تازہ خبر یہ ہے کہ موتیے کے پودے سے پھول باقاعدہ اُترنا شروع ہو گئے ہیں‘ کوئی درجن بھر روزانہ۔ وہ جو کسی عاشق نے کہا تھا کہ ع
نی اک پھُل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے!
تو یہ محض بہانہ سازی ہی تھی کیونکہ موتیے کا پھول مار کر سوئے ہوئے کو کیسے جگایا جا سکتا ہے کہ اس کے لیے تو کم از کم گوبھی کا پھول درکار ہوگا! بہرحال‘ یہ گھر میرے لیے سیرگاہ تک ہی محدود ہے؛ کیونکہ میں اس کی دیگر نعمتوں سے مستفید نہیں ہو سکتا‘ یعنی پُول میں نہا سکتا ہوں نہ کرکٹ کھیل سکتا ہوں۔ موتیے سے یاد آیا کہ ایک موتیا آنکھوں میں بھی اُترتا ہے‘ یعنی ایک خاص عمر کو پہنچتے ہوئے‘ آنکھ میں پھولا ہونا ایک الگ چیز ہے۔ منقول ہے کہ کوئی شخص عبداللہ نامی‘ سعدی سے ملنے کے لیے آیا‘ دستک سُن کر اُن کی کنیز باہر گئی اور آ کر بولی:
سعدیا! تُرا غبداللہ می طلبد (یعنی سعدی تجھے غبداللہ بلا رہا ہے)
''غبداللہ؟‘‘ سعدی نے حیران ہو کر پوچھا۔
''برعین نقطہ دارد‘‘ کنیز بولی: یعنی اس کی آنکھ (عین) پر نقطہ (پھولا) ہے جس سے ظاہر ہوا کہ سعدی کی صحبت میں رہ کر اس کی کنیز بھی کتنی نکتہ رس ہو چکی تھی۔ اسی طرح کیانی خاندان کے کچھ افراد کسی صاحب سے ملنے کے لیے آئے۔ اس نے پچھوا بھیجا کہ کون ہے تو جواب ملا ''ما کیانیم‘‘۔ جس پر اس شخص نے جواباً کہلا بھیجا کہ انہیں کہو کہ ''ہنوز خروسِ ما بیدار نشدہ است‘‘ یعنی انہیں کہو کہ ابھی ہمارا مرغا بیدار نہیں ہوا۔ اس میں نکتہ یہ تھا کہ ماکیاں فارسی میں مرغی کو کہتے ہیں‘ اور ''ماکیانیم‘‘ کا ایک مطلب تو یہ تھا کہ ہم کیانی ہیں اور دوسرا ماکیانیم‘ یعنی ہم مرغیاں ہیں۔
کوئی صاحب ایک خوبصورت خاتون پر نظر رکھتے تھے۔ ایک بار اسے ملنے کے لیے گئے تو بولے:
''سنبوسۂ بیسن می خواہم‘‘۔ اس کے دو مطلب تھے‘ ایک تو یہ کہ مجھے بیسن کا سنبوسہ چاہیے۔ اور دوسرا یہ کہ سنبوسۂ بے سن یعنی سن کے بغیر سنبوسہ‘ گویا بوسہ۔ خاتون بھی اس فن میں طاق تھی بولی:
''از مطبخِ ما در طلب‘‘ اس کا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ ہمارے باورچی خانے سے جا کر لے لے۔ اور دوسرا یہ کہ ''از مطبخِ مادر طلب‘‘ یعنی اپنی ماں سے جا کر لے لے!
شہزادی زیب النساء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک بار وہ سبز لباس میں اپنے بام پر کھڑی تھی کہ نیچے سے کسی نیازمند نے اسے دیکھ کر یہ مصرع اوپر بھجوایا ع
سبز پوشے بہ لبِ بام نظر می آید
زیب النسا نے جو خود ایک بہت عمدہ شاعرہ تھی‘ تُرکی بہ تُرکی جواب کے طور پر یہ مصرع کہہ کر اسے بھجوا دیا ع
نہ بہ زور و نہ بہ زاری نہ بہ زر می آید
یعنی منہ دھو رکھو! یہ نہ زور سے آنے والی ہے نہ زاری اور نہ زر سے۔ یہ تو تھیں غیر معمولی نکتہ رسی کی باتیں۔ اپنی سیرگاہ کتنی عزیز ہوتی ہے‘ حافظ شیرازی کا یہ شعر دیکھیے ؎
بدہِ ساقی مئے باقی کہ در جنت نخواہی یافت
کنارِ آبِ رُکن آباد و گلگشتِ مُصّلا را
(اے ساقی‘ شرابِ دوام کا ایک جام دے کہ جنت میں رکن آباد (نہر) کا کنارہ اور مصّلا کا باغ کہاں دستیاب ہوگا)
کلیم خاں سے تو آپ واقف ہوں گے ہی یعنی وہی ع
چھٹی شراب تو یاری کلیم خاں سے ہوئی
والا۔ فون پر کہہ رہے تھے کہ ملنے کو بہت جی چاہ رہا ہے‘ میں عید کے بعد کسی دن گاڑی بھیج دوں گا‘ آپ کھانے پر آ جائیں‘ کچھ مزید دوست بھی ہوں گے۔ اس وقت تو میرے پاس کچھ دوست بیٹھے تھے‘ کھل کر بات نہ کر سکا‘ سو اب بذریعہ کالم انہیں کہہ رہا ہوں کہ میں چلنے پھرنے کے قابل کہاں رہا ہوں۔ کسی دن خود ہی ملنے کے لیے آ جائیں۔ عمر کے ایک حصے میں ٹانگیں جواب دینے لگتی ہیں۔ میرے علاوہ ڈاکٹر سلیم اختر اور نذیر ناجی بھی اسی عالم میں ہیں۔ خدا ان کی عمر دراز کرے! لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم باقاعدہ اپاہج ہیں۔ ناجی دفتر آتے جاتے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب بھی کسی نہ کسی تقریب میں پائے جاتے ہیں‘ میں بھی کبھی کبھار اِدھر اُدھر منہ ماری کر لیتا ہوں۔ ابھی پچھلے دنوں خانیوال میں مشاعرہ کھڑکا کر آیا ہوں۔
میرے یارِ جانی منور نصراللہ خاں مرحوم آف ڈسکہ نے ایک بار بتایا تھا کہ ایک شادی کی تقریب میں کچھ لوگ ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے تھے۔ ایک ٹولی جو افیون خوروں پر مشتمل تھی‘ حُقے کی طلب میں بے حال ہو رہی تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ سامنے کونے میں کچھ لوگ حقہ نوشی کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان کے پاس آدمی بھیجا کہ وہاں سے ذرا حقہ لے آئے۔ وہ لوگ بھی افیمی تھے‘ حقہ دینے سے پس و پیش کرنے لگے تو اِدھر سے ایک صاحب نے آواز لگائی:
''چودھری جی‘ تھوڑی دیر کے لیے آنے دیں‘ ہم بھی آپ کے کلاس فیلو ہی ہیں!‘‘
سو‘ مندرجہ بالا حضرات بھی ماشاء اللہ میرے کلاس فیلو ہیں۔ کئی اور بھی ہوں گے جو اس عمر کو پہنچ چکے ہیں‘ مثلاً انتظار حسین کچھ عرصہ یعنی گرنے سے کافی عرصہ پہلے‘ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے۔ کہیں سے علاج کروایا اور بحال ہوئے۔ شہزاد احمد بھی زندگی کے آخری دنوں میں اسی صورتِ حال سے دوچار رہے۔ بات موتیا سے شروع ہوئی تھی جو اتنا سفر کر کے یہاں تک پہنچی۔ اس کے علاوہ ایک کونے میں رات کی رانی کا ایک پودا بھی ہے جس نے ابھی پھول دینا اور راتوں کو مہکانا شروع نہیں کیا۔ کبھی ایک ہائیکو کا ترجمہ کیا تھا جو کچھ یوں تھا ؎
میں نے مانا کہ مجھ سے نفرت ہے
تجھے اے رنگ روپ کی رانی
پر وہ اک سنگترے کا پودا جو
بھر کے پھولا ہے میرے گھر کے پاس
کیا اُسے دیکھنے نہ آئو گی؟
ظاہر ہے کہ یہ بھی کوئی ایسا ہی عاشق تھا جس نے اپنی محبوبہ سے فرمائش کی تھی کہ اُسے موتیے کا پھول مار کر جگا دے‘ حالانکہ موصوف پہلے ہی جاگ رہے تھے ورنہ ایک سویا ہوا شخص ایسی فرمائش کیونکر کر سکتا ہے۔
آج کا مقطع
کی ہے محبت اس سے غلط وقت پر، ظفرؔ
فی الحال اس کو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی