تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     30-09-2014

انہوں نے کچھ کھایا بھی ہو گا ؟

70 سال سے زائد عمر کے ایک ریٹائر فوجی افسر اور ان کی بیگم، جو راولپنڈی کے ایک نجی سکول میں تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں، اسلام آباد میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے دیے جانے والے دھرنوں میں شریک مردوں اور خواتین کو ایک تنظیم اور جذبے سے کام کرتے ہوئے دیکھنے کے بعد اپنے تاثرات کو سیدھے سادے الفاظ میں ڈھالتے ہوئے پاکستانی عوام کو ایک پیغام دیا ہے جو اپنی جگہ انتہائی سبق آموز اور ذہن نشین کرنے کے لائق ہے۔ دھرنے میں شریک لوگوں کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کے بعدفوجی زبان میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں شریک ہرمرد اور عورت کو ضابطوں کا پابند دیکھتے ہوئے بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ پچاس سال قبل مجھے اپنی فوجی سروس کے سبق یاد آنے شروع ہو گئے ہیں۔ 
وہ لکھتے ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی راولپنڈی کے ایک نجی سکول میں تدریسی عمل کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں ایک دن قادری صاحب کی جانب سے چھتریوں اور خواتین کے لیے گرم چادروں کے علا وہ بچوں کے لیے کھلونوں، گرم کپڑوں اور نرسری تک کی ضروریات کی اشیا فراہم کرنے کی اپیل سننے کے بعد ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ان بچوں کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کریں۔ اگلے دن ہم نے سکول میں تمام بچوں کے سامنے قادری صاحب کی یہ اپیل رکھتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ دھرنوں میں شریک بچوں اور دوسرے لوگوں کے لیے اپنی خوشی سے اگر وہ کچھ کر سکتے ہیں تو دو دن تک اپنے تحفے یا عطیات سکول میں جمع کرا سکتے ہیںتاکہ انہیں ان بچوںتک پہنچایا جا سکے۔
اگلے دن اور اس سے اگلے دن سکول کے بچے اپنے ساتھ جو عطیات لے کر آئے ،وہ ہماری توقعات سے کہیں زیا دہ تھے۔ ان خوبصورت طریقے سے پیک کیے گئے تحائف کی طرف دیکھتے ہوئے ہمیں یقین نہیں آتا تھا لیکن جو حقیقت سامنے نظر آ رہی تھی اسے جھٹلایا بھی تو نہیں جا سکتا تھا۔ ہر پیکٹ پر سامان کی مکمل تعداد اور تفصیل لکھی ہوئی تھی ۔ہفتے کی صبح تقریباً پونے سات بجے ہم دونوں میاں بیوی اپنی رہائش گاہ واقع چک لالہ راولپنڈی سے اپنے سکول کے بچوں کی طرف سے دیئے جانے والے تحفوں کو، جنہیں خوبصورت پیکنگ سے محفوظ کیا گیا تھا، لے کر دھرنے کے مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ گاڑی چھت تک تحفوں سے لدی پھندی تھی۔ ہم کہیں پولیس کی طرف سے جگہ جگہ لگائی جانے والی رکا وٹیں توکہیں شرارتیں سہتے اور کہیں بے پناہ محبتیں سمیٹتے ہوئے آٹھ بجے دھرنے کے باہر پہنچ گئے جہاں ہر طرف ڈسپلن سے کام کرتے، ادھر ادھر آتے جاتے اور مختلف
کاموں میں مصروف انسان ہی انسان نظر آ رہے تھے۔ دھرنے کے ابتدائی پوائنٹ پر موجود ایک شخص، جس کے گلے میں انتظامی ذمہ داریوں والا کارڈ لٹک رہا تھا، کوبتایا کہ قادری صاحب کی اپیل پر ہم بچوں کے لیے کھلونے، کاپیاں، کتابیں اور کچھ دوسرا کچھ سامان لائے ہیں‘ہمیں بتایا جائے کہ اسے کہاں اور کس کے حوالے کرنا ہے؟ وہ ذمہ دار ہمیں اپنے پیچھے پیچھے آنے کا کہتے ہوئے ایک طرف چل پڑا، انتہائی ہلکی رفتار سے اپنی گاڑی میں جگہ جگہ لگے ہوئے کیمپوں کے درمیان سے گذرتے ہوئے چاروں جانب روح افزا مناظر
دیکھنے کو ملے۔ گزشتہ تین دنوںاور راتوں سے مسلسل بارش کے بعد آج موسم صاف تھا۔ سورج نکلنے کی وجہ سے لوگ اپنے کپڑے، میٹریس اور دوسرا سامان مختلف جگہوں پر سکھانے کے لیے رکھ رہے تھے۔ ایک جگہ صبح کے ناشتے کے لیے مردوں اور عورتوں کو فوجیوں کے لنگر کی طرح علیحدہ علیحدہ قطاروں میں پورے سکون اور آرام سے کھڑے ہوئے دیکھا۔ سب کے ہاتھوں میں اپنے اپنے برتن تھے۔
بہت جلد ہم ڈاکٹر طاہر القادری کے کنٹینر کے قریب پہنچ گئے، جہاں ان کے ایک سینئر ذمہ دار کے پوچھنے پر بتایا کہ یہ سامان بچوں کیلئے لے کر آئے ہیں، اسے وصول کریں اور ساتھ ہی ہمیں سامان وصول کرتے ہوئے کچھ تصاویر اتارنے کی جا زت دے دیں تاکہ ہم انہیں اپنے سکول کے نوٹس بورڈ پر آویزاں کر سکیں۔ کوئی ایک منٹ بعد اس انچارج نے جو کوئی ایڈووکیٹ تھے، تین چار رضاکاروں کے بیج لگائے ہوئے لوگوں کو بلایا اور انہوں نے تین چار منٹ میں گاڑی سے سارا سامان نکال کر با ہر رکھ دیا۔ جب یہ سامان اتارا جا رہا تھا تو اسے دیکھتے ہوئے تین چار مرد و خواتین ہمارے پاس آکر پوچھنے لگے کہ آپ کے اس سامان میں کوئی چھتری یا گرم چادر ہے؟۔ جس پر ان کے انچارج نے حکم جاری کر دیا کہ کوئی بھی خود سے اس سامان میں سے کچھ نہیں لے سکتا، جب تک ڈاکٹر قادری صاحب اس کی اجا زت نہ دیں بلکہ وہ کوئی ایک بجے سے چند منٹ پہلے خود آ کر حسب روایت سامان ساتھیوں میں تقسیم کریں گے۔
انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ ہم نے انہیں اپنا مکمل تعارف کرایا۔ انہوں نے ہمارے لائے ہوئے سامان کو اس قرینے اور ترتیب سے کنٹینر میں سجایا کہ میں خود اسے دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس قدر ڈسپلن؟۔ ہم نے ان کی تصاویر بنائیں اور ان سے رخصت ہونے کے بعد دھرنوں میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے دیکھا کہ ان میں ہر مذہب اورہر صوبے کے لوگ موجود ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی خلوص اور پیار سے وقت گزار رہے ہیں۔ ہمارے پوچھنے پر ہر کوئی یہی جواب دیتا کہ ایک ماہ سے بھی زیا دہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ موسم کے بدلتے ہوئے تیوروں کی سختیاںجھیلتے گھروں کا آرام اور سکون، مائوں اور بیویوں کے ہاتھوں کے پکے ہوئے کھانے ... سب کچھ یاد تو بہت آتا ہے لیکن اس کے باوجود لنگر کا کھانا کھاتے ہوئے اپنے گرفتار ساتھیوں کی جیل میں حالت کا اندازہ کر کے،یہ سوچ کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں کہ نہ جانے انہیں وہاںکھانے کو کچھ ملا بھی ہو گا کہ نہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved