تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     02-10-2014

نیویارک سے ایک جائزہ

نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں ڈاکٹر طاہرالقادری لکھتے ہیں : 
''یہ پاکستان ہے جہاں امیر اور طاقتور افراد کے لیے ایک قانون ہے، غریب اورکمزور افراد کے لیے دوسرا۔ یہاں دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے لوٹ مار کرنے والا ایک خاندان ملک پر براجمان ہوجاتا ہے توکبھی دوسرا ‘‘۔ یہ کالم اُس وقت شائع ہوا جب وزیرِاعظم نواز شریف بھی نیویارک ہی میں موجود تھے۔ علامہ طاہرالقادری اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں : '' امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اشرافیہ طبقہ بدعنوانی اور اقرباپروری کی دلدل میں غرق ہے۔ ان پر میگا پراجیکٹس میں کمیشن اور کک بیکس لینے، بنکوں کے قرضے ادا نہ کرنے اور ٹیکس چوری کرنے کے سنگین الزامات ہیں۔ شریف برادران پر 2000ء میں کئی ملین ڈالرکے ہیرپھیرکا الزام لگا تھا‘‘۔
جس دن ڈاکٹر طاہرالقادری کاوزیراعظم پاکستان کے حوالے سے یہ منفی کالم شائع ہوا، ٹھیک اُسی دن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا امریکہ میں بھر پور استقبال ہورہا تھا۔ داخلی حالات کی وجہ سے امریکی میڈیا میں پاکستان کے امیج کو سخت نقصان پہنچا ۔ وزیراعظم کی غیر سرکاری ترجمان اور صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ نواز شریف کی اقوام متحدہ میں تقریرکو عالمی رہنمائوں نے تالیاںبجا کر سراہا۔ ان کا یہ پیغام صرف داخلی طور پر مسلم لیگ ( ن ) کے حامیوں کی تسلی و تشفی کے لیے تھا، حقیقت کچھ اور تھی۔ وہ خود جانتی ہیں کہ ان کے والد صاحب کی ساکھ گزشتہ ہفتے نیویارک میں جمع ہونے والے عالمی رہنمائوں کی نظروں میں گرچکی تھی۔ مریم نواز نے اپنے والدکی تعریف کرتے ہوئے نیویارک میں بھارتی وزیراعظم کے فقید المثال استقبال کو نظر اندازکرنا ہی بہتر سمجھا ورنہ ہم اکثر بھارت کے ساتھ اپنا تقابل کرتے رہے ہیں۔ 
اس وقت جب نیویارک ٹائمز اور دوسرے اہم امریکی میڈیاہائوسز نریندر مودی کے گن گارہے تھے ، اسی اخبار (نیویارک ٹائمز) کی بارہ سال پہلے کی ایک رپورٹ جوسانحہ ِگجرات کے ایک ماہ بعد تیارکی گئی تھی، میرے سامنے ہے۔ اس میں درج خونچکاں تفصیل کے مطابق ہندو جنونیوں نے تین ہزار سے زائد مسلمانوں کو نہایت سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ 600 سے زائد مسلمان خواتین کی آبروریزی کی گئی، بیشتر کو جلا دیا گیا۔ مسلمانوں کے کاروبارکو منظم سازش کے تحت تباہ کیا گیا، ان کے گھروں اور کاروباری مراکز کو نذرِ آتش کیا گیا۔ اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ مودی پر مبینہ طور پر مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث ہونے کا الزام لگا۔ اُنہیں 2005ء میں امریکی ویزہ دینے سے انکار کردیا گیا کیونکہ 1998ء میں بنایا گیا ایک قانون ایسے افراد کو امریکی ویزہ دینے سے روکتا ہے جو مذہبی آزادی کے حق کی شدید خلاف ورزی کے مرتکب ہوچکے ہوں۔ 
لیکن یہ ماضی کی باتیں ہیں، آج 2014ء میں مود ی کو وائٹ ہائوس میں صدراوباما اور فرسٹ لیڈی مشل اوباما نے ڈنردیا۔ اس کے علاو سترہ کے قریب اہم کمپنیوں، جن میں گوگل، بوئنگ، آئی بی ایم، پیپسی اور ماسٹرکارڈ شامل ہیں، کے سی ای اوز سے ان کی ملاقات کا شیڈول طے پا چکا ہے۔ وال اسٹریٹ جنرل نے مودی کے حوالے سے لکھا :
''امریکہ بھارت کا فطری اتحادی ہے‘‘۔ بھارتی وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا: '' بھارت کی اسی کروڑ آبادی پینتیس سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ بہت پرامید صورت ِحال ہے کیونکہ ان نوجوانوںکی توانائی، ذہانت اورکام کرنے کی صلاحیت بھارت کی اصل طاقت ہے‘‘۔ بھارتی وزیراعظم نے وعدہ کیا کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے غیر ضروری طور پر سخت قوانین اور سرخ فیتے کا خاتمہ کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کریںگے ۔ ان کا امریکہ میں پیغام تھا کہ ہرچیز بھارت میں تیار ہونی چاہیے۔ 
دوسری طرف پاکستانی وزیراعظم کیا کررہے ہیں؟ وہ نیویارک کے مہنگے ترین ہوٹل والڈورف اسٹوریا(Waldorf Astoria) میں آرام فرماتے ہوئے اپنے تن بدن کو راحت پہنچا تے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے نواز شریف کے پہلے اور دوسرے دورحکومت کے دوران اقوام متحدہ کے اجلاس کی رپورٹنگ کی تھی۔ ایک مرتبہ وہ عالیشان پلازہ ہوٹل میں مقیم ہوئے جہاں صرف شاہی خاندانوں کے افراداورارب پتی بزنس مین ٹھہرتے ہیں ۔ پاکستان جیسے غریب اور مقروض ملک کے وزیراعظم کا اتنے مہنگے ہوٹل میں قیام کا تصور دل دہلا دیتا ہے، لیکن ان پر جتنی بھی تنقید ہوتی رہے، وہ اسے خاطر میں لاتے ہوئے اپنی شاہانہ طرزِ زندگی میں خلل ڈالنے کے روادار نہیں۔ پاکستان کے غریب ٹیکس دہندگان، فاقہ کش محنتی افراد کے روپے پیسے سے رسم حکمرانی ادا کی جاتی ہے۔ جب حکمران عوامی زندگی سے اتنی دور ہوں تو پھر اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے نیویارک میں اپنے رہنماکا والہانہ استقبال کیوں نہ کیا۔ دراصل بیرونی دنیا میں رہنے والے پاکستانی محنت کش ہیں جن کی بھیجی ہوئی رقوم سے ملک کی معیشت کی سانس بحال رہتی ہے ورنہ کیا ڈار صاحب کے دعوے اورکیا معیشت کی بحالی کے پروگرام! 
پاکستانیوںنے نہایت حسرت بھری نگاہوںسے دیکھا کہ نریندر مودی کا نیویارک میں نہایت پرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ امریکہ میں موجود بھارتی افراد نے پندرہ لاکھ ڈالر کے خرچ سے عالیشان تقریب کا اہتمام کیا جس میں پچاس ہزارکے قریب افراد کو دعوت دی گئی تھی۔ نیویارک کا میڈیسن سکوائرگارڈن (Madison Square Garden) روایتی لباس میں ملبوس رقص کرنے والے افراد سے بھرا ہوا تھا جبکہ لیزر شوکے ذریعے بھارتی تاریخ کی اہم شخصیات کے خاکے پس منظر میں بھارتیوںکے حال کا ماضی سے رابطہ استوار کر رہے تھے۔ اس موقع پرایک ایسی قوم کی توانائی کا احساس ہورہا تھا جو ماضی سے رشتہ استوار کرتے ہوئے مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار تھی۔اس تقریب میں نریندر مودی نے سامعین کو بتایا کہ اکیسویں صدی ایشیا خاص طور پر بھارت کی ترقی کی صدی ہے۔کچھ کا کہنا ہے کہ ''یہ بھارت کی صدی ہے‘‘۔ بھارت میں یقینی طور پر آگے بڑھنے کے لیے صلاحیت موجود تھی اورکچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب اس کا وقت آگیا ہے۔ مود ی نے ہندی میں کہا کہ قدیم ترین کلچر رکھنے والا بھارت ایک ''نوجوان ملک ‘‘ ہے اور اس میں وہ کچھ ہے جو دوسرے ممالک میں نہیں۔ 
امریکہ میں لاکھوں بھارتی رہتے ہیں۔ وہ امریکہ میں مقیم دوسرے تارکینِ وطن سے زیادہ تعلیم یافتہ اور دولت مند ہیں۔ نیویارک ٹائمز اپنے اداریے میں لکھتا ہے : '' مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے محنت کش اور پیشہ ور افراد مودی کے سیاسی تصورات کی اساس ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم تیس لاکھ کے قریب بھارتیوں میں زیادہ تر اب بھی اپنے وطن اور اپنے ہم وطنوںسے قریبی تعلق رکھتے ہیں‘‘۔
تصویرکا دوسرا رخ اس سے بہت مختلف ہے۔ مودی کا صرف استقبال ہی نہیں ہوا، ان کے آنے پر احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے۔ کئی سو احتجاجی مظاہرین مل کر گاتے سنے گئے۔۔۔۔۔'' ہم 2002 ء کا گجرات نہیں بھولے ‘‘۔ گزشتہ ہفتے نیویارک کی ایک عدالت نے بھارتی وزیراعظم کو نوٹس بھیجا کہ وہ گجرات میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے خود پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیں ؛ تاہم سفارتی تحفظ کی وجہ سے عدالت اُنہیں طلب نہیں کرسکتی۔ بہرحال مجموعی طور پر نریندرمودی کا امریکہ کا دورہ بھارتیوںکے لیے ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھولتا دکھائی دیتا ہے۔ اب دیکھنا پڑے گا کہ جن 17 سی ای اوز سے مودی کی ملاقات ہوئی، ان میں سے کتنے بھارت میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں اور مودی خود پر لگائے جانے والے الزامات کا اپنے تبدیل شدہ طرزعمل سے کیا جواب دیتے ہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved