سات بازاروں کا شہر
میں رونق بھرے... سات بازاروں کا شہر ہوں... میری آنکھوں میں پُرپیچ گلیوں کے خم ہیں... جہاں دھوپ پوری نہیں پڑ رہی... سینکڑوں ہیں دکانیں... جہاں نرم چھجوں کے نیچے... چمکدار بارش کا پانی نہیں رُک رہا... شہر کا مین بازار... چھل چھل چھلکتی دکانیں... فلک زار ہوٹل... کھلونوں بھرے راستے... میری آنکھوں میں آباد ہیں... پیچ کھاتی سیہ رنگ سڑکیں... جہاں اب کے بجری بچھانی نہیں... ریت چھلنی کے اوپر نہیں چھاننی ...اور پانی کی بنیاد اوپر اٹھانی نہیں... باغ کے تازہ پھولوں سے... پانی میں بہتی ہوئی پتیوں سے... اٹھانا ہیں رستے... ابھی راستے میں ہے... پھولوں سے نازک زمانہ... یہاں پتوں والی... ہرے ٹائروں والی گاڑی کو آ کر ہے رُکنا... زمیں کو مقام مقرر سے اوپر ہے اٹھنا... فلک کو مقام مقرر سے... نیچے ہے جھکنا... یونہی سالہا سال ہے شہر کو زندہ رہنا... جوانوں کے ہمراہ... رنگیں کناروں‘ ستاروں بھری کشتیوں کو... ہے بہنا... اسی ایک دریا کے گیلے کناروں پہ... اُگنے ہیں باغات... بننے ہیں اونچے مکانات... اٹھنے ہیں مینار... میں نے فلک بوس مینار کی طرح... پھولوں بھرے شہر میں... سات بازاروں سے... سات رستوں سے... سیاحوں کو... راہبوں کو... نظر آنا ہے... شہر سے جانے والوں نے... جب لوٹ کر اپنے گھر آنا ہے... ایک میں نے نظر آنا ہے... سات بازاروں میں منقسم‘ متحد ۔
سیلِ آب
رات میری آنکھ جب کھلی... تو کھاٹ میری ہل رہی تھی... ہل رہی تھی نائو... سیلِ آب کے مقامِ اصل پر... ستارے جھڑ رہے تھے آسمان سے... خلا بذاتِ خود سیاہ ہول تھا بنا ہوا... پہاڑ سے نکل رہی تھی... تیز دھار کی طرح ہوا... اُبل رہا تھا پانی... جیسے سیلِ آب کے مقام سے... اندھیرا آبِ سرد کو لپیٹتا... نگل رہا تھا روشنی کی زرد سی لکیر کو... اُلٹ رہی تھی کائنات... اک طرف... کسی کا دستِ نازنیں... جبین پر رُکا... شفق سے سُرخ ہونٹ... خشک ہونٹوں سے ملے... میں جی اٹھا... میں مسکرا کے جاگ اٹھا... اُفق کے دشت میں... طلسمِ احمریں چہار سمت تھا... اسی طرح... معاًسفید دن نکل پڑا... نظامِ کائنات پھر سے چل پڑا ۔
ناشتے کی میز پر
پلک نواز... بوڑھے والدین کی نگاہ... اہلِ خاندان پر پڑے... تو... دور... افق کی گہری گھاٹیوں سے... صبح اپنے رنگ و نور سے لدی پھندی... نکل پڑے... مکاں‘ جہاں مقیم بوڑھے والدین ہوں... وہاں رُکے... رُکے تو اپنا سونے جیسا روپ... اس مکاں پہ وار دے... مکاں کے سارے رنگ کو اُتار دے...یہ لوگ تو عظیم شہر ہیں... عظیم شہر کا قدیم اندرون ہیں... یہاں وہاں تھڑے ہیں... جن پہ لوگ بیٹھ کر... تمام دن کی راکھ اُڑا سکیں... کسی کے ساتھ بیٹھ کر... ذرا سا مسکرا سکیں... ذرا سا اپنے آپ کو رُلا سکیں... یہ لوگ تو سرائے کی کلید ہیں... جہاں پہ دنیا والے... اک سکوں کی رات کاٹ لیں... جو چاروں اور گھیرتا ہے... وہ محیط پاٹ لیں... یہ لوگ تو خلا کی ثقل ہیں... فلک کا رنگ ہیں... اگر نہ ان کا ساتھ ہو... نہ دھوپ ہو کرن بھری... فلک نہ نیل رنگ ہو... یہ کون ہیں... کہ جن کا عطر سے بھرا وجود... عکس ریز ہے... کہاں سے آ رہی ہیں... ارغنوں کی یہ دھنیں... یہ ارغوانی باغ ہے... کہ ناشتے کی میز ہے... نزار کم بدن... جو ایک قاش سنگترے کی... ناشتے کی میز سے اٹھائیں تو... پھلوں میں رس پڑے... جو دھیرے سے ذرا سا مسکرائیں... سارا خاندان ہنس پڑے!
شہرِ خوش بخت میں
شہرِ خوش بخت میں... جب تو گھر سے نکلتی ہے... گلیاں دمکتی ہیں... رستہ چمکتا ہے... مہکار اڑتی ہے... بازار سجتے ہیں... سینوں میں لذت اُترتی ہے ...لوگوں میں جذبے ہمکتے ہیں... جب بھاری پلکیں اٹھاتی ہے... ماتم کی مجلس بپا کر کے... صدیوں کو بھوبل بناتی ہے... ملاح... کشتی کو کھیتے ہیں... دریا کا پانی لرزتا ہے... پانی کے سینے میں... چپو اُترتا ہے... سورج اُبھرتا ہے... کرنیں بکھرتی ہیں... پیڑوں کی شاخیں نکھرتی ہیں... میدان... سیال سونے سے بھر جاتے ہیں۔ شہرِ خوش بخت میں... تو جو گھر سے نکلتی ہے... اسطور کی جو حقیقت ہے... ایمان کا جو تقاضا ہے... باغی جو نعرہ لگاتا ہے... مذہب جو تعلیم دیتا ہے... سائنس جو انکار کرتی ہے... شاعر جو کہتا
ہے... ان سب کی تصدیق ہوتی ہے... تو اپنی پلکیں جھکاتی ہے... اور رات آتی ہے... پیڑوں کے خیموں میں... خاموشی ہوتی ہے... پتوں کی لمبی زبانیں لٹک جاتی ہیں... اک ستارے کی لو سے... الجھتا ہوا دل مچلتا ہے... آفاق گھل جاتے ہیں... موم بتی کی چوٹی سے... شعلہ نکلتا ہے!
............
اگرچہ یہ آزاد نظمیں ہیں لیکن ان میں کہیں کہیں قافیہ بندی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جو نظم کی نہ صرف روانی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ ایک طرح کی غنائیت بھی روبراہ کرتے ہیں۔ ماضی میں ان کی نظموں کا اختتام بالعموم ہم قافیہ مصرعوں ہی پر ہوا کرتا تھا لیکن معلوم ہوا ہے‘ بلکہ وہ خود بتاتے ہیں کہ پچھلے سال ڈاکٹر ستیہ پال آنند جب پاکستان کے دورے پر آئے اور انہی کے ہاں قیام کیا تھا تو انہوں نے اس قافیہ بندی سے منع کیا تھا اور غالباً اسی کے اثر میں یہ تبدیلی آئی ہے اور جس کا مطلب ہے کہ موصوف کا سایہ بھی ان نظموں پر پڑنے لگا ہے جو بجائے خود ایک تشویش ناک امر ہے۔
آج کا مقطع
میں جو خود کو نہ جلائوں تو کروں کیا کہ ظفرؔ
آگ کے واسطے ایندھن بھی مجھے چاہیے ہے