تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     30-09-2014

وزارت ِ اطلاعات جاگے

یواین جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے عالمی رہنمائوں کو یہ بتانے کا مناسب وقت ہے کہ پاک آرمی نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوںکے خلاف بہت دلیری سے کارروائی کی، تاہم اس شاندار کامیابی کو اجاگر کرنے کے لیے نیویارک میں ہمارا کون سا نمائندہ موجود ہے۔ اس وقت جبکہ عالمی رہنمائوں نے صدر اوباما کی قیادت میں غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف مل کر کارروائی کرنے پر اتفاق کیا، پاکستان کو آگے بڑھ کر بتانا چاہیے تھا کہ وہ ان انتہا پسندوںکے خلاف اپنی سرزمین پر تن ِ تنہا جنگ کررہا ہے، لیکن پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپریشن ضرب ِعضب کے بارے میں دنیا کوبریف کرنے کے لیے ہمارا کون سانمائندہ وہاں موجود ہے؟گزشتہ بدھ کو یواین میںایک قرارداد منظورکی گئی جس میں تمام اقوام کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عالمی دہشت گردوں کو فنڈز اورہتھیار حاصل کرنے اور لڑنے کے لیے نئے لڑکوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے حربوں کو ناکام بنائیں۔ پاکستان بھی ایسی ہی کوشش کررہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا تک ہماری بات پہنچ نہیں پا رہی۔ 
ان تمام معاملات کو دنیا تک پہنچانے کے لیے جو چینل استعمال کیا جانا چاہیے وہ وزارت ِ اطلاعات ہے۔ حالیہ دورے کے موقع پر لگتا ہے کہ اس نے اپنا ہوم ورک نہیںکیا تھا ورنہ اب تک امریکی میڈیا پاکستان کو ہاتھوں ہاتھ لے چکا ہوتا اور یواین اسمبلی میں پاکستان کی کارکردگی بہت بہتر ہوتی۔ لیکن ہماری ایسی قسمت کہاں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کوتاہی پرکس کو مورد ِ الزام ٹھہرایا جائے؟ جو صاحب اس وزارت کو چلا رہے ہیں، ان کے سوا اور کس کی کوتاہی ہوسکتی ہے؟ وزیر اطلاعات کواپنے باس کا دفاع کرتے ہوئے عمران خان سے الجھنے اور ان پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے سے ہی فرصت نہیں، اس لیے ان کے پاس شاید وقت ہی نہیں کہ وہ بیرونی دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر بنانے کی فکر کریں۔ دنیا بھر کی حکومتیںاپنا امیج بہتر بنانے کے لیے میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کرتی ہیں، لیکن ہم داخلی سیاسی مسائل سے باہر نکلنے کے لیے ہی تیار نہیں۔ 
ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ پاک فوج کا ترجمان ادارہ، آئی ایس پی آر وزارت ِ اطلاعات کے فرائض بھی اپنے ذمے لیتے ہوئے واشنگٹن میں ملٹری اتاشی بھیجے تاکہ عالمی برادری کو پاک فوج کی کامیابیوںکے بارے میں آگاہ کیا جاسکے۔ نہیں، یہ فوج کا کام نہیں کہ وہ اپنا نقیب خود ہی بنے۔ یہ وزارت ِ اطلاعات کے داخلی اور خارجی ونگ کا کام ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ امریکہ کے طاقت ور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہائوسز تک ان کی بات درست انداز میں پہنچے۔ 
واشنگٹن اور نیویارک میں پاکستان کا پریس اتاشی آج کل کن امور میں مصروف ہے؟اس سے بھی اہم بات یہ کہ وزیراطلاعات و نشریات خود کہاں ہیں؟کیا یہ لوگ پاکستانی ٹیکس دہندگان کے خرچے پر صرف اس لیے یہاں لائے گئے ہیں کہ وہ وزیر اعظم نوازشریف کے ارد گرد منڈلاتے رہیں یا اس بات کا خیال رکھیں کہ وزیراعظم کے ساتھ آنے والے درجنوں مہمانوں کے کھانے پینے اور تفریح کے لوازمات میںکوئی کمی نہ آنے پائے۔ یا پھر پاکستان سے ساتھ آنے والے میڈیا پرسنزکو خوش کرنا ہی اس وزارت کی اہم ذمہ داری ہے؟
یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ امریکی میڈیا میں پاکستان کے حوالے سے بہت کم مثبت کہانیا ں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہاں یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ''القاعدہ کا ہیڈکوارٹر‘‘ ہے ۔ یہ بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ یہاں ''خراسان گروپ‘‘ جس پر حالیہ دنوں شام میں بمباری کی گئی، کی موجودگی کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں نے ٹریننگ پاکستانی علاقوں میں حاصل کی تھی۔ پاکستان کی طرف سے ان خبروں کی بمشکل ہی تردید کی جاتی ہے۔ شاید ہمارے وزیروں کے پاس ایسے کاموں کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف فوج تنہا ہی دہشت گردوںسے نبردآزما ہورہی ہے اور یہ صرف اس کا ہی مسئلہ ہے۔ سیاسی قیادت ، حکومت یا اپوزیشن کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی صاحب کی طرف سے بوجوہ روا رکھے جانے والے تاخیری حربوںکی وجہ سے انتہا پسندوں کو مضبوط ہونے کا موقع ملا لیکن موجودہ آرمی چیف اُس تاخیرکی تلافی کرنے کی بھرپورکوشش کررہے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل اطہر عباس سے منسوب ایک بیان منظر ِ عام پر آیا تھا کہ ''جنرل کیانی کی طرف سے آپریشن کرنے میں تذبذب سے کام لینے کی ملک، عوام، حکومت او ر مسلح افواج کو بھاری قیمت چکانی پڑی‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاخیرکی وجہ سے انتہا پسندوں کی ہمت بھی بڑھی اور اُنھوںنے اپنے مورچے مضبوط کرلیے۔ جب جنرل راحیل شریف نے آپریشن کا فیصلہ کیا تو شمالی وزیرستان کی صورت ِحال خاصی پیچیدہ ہوچکی تھی ؛ تاہم چند ماہ میں پاک فوج کی طرف سے حاصل کردہ کامیابیاں پوری قوم کے لیے باعث فخر ہیں۔ آئی ایس پی آرکے مطابق اب تک نو سو سے زائد دہشت گرد ہلاک کیے جاچکے ہیں۔ ان کے کئی ایک ٹھکانے اورگولا بارود کے ذخائر بھی تباہ کیے جاچکے ہیں۔ ان کے قبضے سے بہت سے علاقے واگزارکرالیے گئے ہیں۔ دس دہشت گردوں پر مشتمل ''شوریٰ‘‘ جو ملالہ یوسفزئی کو ہلاک کرنا چاہتے تھے، بھی گرفتار ہوئے۔ خواجہ آصف نے بھی ایک حالیہ بیان میں کہا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑی جاچکی ۔ سب درست، لیکن باقی دنیا کو یہ بات بتانے کی ضرورت ہے اور یو این جنرل اسمبلی کا اجلاس اس کام کے لیے ایک اچھا موقع تھا۔ 
ایک اور اہم چیز یہ ہے کہ امریکہ کے نئے اتحادی جیسے عراق کے نئے وزیر ِاعظم اور شام میں بشارالاسد کا تختہ الٹنے کے لیے لڑنے والی اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ نے نیویارک میں بہت سے انٹرویوز دیے۔ اُنھوںنے امریکی صدر سے مزید امداد کی ضرورت پر زور دیا۔ ہم یہ ہرگزتوقع نہیں کرسکتے کہ ہمارے آرمی چیف خارجہ پالیسی چلائیں لیکن سیاسی حکومت بھی تو کچھ کرے۔ میں کشکول پکڑکر امداد مانگنے کی بات نہیں کررہی بلکہ دنیاکوبتایا جائے کہ اس جنگ میں پاکستان کہاںکھڑا ہے اور اس کی ضروریات کیاہیں؟ یقینا ہمیں عالمی تنہائی سے نکلنا ہے۔ ہمارا اقوام ِ عالم سے تعلق زیادہ ترامداد مانگنے کا ہی رہا ہے، شاید پہلی مرتبہ ایسا وقت آیا ہے جب ہم دنیا کے سامنے اپنی کامیابی رکھ سکیں۔ 
اس حوالے سے وزیراطلاعات اور ان کے جونیئرزکو جاگنے کی ضرورت ہے۔ جس دوران تمام دنیا دہشت گردی اور داعش کے خطرے کی بات کررہی ہے، ہماری بات دنیا بہت توجہ سے سنے گی۔ اس وقت ہم نے وہ کام کردکھایا ہے جو ایک عشرے میں نیٹو فورسز نہیں کرسکیں۔ کیا ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ عالمی برادری کی قیادت کرتے ہوئے اُنہیں سمجھائیں کہ انتہا پسندوںسے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے؟ یہ بھی درست ہے کہ ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے لیکن موجودہ آرمی چیف نے قوم کو کامیابی کے راستے پرڈال دیا ہے۔ اگر پاکستان دنیاکو باورکرادے کہ وہ انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ اورکامیاب کوشش کررہا ہے تو اس کی معیشت اور ساکھ کا گراف اُونچا ہونا شروع ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں کسرِ نفسی سے کام لینے کی ضرورت نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved