کتاب یہ کہتی ہے کہ باقی صرف وہی چیز بچتی ہے‘ مخلوق کے لیے جو منفعت بخش ہو‘ باقی سب برباد۔ ع
صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک
خواجہ آصف کو کیا سوجھی کہ انہوں نے عمران خان پر وہ الزام عائد کیا۔ یہ کہ بیرون ملک جمع ہونے والا چندہ‘ وہ وہیں رکھ چھوڑتے ہیں۔ اولاً یہ بات سرے سے غلط ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو شوکت خانم اب تک میو ہسپتال بن گیا ہوتا۔ امرا اور بارسوخ لوگ جہاں مفت دوا پاتے ہیں غریب آدمی شاذ شاذ۔ دوسری یہ کہ اگر ایسا ہو بھی تو یہ شوکت خانم کے منصب داروں اور عطیات دینے والوں کا دردِ سر‘ خواجہ صاحب کو کیا تکلیف ہے۔ مسئلہ صرف خواجہ صاحب کا نہیں‘ عمران خان کا لب و لہجہ بھی یہی ہے۔ اوئے نوازشریف‘ وغیرہ وغیرہ۔ وہی کیا لیڈروں کی پوری کی پوری کھیپ شائستگی اور فصاحت سے محروم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی تربیت گھروں میں نہیں گلیوں اور بازاروں میں ہوئی ہے۔ عمران خان نے یہ سبق اپنی پارٹی کے کارکنوں کو بھی پڑھا دیا ہے۔ ایک خاتون ڈاکٹر نے‘ اگر میرا حافظہ درست ہے تو معقول عمر کی ہیں اور ایک بار ان کی ملاقات اس ناچیز ہی نے کپتان سے کرائی تھی‘ پچھلے دنوں مجھے لکھا: تاریخ میں آپ کا ذکر میر جعفر‘ میر صادق اور جاوید ہاشمی کے ساتھ ہوگا۔ اگر کچھ پڑھی لکھی ہوتیں تو ادراک ہو سکتا کہ ایک معمولی اخبار نویس کیا‘ تاریخ میں تو جاوید ہاشمی کا ذکر بھی نہیں ہوگا۔ عمران خان کا یہی حال رہا تو شاید ان کا بھی نہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد 1857ء تک کے کتنے بادشاہوں کا نام لوگوں کو یاد ہے؟ کچھ باقی نہیں بچا‘ کچھ بھی نہیں۔ زمانہ ہر چیز کو فنا اور فرسودہ کردیتا ہے۔ قبروں تک کے نشان مٹ جاتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کل من علیہا فآن ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ جو کچھ اس زمین پر ہے‘ فنا ہو جائے گا اور باقی رہے گا‘ تیرے رب کا چہرہ‘ بے پناہ عظمت اور بے کراں بزرگی والا۔ کتاب کہتی ہے: زمین کے سینے پر اکڑ کر نہ چلو‘ تم اسے پھاڑ نہیں سکتے اور پہاڑوں سے اونچے نہیں ہو سکتے۔
چڑچڑا پن ہرگز کوئی اندوختہ نہیں‘ بہادری ہے... اور بہادر لوگ بدتمیز نہیں ہوا کرتے۔ بزرگ اخبار نویس گاہے تاسف کے ساتھ لکھتے ہیں کہ لب و لہجے بگڑ کر بازاری ہو گئے۔ کبھی ایسا نہیں تھا۔ گستاخی معاف‘ ہم تو جب سے جرنلزم میں آئے‘ یہی دیکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو بہت ہی پڑھے لکھے آدمی تھے‘ برکلے اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ۔ ایئرمارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان ایسے معزز رہنمائوں کو وہ دو آلو کہا کرتے‘ یا آلو خان۔ صادق آباد میں جہاں بجلی بلوں کے ستائے ہوئے پنجاب‘ سندھ‘ سرحد پر دھرنا دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں‘ فخر ایشیا نے اپنے مخالفین کو ''مادی ککڑ‘‘ کہا تھا۔ قریب کوئی سرائیکی بولنے والا موجود ہو تو اس سے مطلب پوچھ لیجیے۔ اپنے وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان کے بارے میں ارشاد کیا تھا: آگے بھی خان‘ پیچھے بھی خان‘ اسی پر اکتفا نہیں پھر انہیں ڈبل بیرل خان کہا۔ راولپنڈی جیل میں بیتے ان کے آخری ایام کی کچھ تفصیلات ناچیز کو معلوم ہیں‘ اگر اپنی خودنوشت لکھ سکا تو عرض کروں گا۔ عبرت ہی عبرت‘ مگر افسوس کہ کوئی پلٹ کر نہیں دیکھتا اور کوئی سیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ایک سرکاری افسر کے علاوہ توسیع کی تجویز
پر جسے ''ناگزیر‘‘ کہا گیا‘ جناب بھٹو ہی نے ایک فائل پر لکھا تھا Graveyards are fulll of inevitable people. (قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں)۔
میں نے دیکھا قصر فریدوں کے در اوپر پر اک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں ہے
عام پاکستانی ہی نہیں‘ معتبر لوگوں کے مطابق وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی‘ پرویز رشید‘ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف سے نالاں ہے۔ بیچارے خواجہ آصف کے ساتھ کچھ زیادتی ہوگی۔ فوج کے بارے میں ان کی برسوں پرانی ایک تقریر بار بار نشر کر کے‘ ان کا تاثر کچھ زیادہ بگاڑ دیا گیا۔ خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید کو مگر کیا ہوا تھا؟ پرویز رشید کے اس جملے نے ساحل کراچی سے سیاچن گلیشئر کے برف زاروں تک فوجی جوانوں اور افسروں کے دلوں میں آگ بھڑکا دی تھی۔ غلیل نہیں‘ ہم دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ فوج والے اگر موصوف کے اس زمانے کے کارنامے نشر کر دیتے‘ جب وہ پی ٹی وی کے چیئرمین ہوا کرتے تھے تو ان کا کیا بنتا۔ کردار کشی موصوف کی فطرت ثانیہ بن چکی۔ کسی اخبار نویس سے اگر ناراض ہو جائیں تو اس کے مخالفین کو ڈھونڈتے ہیں۔ فرمائش کرتے ہیں کہ فلاں کے خلاف لکھو‘ سرکاری خزانے سے انعام ملے گا۔ ایک بار میاں محمد شہباز شریف کو میں نے مطلع کیا کہ (ڈی جی پی آر آفس میں ایک مضمون میرے خلاف لکھوایا گیا۔ بیس پچیس اخبارات میں چھپوایا گیا)۔ سامنے کی بات یہ تھی کہ جس اخبار میں یہ ناچیز لکھا کرتا‘ نون لیگ کا مؤقف اس میں چھپ گیا تھا‘ پھر اس مہم کی ضرورت کیوں پڑی؟ جواب میں انہوں نے مجھے لکھا ''مضمون تو میں نے دیکھا ہے‘ مگر یہ معلوم نہیں کہ ہمارے دفتر میں لکھا گیا‘‘۔ شواہد سے میں نے انہیں مطلع کیا اور پوچھا: کیا آپ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کریں گے یا میں عدالت میں جائوں؟ اس کے بعد مگر ایک بہتر خیال دل میں جاگزیں ہوا۔ جو لوگ انتقام کے آرزو مند رہتے ہیں‘ ان کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ بو علی سینا نے کہا تھا: جو اپنے زخم یاد کرتے رہتے ہیں‘ ان کے زخم ہرے رہتے ہیں۔ کوئی حکمران اور رہنما تو انتقام کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا‘ الّا یہ کہ معاشرے کو برباد کرنے پر تل جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو اسی کی نذر ہوئے۔ مارشل لاء کے بعد شریف خاندان اگر جلاوطن ہوا تو اس کا ایک بڑا سبب بھی یہی تھا۔ سیف الرحمن ایسے لوگوں کے سبب۔ وہ میر شکیل الرحمن کے ادارے اور زندگی کے در پے تھے۔
الیکشن 2013ء کے بعد آزاد امیدواروں کی شرکت سے نون لیگ کو دو تہائی اکثریت مل گئی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے سر جھکا دیا تھا کہ اس کے جرائم بے شمار تھے۔ وہ خوف زدہ تھے۔ انتخابی نتائج عمران خان نے تسلیم کر لیے تھے۔ میاں محمد نوازشریف کے وزیراعظم بننے سے قبل جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ تعاون کا انہیں یقین دلایا تھا۔ اگلے چھ ماہ تک‘ کمال شائستگی کے ساتھ وہ ان کی مدد کرتے رہے۔ باقی تاریخ ہے۔
ٹی وی مذاکروں میں نون لیگ کے مشاہداللہ خان‘ تو دوسروں کے لتے لیتے ہیں‘ حد یہ ہے کہ حنیف عباسی۔ ان کے کارنامے اخبار نویس بیان کرنے پر تل گئے تو سر چھپانے کو انہیں جگہ نہ ملے گی۔ اب ایک اور صاحب ان کی صفوں سے ابھرے ہیں۔ ایک روز چودھری برادران کے بارے میں گل افشانی فرما رہے تھے کہ کسی نے پوچھا: کیا یہ وہی لڑکا نہیں‘ جو فلاں سال‘ فلاں دن اور فلاں مہینے‘ فیصل آباد میں وزیراعلیٰ پرویزالٰہی کی گاڑی کے سامنے ناچ رہا تھا؟
بدزبانی کے بدترین مظاہرے اسلام آباد کے دھرنے میں ہوئے۔ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ ایک ایک منظر‘ ایک ایک چینل سے نشر ہوا اور بار بار نشر ہوا۔ عمران خان سے اٹھارہ برس تک میرا بہت قریبی تعلق رہا؛ لہٰذا ان کے باب میں‘ بے حد احتیاط سے کام لیتا ہوں اور انشاء اللہ ہمیشہ لیتا رہوں گا۔ تحریک انصاف کے کارکن میرا لحاظ کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میں ان کا خیرخواہ ہوں‘ دشمن نہیں۔ اس کے باوجود حال ہی میں بعض نے بدتمیزی کی۔ صبر کرنے کا فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے اے این پی‘ اسلامی جمعیت طلبہ‘ ایم کیو ایم اور نون لیگ کو بھگت چکا ہوں۔ گزارش فقط یہ ہے کہ اس سے انہیں ہرگز کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ کارگاہِ حیات میں دشنام نہیں دلیل کام آتی ہے۔ بس کرو‘ خدا کے لیے بس کرو‘ کتاب یہ کہتی ہے کہ باقی صرف وہی چیز بچتی ہے‘ مخلوق کے لیے جو منفعت بخش ہو‘ باقی سب برباد۔ ع
صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک