تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-09-2014

ایک آدمی بھی نہیں ؟

ایک ہوک سی دل سے اٹھتی ہے۔ الیس منکم رجل رشید۔ کیا تم میں ڈھنگ کا ایک آدمی بھی نہیں؟ ایک بھی نہیں؟
بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کے ناراض کارکنوں سے معافی مانگ لی۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ایک بار پھر جتلایا کہ افتادگان خاک کی اگر داد رسی نہ کی گئی تو خونی انقلاب آئے گا۔ بجا ارشاد، بجا ارشاد لیکن احساس اگر عمل میں ڈھل نہ سکے تو الفاظ کی قدروقیمت کیا۔ کتنے واعظ ہیں، حدیث قدسی جن کے بارے میں کہتی ہے کہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور نیت قول میں نہیں عمل میں ظاہر ہوتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا؟ نون لیگ نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا؟ خود فریبی کی بات دوسری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے کرایے کے ترجمان نے کہا: لاہور کے جلسے میں صرف دس ہزار افراد شریک تھے۔ آدمی اگر شتر مرغ بن جائے،تو اس کا انجام شتر مرغ جیسا ہو گا، انسان کا نہیں۔ یہ جو تحریک انصاف کے جلسوں میں ہجوم کے ہجوم چلے آتے ہیں‘ تو اس کا سبب یہ نہیں کہ کپتان نے سیاست میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اگر شوکت خانم ہسپتال پر ووٹ مل سکتے تو 1996ء میں مل گئے ہوتے۔ اگر نمل یونیورسٹی کی تعمیر سے عوامی طوفان اٹھ سکتا تو فوراً بعد اٹھ گیا ہوتا۔ پختونخوا میں اگر اس کی حکومت بنی تو متحدہ مجلس عمل اور اے این پی سے بیزاری کے طفیل۔ بے شک پٹوارکا مسئلہ اس نے بڑی حد تک حل کر دیا۔ پولیس میں سیاسی مداخلت روکنے کی کوشش بھی کی۔ ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت بھی قدرے بہتر ہوئی۔ ایسی کارکردگی لیکن ہرگز نہیں کہ اس پر فخر کیا جا سکے۔ عمران خان بدعنوان ہرگز نہیں اور کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ بھی نہیں مگر ملازمتیں آج بھی بکتی ہیں۔ بدعنوانی کے انسداد کا کارنامہ جو آدمی انجام دے سکتا تھا، وزیر اعلیٰ نے اسے صوبے میں داخل نہ ہونے دیا۔ قدرے ڈھنگ کا جو آدمی پہلے سے موجود تھا‘ اسے الگ کیا اور اب عدالت نے اسے بحال کیا ہے۔
جو طوفان لاہور سے اٹھا ہے اور جس کے اثرات اب پورے پنجاب میں دکھائی دیں گے، وہ پنجاب اور مرکزی حکومت کے کارناموں کے طفیل ہے۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے سیلاب زدگان کے لیے سب سے زیادہ بھاگ دوڑ کی۔ نحیف و نزار پرویز خٹک تو دھرنے میں پھنسے رہے۔ سندھ کے قائم علی شاہ سے یہ امید ہی نہیں کی جا سکتی کہ وہ کچھ کر دکھائیں گے۔ تکلیف دہ سوال یہ ہے کہ پہلے سے منصوبہ بندی کیوں نہ تھی۔پاکستان کا محکمہ موسمیات دنیا کے آٹھ بہترین اداروں میں شمار کیا جاتا ہے ۔متعلقہ افسر اس کا اعلان کر چکا کہ طوفانی بارشوں کی اطلاع پہلے سے دے دی گئی تھی۔ نو برس ہوتے ہیں، سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب رحیم نے وزیر اعظم شوکت عزیز سے کہا کہ زلزلے کا صوبائی حکومت کو بروقت علم نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر قمر زمان کو وہ اپنے ساتھ کراچی لے گئے اور وزیر اعلیٰ سے ان کی ملاقات کرائی۔ شائستگی کے ساتھ مگر صاف صاف ایک ایک تفصیل انہوں نے گوش گزار کر دی اور ثبوت وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ اب کی بار بھی تین دن قبل وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو بتا دیا گیا تھا۔ اگر صوبائی یا مرکزی حکومت تردید فرمائے تو
سرکاری دستاویزات اس ناچیز کے پاس موجود ہیں۔
سندھ، سرحد اور بلوچستان سے موازنہ مت کیجیے۔ بدترین سے موازنے کا کیا مطلب؟ پختونخوا میں اے این پی والے تھے، جو دہشت گردی روکنے کے آلات تک میں بدعنوانی کرتے رہے، جب کہ خود ان کے کارکن اور لیڈر قتل کیے جا رہے تھے۔ بلٹ پروف جیکٹس اور سکینرز تک کی خریداری میں پیسہ بنایا گیا اور پوری بے دردی کے ساتھ۔موازنہ بھارت کے گجرات یا بہار سے کیوں نہیں، جس کا سرکاری بجٹ سات سال میں چار گنا ہو گیا!
حسن اتفاق سے اسلام آباد کے منتخب لوگوں کے ہمراہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ساتھ ایک طویل ملاقات کا موقع خاکسار کو بھی نصیب ہوا۔ کوئی بات انکشاف کا درجہ نہ رکھتی تھی کہ اس موضوع پر کچھ پڑھا سنا بھی تھا۔ ماہرین معیشت سے تبادلہ خیال کے مواقع بھی ملتے رہے، اس ملاقات سے یقین گہرا ہو گیا... اور زندگی اسی یقین کے ساتھ سنورتی ہے؛ بشرطیکہ وہ عمل کا روپ دھار سکے، خطبہ اور ٹاک شو بن کر نہ رہ جائے۔
اللہ کی آخری کتاب سیدنا زکریا ؑ کا ذکر کرتی ہے۔ عرض کیا: اے میرے پروردگار، میں بوڑھا ہو گیا اور میری بیوی بانجھ، مگر میں ایک وارث کا آرزومند ہوں ۔ اللہ نے انہیں فرزند کی خوشخبری دی تو گزارش کی: مالک اس کی کوئی نشانی عطا فرما۔ نشانی انہیں عطا کی گئی، جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ کو چار پرندوں کی صورت میں۔ انہی کو کیا، بعض اصحاب اور بہت سے اولیا کرام کو بھی۔
یقین درکار ہوتا ہے، یقین! گول مٹول سے، گندم گوں نتیش کمار نے تفصیل بتائی جو تبھی لکھ دی تھی۔ کرپشن کا سدّباب کرنے کے لیے انہوں نے ایک نظام وضع کیا۔ سب سے پہلا نکتہ یہ تھا کہ تمام سیاستدان اور سرکاری افسر اپنی جائیدادوں کی تفصیل بتائیں ۔پھر ان کی چھان بین ہوئی اور جو غلط کار تھے وہ نمٹا دیے گئے۔ اتنا ہی سنگین مسئلہ مقدمات میں التوا کا تھا۔ چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں سے نتیش کمار اور ان کی کابینہ تین دن تک بات کرتی رہی۔ جس کے بعد طے کیا گیا کہ گواہی دینے والے پولیس افسر کو زیادہ سے زیادہ ایک بار رعایت دی جائے گی۔ دوسری بار لازماً اسے عدالت میں آنا پڑے گا، خواہ ہزاروں میل دور ہو۔ تفتیش کو بہتر بنایا گیا اور تقرر میں سفارش کا عمل دخل روک دیا گیا۔ بھارتی فلمیں غنڈہ گردی کی جس سیاست کو بیان کرتی ہیں، ان میں سے اکثر کا موضوع بہار ہوا کرتا۔ صبح سویرے اور شام پڑے عوامی پارکوں میں جانے والے لٹ جایا کرتے۔ دھیمے اور آسودہ لہجے میں بہار کے ناٹے سے قد کے وزیر اعلیٰ نے کہا: اب جو مرسڈیز کاروں پر جاتے ہیں، ان کے لٹ جانے کا بھی ہرگز کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔
بارہا یہ سوال پوچھا ہے اور ہمیشہ پوچھتا رہوں گا کہ پنجاب میں پٹواریوں کی لوٹ مار کم ہوئی یا بڑھی ہے؟ پنجاب کی پولیس اور بیوروکریسی اب تو خیر بالکل ہی بے دم ہی ہو چکی، لیکن وہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں جرائم کم ہوئے یا ان میں اضافہ ہو گیا۔ افسر شاہی نے رشوت ستانی کم کر دی یا زیادہ؟ حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری امن و امان کا قیام ہوتا ہے۔ اس کے بعد ٹیکس وصولی اور عدالتی نظام کی بہتری۔ عدلیہ بحالی کی تحریک اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے ججوں کی تنخواہیں دوگنا کر دینے کے باوجود گزشتہ چھ سال کے دوران نچلی عدالتوں کی حالت کتنی بہتر ہوئی ہے؟ پچھلے پندرہ مہینوں کے دوران جناب اسحاق ڈار، وزیر اعظم بار بار جن کی تحسین کرتے ہیں ٹیکس دہندگان کی تعداد میں کتنا اضافہ کر سکے۔ تیس لاکھ ٹیکس چوروں کی فہرستیں ان کے پاس پڑی ہیں۔ ان میں سے کتنوں کو نوٹس بھجوائے گئے۔ کیا وہ اس لیے قابل معافی ہیں کہ ان کی ایک قابل ذکر تعداد حکمران جماعت کی پُرجوش حامی ہے؟۔ کیا ان لوگوں کی خاطر ملک ہمیشہ بھکاری بنا رہے گا؟ امریکہ اور یورپی یونین کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہے گا۔ ایم آئی سکس اگر ملک کے خلاف سازش کرتی ہے تو ہم رسمی سا احتجاج بھی کر نہیں سکتے۔ اگر یہ غلامی ہی کی ایک شکل نہیں تو اور کیا ہے؟ باتیں نہیں، عمل۔ جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے، قال سے قال پیدا ہوتا ہے اور حال سے حال۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ معاشرے کو ایک نمونۂ عمل درکار ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ کو کسی ہجوم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ چند مردانِ کار ہی کی۔
ایک ہوک سی دل سے اٹھتی ہے۔ الیس منکم رجل رشید ۔ کیا تم میں ڈھنگ کا ایک آدمی بھی نہیں ؟۔ایک بھی نہیں ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved