کلچر ان طاقتور ترین فعال ذرائع میں سے ایک ہے‘ جس کے ذریعے ہم اپنی اقدار کا اظہار اور سماجی رویوں کی ترویج کرنے کے ساتھ عالمی تصورات کو اپنے سماج سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ہمارا کلچر کئی حوالوں سے ہماری پہچان بنتے ہوئے ہماری انفرادی اور بطور ایک سماجی گروپ‘ شناخت کی راہیں متعین کرتا ہے۔ جب اسے عقائد کی حمایت میسر آتی ہے تو یہ کسی معاشرے کی ترقی میں معاونت کر سکتا ہے اور اسے پسماندہ بھی رکھ سکتا ہے۔ پاکستان کے بعض خطوں میں اس ادغام کے مثبت و منفی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
کلچر کا تعلق ہماری سوچ، زندگی اور وقت کی تبدیل ہوتی ہوئی جہت اور مستقبل کے ممکنہ امکانات سے ہوتا ہے؛ تاہم یہ سماجی حرکیات میں کوئی فیصلہ کن عامل قوت ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے پتھر پر لکیر کی طرح اٹل قرار دیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت اس کا راستہ مقید دکھائی دینے کے باوجود بڑی حد تک آزاد ہوتا ہے۔ ثقافتی تبدیلی کا تعلق ہمارے طرز زندگی، ہماری سوچ اور ہمارے اعمال سے ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کا تعلق داخلی اور خارجی دونوں عوامل سے ہوتا ہے۔ مذہب، تاریخ اور جغرافیائی خدوخال ایک فریم ورک مہیا کرتے ہوئے کسی بھی کلچر پر مستقل اثرات مرتب کرتے ہیں؛ چنانچہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ثقافتی تبدیلیوں کو ماضی سے کسی طور بھی جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح مغربی کلچر کی جڑیں عیسائیت، یونانی فلسفے اور رومن قوانین میں پیوست ہیں، اسی طرح پاکستانی کلچر بھی اسلام، دریائے سندھ کے خطوں کے نقوش اور انڈین تہذیب سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک پاکستانی مسلمان عربوں کا ہم عقیدہ ہونے کے باوجود ثقافتی اعتبار سے اُن سے الگ ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں رہنے والے افراد، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو، ثقافتی طور پر ایک جیسے ہیں۔
کلچر میں ہونے والی تبدیلی پر اثرانداز ہونے والے دو اہم ترین عوامل معاشی ترقی اور ٹیکنالوجی ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں ترقی لانے میں متحرک تصورات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ ان تمام عوامل نے مغربی کلچر اور نوآبادیاتی نظام کے بعد بہت سے دیگر آزاد ہونے والے معاشروںکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ثقافتی ترقی کی شرح میں تنوع پایا جاتا ہے جس کا دارومدار اس معاشرے میں گراس روٹ لیول پر ٹیکنالوجی، معیشت اور تصورات کی ترویج پر ہوتا ہے۔ ان معروضات کی وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ اس وقت ملک میں ''مقبول‘‘ سماجی مکالمہ یہ ہے کہ ''کچھ نہیں بدلا ہے‘‘ یا ''سب کچھ بدل جائے گا‘‘۔ یہ دونوں عوامی اظہار تاریخ سے لگا نہیں کھاتے۔ ہمارے ہاں ترقی یقینی طور پر آ رہی ہے لیکن اُسے من پسند سیاسی پیمانوں میں تولنا درست نہیں۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تنوع کے شکار پاکستانی معاشرے میں ثقافتی تبدیلی کا حجم اور رفتار ہر جگہ ہموار اور یکساں نہیں ہو سکتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کے تمام حصوں میں معاشی ترقی اور سماجی حرکیات یکساں نہیں۔ سماجی اور معاشی علوم کے زیادہ تر ماہرین تبدیلی کے لیے یا تو ملک کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں یا پھر ان کی توجہ صرف شہری علاقوں تک ہی مرکوز رہتی ہے۔ دیہی علاقوں کو سکوت اور جمود کے علاوہ پسماندگی کا مظہر سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ ان نام نہاد ماہرین کے نزدیک ان علاقوں میں کسی قسم کی تبدیلی کے آثار تلاش کرنا وقت کا زیاں ہے کیونکہ یہ علاقے روایات، جاگیردارانہ نظام اور قبائلی رہن سہن کے بندھن میں جکڑے ہوتے ہیں۔ یقینا یہ تاثر مکمل طور پر غلط نہیں ہے لیکن ان کے بارے میں قطعی رائے قائم کر لینا درست نہیں۔ وہاں سماجی حرکیات کا بہائو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ دولت کی فراوانی، میڈیا، ہجرت اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔
میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دیہی علاقوں، خاص طور پر وسطی اور شمالی پنجاب، میں تبدیلی کا جاری عمل واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے وہ اضلاع بھی تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں جہاں کے باسی مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں کام کاج کرنے گئے اور واپس آکر انہی علاقوں میں آباد ہو گئے۔ ان کی معاشی خوشحالی کی وجہ سے دیہی زندگی کے خدوخال میں تبدیلی آ رہی ہے۔ افراد کی شہری علاقوں کی طرف ہجرت، سمندر پار کام کرنے والے پاکستانیوں کی بھیجی جانے والی رقومات اور زرعی پیداوار کے لیے استعمال کی جانے والی جدید ٹیکنالوجی اس تبدیلی کی نقیب ثابت ہوئی۔ ان کی وجہ سے خاندانوں کے اثاثوں اور خوشحالی میں اضافہ ہوا۔ اس دولت نے ان کے رہن سہن اور سوچ کو بدل دیا۔ چودہ بلین ڈالر سالانہ کے قریب بیرونی دنیا سے بھیجی جانے والی رقوم کی وجہ سے کراچی دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں دیہی علاقوں سے آکر آباد ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ان معروضات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیہی علاقے بتدریج تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ان لوگوں‘ جو اسی اور نوے کی دہائی میں مشرق وسطیٰ میں گئے تھے، کی اپنے خاندانوں سمیت وطن واپسی کی وجہ سے تعلیمی اداروں اور شفاخانوں کا رجحان بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بیرونی ممالک سے واپس آنے والے افراد صرف دولت ہی نہیں، نظریات بھی لاتے ہیں۔ اس طرح وہ دیہی علاقوں میں تبدیلی کی علامت بن جاتے ہیں اور پھر دیگر افراد ان کی نقل کرنے لگتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور مواصلات کی ترقی نے بھی اس تبدیلی کو مہمیز دی۔ گائوں میں ہل چلانے والے کسی شخص سے ملیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ سے بوکو حرام کے خطرے یا سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کے مضمرات پر بات کرنے لگ جائے۔ سیاسی طبقے اس تبدیلی کو اپنے حق میں کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں اس تبدیلی کی ہمنوا اور ہم آواز بن کر عوام کے دل میں گھر کر لیتی ہیں، وہ کامیاب ہو جاتی ہیں اور جو اپنے ماضی کے جھروکوں سے ہی عوام کو اپنی جھلک دکھا کر ووٹ چاہتی ہیں، ناکام ہو جاتی ہیں۔ درحقیقت اس تبدیلی نے پاکستان کے سیاسی معروضات کو بدلنا شروع کر دیا ہے۔ امید ہے کہ روایتی سیاسی جماعتیں بھی بہت جلد شخصیت پرستی اور ''قربانیوں‘‘ کی بجائے تبدیلی کی لہر کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائیں گی؛ تاہم ایک بات‘ ضروری نہیں کہ جواں سال نسل ہی تبدیلی کی امین ہو اور معمر سیاست دان دقیانوسی سمجھے جائیں۔ اس تبدیلی کا تعلق عمر سے نہیں ہے۔ اگر موجودہ اہم سیاسی جماعتوں میں شامل ہر عمر کے سیاست دانوںکے بیانات پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ کلچر کی تبدیلی کس طرح سیاسی حرکیات کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔