تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     01-10-2014

غربت ‘ عیش اور خونیں انقلاب

اے کاش! اسحاق ڈار صاحب کبھی اپنی سوچ 
اور فکر کی ''اُڈاری‘‘ اس انداز سے بھی ماریں 
کہ لوگوں کی جیبوں میں اس قدر استطاعت 
پیدا کر دی جائے کہ ہر غریب کم از کم ایک کلو گھی
کا پیکٹ خرید سکے۔ یوں کھپت زیادہ ہو گی تو 
ٹیکس کی کم مقدار بھی زیادہ ہو جائے گی

 

سیلاب کے بعد سبزیوں میں کمی ہو گئی ہے اور یہ مہنگی بھی ہو گئی ہیں۔ پاکستان کا پنجاب سیلاب سے تباہ حال ہے، بھارت کا پنجاب سیلاب سے مکمل محفوظ ہے لہٰذا بھارتی پنجاب کی سبزیاں مارکیٹ میں مہنگی بک رہی ہیں۔ یوں ہمارا کسان تباہ حال، بھارت کا کسان خوشحال ہے، اس لیے کہ اس کی جیب میں ہمارا پیسہ جا رہا ہے... میں لاہور میں سبزی کی دکان پر سبزی خرید رہا تھا کہ ایک بزرگ خاتون بھی وہاں آن کھڑی ہوئیں۔ دو تین سبزیوں کے بھائو پوچھے اور پھر آگے بڑھ گئیں۔ میں خاتون کے پیچھے چل دیا۔ سلام کیا اور پوچھا کہ انہوں نے سبزی کیوں نہیں خریدی؟ کہنے لگیں: استطاعت سے باہر ہے۔ میں نے عرض کی: آپ جو سبزی چاہیں خرید لیں، ادائیگی میں کر دوں گا۔ خاتون نے پیشکش کو قبول فرمایا: سبزی خریدی اور شکریہ ادا کر کے چلی گئیں۔ میں متواتر اسی سوچ میں ہوں کہ لاہور میں نہ جانے ایسے کتنے لاکھ گھرانے ہوں گے‘ جو سبزی خریدنے کی مالی ہمت نہیں رکھتے۔ 
میری جستجو مجھے ایک غریب علاقے میں کریانے کی ایک دکان پر لے گئی۔ وہاں منظر یوں تھا کہ لوگ تھوڑی تھوڑی مقدار میں ضروریاتِ زندگی حاصل کر رہے تھے۔ کچھ اتنی مقدار میں کہ جس سے ایک دن کی ضرورت پوری ہو جائے اور کچھ اتنی قلیل مقدار میں کہ دن کے صرف ایک پہر کا گزارا ہو جائے۔ میں نے خوردنی تیل پر توجہ مبذول کی تو ایک بچہ اڑھائی سو گرام کا پیکٹ خرید رہا تھا۔ اس سے ایک دن کا گزارا چل جاتا ہے۔ اس پیکٹ کی قیمت 45 روپے کے لگ بھگ تھی۔ دو سو گرام کا پیکٹ بھی دستیاب تھا۔ یہ کوئی 40 روپے کا تھا۔ اس سے کم مقدار میں پیکٹ بھی بک رہے تھے۔ یہ مقدار 100 گرام تھی۔ اس کی قیمت 20 روپے تھی۔ اس پیکٹ میں دال پکا کر غریب آدمی دو وقت کھانا کھا سکتا ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آنے لگا۔ کم و بیش 38 سال پہلے کی بات ہے، بناسپتی گھی کا نام پہلی بار سنا تھا۔ تب گھروں میں دیسی گھی استعمال کیا جاتا تھا۔ جس نے اپنے کچن میں بناسپتی گھی داخل کیا‘ وہ چھپ کر خریدتا تھا۔ میری والدہ محترمہ نے بھی بناسپتی گھی خریدنے کا فیصلہ کیا‘ تو کپڑے کے تھیلے میں ڈبہ ڈال کر دیا اور یہ نصیحت کی کہ چھپا کر لانا تاکہ کوئی دیکھ نہ لے‘ ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ بناسپتی کھانے لگ گئے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ڈالڈا گھی کھانا بے توقیری کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ پھر خوردنی تیل سامنے آیا اور آج سو سو گرام کی پُڑیا میں بک رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے کسی حکیم نے دوائی میں ڈال کر نسخہ تیار کرنا ہو۔
میں اس کے بعد ایک دو بڑے سٹوروں پر گیا‘ جہاں کھاتے پیتے لوگ جاتے ہیں۔ وہاں سو گرام، دو اور اڑھائی سو گرام خوردنی تیل کے پیکٹ کا معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ہزار گرام سے کم پیکٹ نہیں ہے؛ البتہ اڑھائی سو گرام میں دیسی گھی دستیاب ہے۔ میں اب اس جستجو میں پڑ گیا کہ آیا پلاسٹک کے پیکٹ کا وزن بھی خوردنی آئل میں شامل ہے۔ معلوم ہوا کہ ایسا ہی ہے؛ تاہم مارکیٹ میں خوردنی تیل کے بعض برانڈ ایسے بھی ہیں جن کے ایک کلو گرام کے پیکٹ پر خوردنی آئل میں 6 گرام زائد لکھا ہوا تھا۔ حیران ہوا کہ ایسا دیانتدار آدمی ہمارے معاشرے میں کون ہے؟
پتہ کیا تو معلوم ہوا یہ گھی فیصل آباد کے ایک صاحب تیار کرواتے ہیں۔میں فیصل آباد ان کے پاس پہنچ گیا۔ وہ مجھے اپنی ''گھی مل‘‘ میں لے گئے اور بتایا کہ وہ کس قدر خالص اور شفاف مال تیار کرتے ہیں۔ پیکٹ کا وزن کر کے اتنا خوردنی آئل زیادہ پیک کرتے ہیں تاکہ حلال کھائیں۔ یقینا اور بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو حلال کھانے میں ایسی احتیاط کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ رزق بھی زیادہ دیتے ہیں۔ ایک دیانتدار تاجر اتنا ہی کر سکتا ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔
وقت کے حکمران اگر بجلی اور گیس ہمہ وقت اور مناسب نرخوں پر مہیا کر دیں، فوڈ کنٹرول محکمہ کو رشوت سے روک لیں اور ناجائز ٹیکس کو جائز کر لیں تو بڑی آسانی کے ساتھ 100 گرام کی پُڑیا بیس روپے کی بجائے دس روپے کی ہو جائے گی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ جس غریب بچے کو اس کی ماں نے بیس روپے کی پُڑیا لینے بھیجا ہے، اسے جب پتہ چلے گا کہ 20 روپے کی پُڑیا میں دو سو گرام تیل ملے گا تو اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھے گا... مگر‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کون کرے گا؟ میاں نواز شریف کریں گے؟ جنہوں نے امریکہ کے دورے میں ایک ہوٹل میں جو کمرہ بُک کرایا اس کا ایک دن کا کرایہ آٹھ ہزار ڈالر تھا۔ اس کے برعکس نریندر مودی نے جس ہوٹل کا کمرہ بُک کرایا‘ اس کا کرایہ آٹھ سو ڈالر یومیہ تھا۔ یوں بھارتی وزیر اعظم نے اپنے ملک کی کرنسی کے حساب سے ساٹھ ہزار روپے میں کمرہ بُک کروایا اور ہمارے محترم میاں صاحب نے پاکستان کی کرنسی کے حساب سے کم از کم آٹھ لاکھ روپے یومیہ میں کمرہ بک کروایا۔
بقول محترم نذیر ناجی صاحب کے... اسحاق ڈار صاحب کی نظر ہر وقت اہل پاکستان کی جیب پر رہتی ہے کہ ٹیکس عائد کر کے پیسہ کیسے نکلوایا جائے... اور اب یہ کام اس قدر تیز ہو چکا ہے کہ بجلی کے ایک مہینے کے اضافی بل بھیج کر 72 ارب روپے اہل پاکستان سے زیادتی کر کے اکٹھے کر لیے گئے۔ بجلی کے ان 72 ارب روپوں میں اس غریب مرد اور عورت کا پیسہ بھی شامل ہے جو بیس روپے کی گھی کی خوردنی پُڑیا خرید رہے ہیں۔ اسی جائز ناجائز طریقے سے حاصل کردہ پیسے سے وزیر اعظم کا امریکہ میں ایک دن کا جو آٹھ لاکھ روپے کرایہ ادا کیاگیا ہے‘ اس میں بیس روپے کا خوردنی تیل خریدنے والے اس بچے کا بھی پیسہ موجود ہے جو پھٹے پرانے کپڑے پہنے گائوں میں کریانے کی دکان پر کھڑا ہے۔ اے کاش! اسحاق ڈار صاحب کبھی اپنی سوچ اور فکر کی ''اُڈاری‘‘ اس انداز سے بھی ماریں کہ لوگوں کی جیبوں میں اس قدر استطاعت پیدا کر دی جائے کہ ہر غریب کم از کم ایک کلو کا پیکٹ خرید سکے۔ یوں کھپت زیادہ ہو گی تو ٹیکس کی کم مقدار بھی زیادہ ہو جائے گی۔
میاں شہباز شریف صاحب نے مکرر ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے غربت کا فرق نہ مٹایا تو ہمارے محلات نہیں بچیں گے۔ میں کہتا ہوں موجودہ سیلاب مہنگائی بڑھا رہا ہے‘ لہٰذا اللہ کی رضا کے لئے نہ سہی، سیلاب زدہ غریب آدمی کی ہمدردی میں نہ سہی‘ اپنے محلات کے تحفظ ہی کے لئے ڈار صاحب کی تیز نظر کا رخ بدل دیں۔ نہیں تو رخ بدلنے کی جو ہوائیں چلی ہیں‘ یہ بقول میاں شہباز شریف صاحب کے خونیں نہ بن جائیں! ان کو سبک خرام کر لیں، ٹھنڈی بنا لیں، باد نسیم کے جھونکے بنا لیں، اس لئے کہ ایسا کرنا آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ حکمران آپ ہیں۔ خونیں لہروں اور خونیں انقلاب کی باتیں آپ کی زبان سے اچھی نہیں لگتیں، اس لئے کہ نکاح کا خطبہ دینے والے کی زبان سے جنازے اور موت کی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ عید قربان پر حکمرانی کے روایتی انداز کو قربان کرنے کی باتیں نہ کی جائیں تو ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved