تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     30-09-2014

پاکستان بدل رہا ہے

وقت وقت کی بات اور حالات و زمانہ کا جبر ہے۔ ورنہ ہماری اشرافیہ اور عوام سے معافی کی خواستگار؟ سیاسی کارکنوں کے سامنے اپنی غلطیوں پر نادم ؟ بلاول بھٹو کے بیان سے جی خوش ہوا۔
سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چودھری نے اپنی خود نوشت سوانح '' جہان حیرت‘‘ میں سقوط مشرقی پاکستان کے ذمہ دار جنرل (ر) یحییٰ خان کے ساتھ بطور سکیورٹی افسر بیتے ایام کا ذکر کیا ہے جو چشم کشا اور سبق آموز ہے۔ حمود الرحمن کمشن کے سامنے پیش ہونے کے بعد یحییٰ خان نے بذریعہ ہیلی کاپٹر بنی بنگلہ(کھاریاں) جانے سے انکار کردیا اور بذریعہ سڑک واپس جانے پر اصرار کیا۔
چیف جسٹس نے مجھے حکم دیا کہ کوئی بات نہیں جنرل کو بذریعہ سڑک لے جائو۔ مرتا کیا نہ کرتا ،تعمیل حکم کی، کارواں روانہ ہوا تو یحییٰ خان پھراڑ گیا کہ ''مجھے راولپنڈی لے چلو۔ میں اپنے گھر والوں سے ملنا چاہتا ہوں ‘‘یہ ناممکن ہے، میں نے کہا ۔'' کیوں ‘‘ یحییٰ خان بولا '' مشرقی پاکستان میں شکست اور سقوط ڈھاکہ کی وجہ سے لوگ برہم ہیں اور انہوں نے آپ کو دیکھ لیا تو وہ آپ کی تکا بوٹی کر ڈالیں گے ‘‘ میں نے سمجھانے کی کوشش کی مگر یحییٰ خان کا جواب دلچسپ تھا '' کیا میں کوئی اچھوت ہوں ، میں نے کسی کی '' کھوتی‘‘ کو ہاتھ لگایا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار مجیب اور بھٹو تھے وغیرہ وغیرہ ‘‘
قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوگیا، ملک کا اکثریتی حصہ ہم سے روٹھ کر بنگلہ دیش بن گیا مگر آج تک کسی نے اس المناک سانحہ کی ذمہ داری قبول کی نہ عوام سے معافی مانگی۔ سیاسی مقاصد کے لیے بنگلہ دیش کے عوام سے نوازشریف ، پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے تو معذرت کی مگر یحییٰ خان اور ان کے ساتھیوں کے علاوہ اس المیہ کے سیاسی کرداروں اور ان کے جانشینوں ،پیروکاروں نے کبھی اپنی غلطی تسلیم کی نہ ان کی پیشانی پر ندامت کے آثار اور عرق انفعال کے قطرے نمودار ہوئے۔ 
پاکستان مگر اب تبدیل ہونے لگا ہے۔ 1985ء سے2010ء تک بھلا کس میں یہ جرأت تھی کہ کسی حکمران کے سامنے کوئی مخالفانہ نعرہ بلند کرسکے۔ بلند کرے تو ہاتھ پائوں تڑوائے بغیر صحیح سلامت گھر پہنچ جائے۔ پولیس کے اہلکار اور حکمرانوں کے نمک خوار مار مار کر دنبہ بنادیتے مگر اب گو نواز گو کا نعرہ لگانے والوں کے بجائے وزیراعظم ، وزیراعلیٰ ، وزیر اطلاعات اور حمزہ شہبازشریف کو کان لپیٹ کر واپسی کی راہ لینی پڑتی ہے حتیٰ کہ پیر صابر شاہ سٹیج پر کھڑے ہوکر مسلم لیگی کارکنوں سے گو نواز گو کے نعرے لگوائیں تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں ہوتی۔ میاں اظہر جیسا سلوک نہیں کیا جاتا ۔
یہ دھرنے کی برکت اور ڈاکٹر طاہرالقادری و عمران خان کے دبائو کا نتیجہ ہے یا کچھ اور کہ بجلی کے زائد بلوں پر خواجہ آصف اور عابد شیر علی کی سرزنش ہوتی ہے ۔خواجہ صاحب کی طرف سے پنجاب کی ایک اعلیٰ شخصیت ، ایک بیورو کریٹ اور مشیر کو کابینہ کے سامنے ہدف تنقید بنانے پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی ؛تاکہ پارٹی اور حکومت میں پھوٹ نہ پڑے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہی سہی بلوں سے زائد رقم منہا کرنے اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے، تاکہ عوامی اشتعال کسی نہ کسی حد تک کم کیا جاسکے۔ اس سے پہلے عوامی جذبات و احساسات کی پروا کس کو ہوتی تھی ؟
پچھلے سال لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ فیصل آباد میں جو وحشیانہ سلوک ہوا وہ کسے یاد نہیں۔ گھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں کی دھنائی ہوئی مگر مجال ہے کہ کسی نے اس عوام دشمنی کا نوٹس لیا ہو۔ اب مگر میاں شہبازشریف بھی اعتراف کرتے ہیں کہ امیر غریب میں فرق بڑھ رہا ہے۔ انقلاب آیا تو محلات بھی نہیں رہیں گے؟ سانحہ ماڈل ٹائون اور اسلام آباد میں پولیس فائرنگ کے بعد وزیراعظم ، وزیراعلیٰ ، وزیر داخلہ ، وزیر دفاع اور دیگر حکومتی عہدیداروں کے خلاف اندراج مقدمہ معمولی بات نہیں۔
میاں نوازشریف کا دورۂ امریکہ ہدف تنقید بنا، مہنگے ہوٹل میں قیام اور دیگر لوازمات پر اخراجات کا چرچا ہوا، مگر وہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق پورا لائو لشکر ساتھ نہ لے جاسکے اور جن لوگوں نے بیگ تیار کرلیے تھے وہ بے چارے بیوی ، بچوں ، دوست احباب کی فرمائشیں نوٹ کرتے رہ گئے ۔دبائو برقرار رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے '' ہز ہائی نس‘‘ بھی دنیا کے کئی دیگر ممالک کے سربراہان حکومت کی طرح اپنے سفیر کے گھر یا کسی سستے ہوٹل میں قیام کا کڑوا گھونٹ پی لیں گے ؛البتہ اس تکلیف دہ قیام کی کلفت مٹانے کے لیے اچھے مالشیے اور لطیفہ گو ساتھ لے جانے پر کسی کو اعتراض نہ ہونا چاہیے۔
پولیس اہلکاروں اور افسروں کے رویے اورطرز عمل میں تبدیلی کا مشاہدہ پوری قوم کررہی ہے۔ 17جون کے سانحہ ماڈل ٹائون نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ۔ ورنہ پنجاب پولیس ایسی کب تھی۔ یہاں تو یہ کہاوت مشہور ہے کہ '' ماں میں تھانیدار بن گیا تو سب سے پہلے تمہاری دھنائی کروں گا تاکہ دوسروں کو کان ہوں ‘‘ مگر اب معمولی سہی کچھ نہ کچھ تبدیلی محسوس ہورہی ہے۔ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خوف ، رعب، دبدبے کی جگہ عوام کی بیداری، شعور ، بے خوفی ، مزاحمت اور اپنا حق مانگنے کی ہمت و جرأت لے رہی ہے۔ رفتار اگرچہ سست ہے ، سرخیل اگرچہ صرف متوسط طبقے کا وہ حصہ ہے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم یا فارغ التحصیل ، انجینئر ، ڈاکٹر ، ٹیکنو کریٹ اور کھاتے پیتے گھرانوں کا چشم و چراغ ہے مگر بقول اقبال ؒ ؎
نومید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن، بے ذوق نہیں راہی 
گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے 52ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے کااعلان فرمایا۔ خوش آئند پیش رفت ہے ۔وزیراعلیٰ مبارک باد کے مستحق ،مگر اسی لاہور میں ایڈ ہاک ڈاکٹرز، اساتذہ اور نرسوں کو یہ مطالبہ کرنے کی پاداش میں سڑکوں پر مارا پیٹا گھسیٹا گیا اور ڈنڈا بردار پولیس اہلکاروں کو ان پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح چھوڑ دیا گیا۔ اسمبلی ہال کے سامنے خواتین سے چند ماہ قبل جو سلوک ہوا وہ پرانی بات نہیں۔ اب دھرنے اور ملک گیر احتجاجی تحریک کے طفیل لیڈی ہیلتھ ورکرز کو پنجاب اور سندھ میں مستقلی کے پروانے جاری ہورہے ہیں اور سندھ حکومت کو یہ نعرہ لگانے کی توفیق ہوئی ہے '' بی بی کا بیٹا آئے گا ،روزگار لائے گا‘‘۔ لوگ احمق نہیں ، جانتے ہیں یہ بی بی کے بیٹے نہیں کراچی میں پی ٹی آئی کے جلسے کا اعجاز ہے ،ورنہ چند روز پہلے وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے اساتذہ کے دھرنے سے جو سلوک ہوا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ بی بی کا بیٹا یہ مار کٹائی دیکھ کر چپ رہا ، شاید خوش ہوا۔
لوگ کہتے ہیں یہ قلب ماہیت گلوبلائزیشن کی دین اور آزاد میڈیا ، فعال عدلیہ کی مہربانی ہے ،کسی حد تک درست ،مگر میری ناقص رائے میں کریڈٹ اس پڑھے لکھے ، با شعور ، اپنے حقوق اور ریاست کے فرائض سے آگاہ سیاسی کارکن کا بھی ہے جو پہلی بار کسی سیاسی تحریک اور جدوجہد کا حصہ بنا اور معاشرے میں مؤثر نتیجہ خیز پائیدار تبدیلی کا خواہش مند ہے ۔
ورنہ ہمارے سول ، فوجی حکمرانوں اور سیاستدانوں کا وتیرہ کیا رہا؟ وہی یحییٰ خان والا کہ میں نے کسی کی کھوتی کو ہاتھ لگایا ہے کہ عوام سے ڈروں ؟ جنوبی پنجاب کے عوام صوبہ اور وسائل میں حصہ مانگتے ہیں، انہیں میٹروبس کالالی پاپ دیا جاتا ہے۔ سیلاب زدہ متاثرین ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کا سدباب چاہتے ہیں، انہیں آٹے، گھی ، چینی اور چائے دودھ کے پیکٹ دے کر خوش کیا جاتا ہے ۔نوجوان باعزت روزگار طلب کرتے ہیں ، لیپ ٹاپ پر ٹرخا دیے جاتے ہیں ۔ عوام کو جان و مال ، عزت و آبرو کا تحفظ دینے کے بجائے خوشنما سپنوں سے بہلایا جارہا ہے ۔آج سے نہیں کئی دہائیوں سے ۔ لوڈشیڈنگ کا علاج مہنگی بجلی اور مہنگائی و بے روزگاری کا سدباب اندرونی و بیرونی قرضوں سے کرنے کی فرسودہ ،ازکار رفتہ حکمت عملی ہے۔ یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا ؟ 
بلاول کا بیان ہماری اشرافیہ کی دیرینہ روش کا آئینہ ہے یا قلب ماہیت کا نتیجہ ؟ دل شکستہ ، رنجیدہ اور بار بار فریب خوردہ کارکنوں کو ایک بار پھر پیپلزپارٹی سے جوڑے رکھنے کی سعیٔ ناکام ؟بدلتے ہوئے حالات سے سبق سیکھنے کا خوش آئند آغاز ؟ کوئی مانے نہ مانے پاکستان بدل رہا ہے ؎
جہان نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالمِ پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved