر مباحثے میں کامیاب قرار پائے۔ پاکستان جیسے ملک میں سسٹم بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے لئے اہمیت اس بات کی ہے کہ ہمارا حکومتی سربراہ دیانتدار اور نیک نیت ہو۔ عمران کی یہ دونوں خوبیاں شک و شبہ سے بالاتر ہیں۔مضبوط قوت ارادی ان کی اضافی خوبی ہے اور جہاں تک رعب داب کا تعلق ہے‘ تو قائد اعظمؒ سے زیادہ تو کیا ؟ کوئی برابر کا بھی نہیں ہو سکتا۔اس زمانے کے بزرگ مسلم لیگی لاہوری بتاتے تھے کہ قائد اعظمؒ لاہور تشریف لاتے ‘ توفلیٹیز ہوٹل یا ممدوٹ ولا میں قیام فرماتے۔ جب وہ ممدوٹ ولا میں ٹھہرتے‘ تو خود میزبان نواب صاحب کی مجال نہیں تھی کہ کمرے میں طلب کئے بغیر ‘قائد اعظمؒ کے پاس جا سکیں۔حکومت چلانے کے لئے کلرک نہیں‘ خداداد قائدانہ صلاحیتیں رکھنے والے لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے اور دستیاب لیڈروں میں کوئی عمران کی ٹکر کا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved