کامیابی کی داستان فرد کی ہو یا قوم کی‘ اس میں بنیادی بات درست ترجیحات کا تعین ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ترجیحات کی فہرست صحیح مرتب ہو جائے تو پھر لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔ راستہ منزل کی طرف جانے والا ہو تو سست روی کے باوجود ایک نہ ایک دن منزل مل جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی فرد یا کوئی ملک‘ اپنی درست ترجیحات کے تعین میں ناکام ہو جائے تو اس کا سفر رائگاں جاتا ہے۔ لائحہ عمل کتنا ہی بھرپور کیوں نہ ہو‘ غلط ترجیحات ہمیشہ بند گلی میں لے جاتی ہیں۔ منزل پر پہنچنے کے راستے معدوم ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ رائگانی‘ پاکستان کے مقدر میں بھی لکھ دی گئی ہے۔ ہم جمہوریت کی بات تو بہت کرتے ہیں لیکن حیرت اور افسوس ہے کہ جمہوری حکومتیں‘ درست ترجیحات طے کرنے میں زیادہ ناکام ہوئیں۔ کسی بھی حکومت نے صحت اور تعلیم کو پہلی ترجیح نہیں بنایا‘ اس لیے کہ سیاسی اشرافیہ کو ان دونوں شعبوں سے براہ راست کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ ان کی اولادیں باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھتی ہیں۔ اگر انہیں کھانسی اور چھینک بھی آ جائے تو لندن اور امریکہ کے بہترین ہسپتال ان کے علاج معالجے کے لیے موجود ہیں۔ صحت اور تعلیم سے مجرمانہ غفلت کا نتیجہ‘ آج قوم بھگت رہی ہے۔ اس وقت جب پوری دنیا پولیو کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کر چکی ہے‘ پاکستان 184 پولیو کیسز کے ساتھ پولیو زدہ ملکوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ اس تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ کسی بھی سطح پر ایسے
ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر اقدامات نظر نہیں آتے جس سے اب بھی اس بیماری کا خاتمہ کرنے کے سفر کا آغاز ہو سکے۔ یعنی آج بھی پولیو فری پاکستان، حکومت کی ترجیحی لسٹ میں شامل نہیں ہے۔ ہماری سیاسی حکومتوں کا یہی وتیرہ رہا ہے۔ 1980ء میں جب عالمی ادارۂ صحت نے اعلان کیا کہ 2000ء تک دنیا کو پولیو فری بنا دیا جائے گا، تو ترقی یافتہ ملکوں سے لے کر ترقی پذیر ملکوں نے بھی اپنے اپنے صحت کے نظام میں اس مقصد کو اولین ترجیح بنایا اور پولیو کے خلاف کمربستہ ہو گئے۔ ہمارے ملک میں 1988ء میں ضیاء الحق کے بعد انتخابات ہوئے اور بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی۔ سویلین حکومت کیا آئی‘ سیاسی میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہو گیا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دو دو ادوار ہوئے۔ اگرچہ پانچ سال کسی نے پورے نہ کیے لیکن اس سیاسی دنگل میں صحت اور تعلیم کی ترجیحات بُری طرح نظرانداز ہوئیں۔ عالمی ادارۂ صحت کا پروگرام پولیو فری ورلڈ‘ پاکستان میں مکمل تیاری کے ساتھ آغاز نہ ہو سکا۔ آغا خان میڈیکل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ملک کے مایۂ ناز چلڈرن سپیشلسٹ‘ ڈاکٹر عبدالغفار بلو (ستارۂ امتیاز) کے مطابق پاکستان میں پولیو کے خلاف مہم نے 1988ء کی بجائے 1994ء میں کچھ زور پکڑا اور لوگوں میں اس بیماری کے حوالے سے آگاہی آنے لگی۔ اس بات کی سمجھ نہیں آتی
کہ جب ڈبلیو ایچ او‘ اینٹی پولیو مہم کے لیے پاکستان کو بھی دوسرے ملکوں کی طرح فنڈز فراہم کرتا ہے تو پھر حکمران اس مہم کو شروع کرنے اور نتیجہ خیز بنانے میں چھ سال کی تاخیر کیوں کرتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے یہ مجرمانہ غفلت آج بھی پاکستانی حکومتوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ پاکستان میں باریوں کا سیاسی دنگل جاری تھا جبکہ ہمارے ہمسائے بھارت اور بنگلہ دیش نے اینٹی پولیو مہم کے حوالے سے درست ترجیحات اور شاندار لائحہ عمل کے ذریعے چند سالوں میں پولیو پر قابو پا لیا۔
پولیو ایک ایسی بیماری ہے جس کے لیے صرف ایک بار ہی ویکسین دینا کافی نہیں ہوتا ایک سال میں کم از کم دس سے بارہ خوراکیں‘ ایک ہی جتنے وقفے کے ساتھ دینا ہوتی ہیں۔ پولیو ویکسین کے ملٹی رائونڈ مکمل کرتے وقت اس بات کی یقین دہانی
ضروری ہوتی ہے کہ ہر بار بچے کو یہ قطرے ضرور ملیں۔ میرا ساڑھے تین سالہ بیٹا چونکہ اسی ایج گروپ سے تعلق رکھتا ہے جن بچوں کے لیے پولیو کے قطرے پینا ضروری ہیں۔ میں چند سال سے اس مہم کو بغور دیکھ رہی ہوں اس میں انتظامی سطح پر بے انتہا خامیاں موجود ہیں۔ جب تک ان خامیوں پر قابو نہیں پایا جاتا، لاہور کی پوش آبادیوں میں بھی پولیو کے ملٹی رائونڈ درست طریقے سے انجام نہیں پا سکتے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کون لوگ ہیں جو اس قدر ناقص لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ پولیو ٹیمیں صبح کے اوقات میں گھر گھر جا کر قطرے پلاتی ہیں۔ سکول کھل جانے کے بعد‘ تین سے پانچ سال کی عمر کے بچے گھروں میں نہیں سکول میں ہوتے ہیں۔ ایسے میں پولیو ٹیموں کو گھروں کے علاوہ علاقے کے تمام چھوٹے بڑے سکولوں میں جا کر اپنے فرائض سرانجام دینا چاہئیں۔ والدین کو بھی اپنا فرض ادا کرنا ہوگا اگر پولیو ٹیموں سے قطرے نہیں پلوائے جا سکے تو صحت کے سرکاری مراکز میں جا کر بچے کو ویکسین ضرور دلوائیں۔ محکمہ صحت کو ایسا بندوبست کرنا چاہیے کہ سکولوں میں جا کر بچوں کی ویکسین مکمل کریں ورنہ خدانخواستہ کراچی کی 6 ماہ کی زینب جیسے کیس بھی سامنے آ سکتے ہیں جس کی ایک آدھ خوراک چھوٹ جانے سے اس کے جسم میں پولیو وائرس ایکٹو ہو گیا اور معصوم بچی پولیو زدہ ہو گئی۔
ملک کے چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہیں۔ صحت کے حوالے سے صحت کسی کی ترجیح میں
شامل نہیں۔ پولیو کیسز کے حوالے سے خیبرپختونخوا سب سے آگے ہے۔ سندھ بلوچستان حتیٰ کہ پنجاب بھی پیچھے نہیں۔ فاٹا میں سب سے زیادہ پولیو کیسز سامنے آئے مگر حکمرانوں کو کوئی پروا نہیں۔ وفاقی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پولیو مہم کے لیے پاکستان کو شدید فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور وفاقی وزارت صحت ابھی تک آئی ڈی بی سے فنڈز لینے کے لیے حکومت سے پی سی ون منظور نہیں کروا سکی۔ وفاقی وزارت صحت کی کارکردگی ابھی تک بس اتنی سی ہے کہ جب بھی پولیو کیسز کے حوالے سے تشویشناک خبر آتی ہے‘ وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ فوراً ایک ہنگامی میٹنگ اور ایک عدد ہنگامی پریس کانفرنس کر ڈالتی ہیں۔ جس میں وہی رٹے رٹائے روایتی جملے بولے جاتے ہیں۔ اینٹی پولیو مہم کی تشہیر پر کروڑوں روپیہ لگا دیا جاتا ہے جبکہ اینٹی پولیو ورکرز کے معمولی معاوضے اتنی تاخیر سے ادا کیے جاتے ہیں کہ وہ کام میں دلچسپی لینا چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر یقین آ جاتا ہے کہ ترجیحات کی فہرست میں اس بار بھی عوام کہیں موجود نہیں۔
سوچتی ہوں ترجیحات کا راستہ اگر اتنا ہی بے سمت اور لائحہ عمل ایسا ہی ناقص رہا تو دنیا پاکستان کو کس نظر سے دیکھے گی۔ ایک ایسا ملک جس نے تمام تر مسائل کے باوجود ایٹمی طاقت حاصل کی یا پھر ایک ایسا ملک جو ایٹمی طاقت کے سرخابی پروں کے نیچے حکمرانوں کی غلط ترجیحات کی بھینٹ چڑھا اور دنیا اسے پولیو زدہ ملک کے نام سے جاننے لگی۔