تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     03-10-2014

دریائے چناب سے ہڈسن تک کا سفر !

نیویارک سے اقبال وڑائچ صاحب کا فون بند ہوگیا۔
آج کالم میں نے نیویارک کے تبسم بٹ اور ورجینیا کے دوست اکبر چوہدری کے بارے میں لکھنا تھا۔ تبسم بٹ نے فون کر کے بڑے دکھی دل کے ساتھ کہا تھا کہ حکومتی سیاستدانوں نے دھرنے پر بیٹھے پاکستانیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا ۔ بٹ صاحب پوچھ رہے تھے ان کے بارے میں وہ سیاستدان کیا کہتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر نہ سہی لیکن روحانی طور پر اس دھرنے میں شریک ہیں ۔ تو کیا وہ بھی دہشت گرد قرار پائیں گے؟
تبسم بٹ کے لانگ آئی لینڈ پر واقع ریسٹورنٹ کے کھانے کا ذائقہ شاید بڑے عرصے تک مجیب الرحمن شامی، سہیل وڑائچ اور مجھے نہیں بھولے گا ۔ وہاں ہمیں لے تو عارف سونی صاحب گئے تھے لیکن تبسم بٹ کے قہقہوں اور ہاتھ کی لذت پاکستان لوٹنے کے بعد زیادہ تنگ کرتی ہے۔ شاید یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں ہوتے تو شاید دوسرے تیسرے ہفتے جا کر کھانا کھایا جا سکتا تھا ۔ اب کون نیویارک کا ہزاروں میل کا سفر طے کر کے جائے‘ اگرچہ دل کی بات پوچھیں تو بھی یہ سودا گھاٹے کا نہیں لگتا۔
ورجینیا کے اکبر چوہدری کے بارے میں بھی لکھنا تھا ۔ ان سے ایک ذاتی شکایت ہوئی۔ امریکہ فون کیا تو چوہدری صاحب کہنے لگے رکیں‘ عامر متین دوسری لائن پر ہیں۔ کانفرنس کال کر لیتے ہیں۔ میں نے کہا عامر بھائی اچھا ہوا آپ لائن پر ہیں۔ چوہدری صاحب کی شکایت آپ سے ہی کر سکتا ہوں ۔
وسط اگست میں پاکستان واپسی کے لیے ایئرپورٹ پر ڈراپ کیا تو اکبر چوہدری نے کہا تھا کہ رئوف صاحب اگر آپ چاہتے ہیں دوبارہ آپ کی میزبانی کی جائے تو عامر متین کو امریکہ بھیج دیں کیونکہ انہیں امریکہ سے پاکستان گئے بارہ برس ہوگئے ہیں۔ اب ان کی بیٹی ماہم کی گیارہ اکتوبر کو شادی ہے۔ اگر عامر متین نہ آئے تو پھر سب کا امریکہ میں داخلہ بند۔ 
میں پاکستان لوٹا اور عامر متین سے منت کی اگر آپ نہ گئے تو چوہدری صاحب کا ڈیرہ ہم سب پر بند ہوجائے گا۔ سوچ لیں۔ اگر انہیں اپنی بیٹی کی شادی پر کسی کا انتظار ہے تو وہ آپ کا ہے۔ 
عامر متین اس وقت امریکہ میں ہیں ۔
میں نے کانفرنس کال پر کہا: عامر بھائی اندازہ کریں چوہدری صاحب نے پاکستان اور امریکہ سے سب کو دعوت دی لیکن مجھے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ آپ نے بھی آنا ہے۔ پاکستانی سیاست کے پرانے گرو انور عزیز چوہدری ایک ماہ پہلے وہاں پہنچ چکے ہیں۔ شاہین صہبائی پہلے سے موجود ہیں ۔ محفلیں جم چکی ہیں۔ اوپر سے عامر متین پہنچ گئے ہیں ۔ اب وہاں رات گئے محفلیں ہوں گی۔ 
جتنا اکبر چوہدری اور نرگس بھابی، میاں مشتاق احمد جاوید ، اعجاز بھائی نے میرا اور میری بیوی کا امریکہ میں مشکل وقت میں خیال رکھا وہ شاید ہم کبھی نہ بھلا سکیں ۔ اب تو اکبر چوہدری کے بارے میں امریکہ میں لطیفہ مشہور ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ ویزہ کے ساتھ چوہدری اکبر کا ایڈریس بھی دیتا ہے کہ اگر امریکہ میں رہنے کو جگہ نہ ملے تو انہیں فون کر لیں۔ 
میں نے کہا چوہدری صاحب کچھ بھی ہوتا میں دوبارہ امریکہ ضرور آتا اور آپ کی خوشی میں شریک ہوتا کیونکہ آپ مشکل وقت میں ہمارے کام آئے تھے۔ 
مروت سے بھرے اکبر چوہدری کی جو حالت ہوئی اس کا اندازہ میں اور عامر متین ہی لگا سکتے تھے۔
کہنے لگے میرا خیال تھا آپ پانچ ماہ یہاں رہنے کے بعد کیسے ایک ماہ بعد واپس شادی کے لیے لوٹ سکتے تھے۔ میں نے کہا چوہدری صاحب یہ آپ کا درد سر نہیں تھا ۔ جہاں محبتیں اور دوستیاں ہو جائیں وہاں پھر راستے اور طوالت نہیں دیکھی جاتی ۔ 
میں سنجیدہ موضوعات پر لکھ کر تنگ آگیا تھا سو‘ سوچا اس دفعہ یہ کالم اوکاڑہ سے گئے پاکستان اور پاکستانیوں کی محبت میں سرشار اکبر چوہدری کی حالت پر لکھوں جو میری شکایت پر ان کی ہوگئی تھی۔ 
تاہم نیویارک سے اقبال وڑائچ کا فون مجھے تڑپا گیا ۔ بیقرار کر گیا ۔ 
کہنے لگے آپ نے اپنے پروگرام میں رحیم یار خان کی بیوہ عورت سلمیٰ کا ذکر کیا تھا جسے تیس ہزار روپے کا بجلی کا بل بھیجا گیا تھا اور وہ بل دیکھ کر اس نے خودکشی کر لی تھی اور اس کے تین بچے اب رل گئے تھے۔ یہ معاشرہ جہاں رشتہ دار ان حالات میں بچوں کو گھر پر ملازم رکھ لیتے ہیں اور میاں بیوی اپنی محرومیوں اور تمام جھگڑوں کا غصہ ان بچوں پر اتارتے ہیں اور یہ احسان بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے کسی اور کے بچوں کو ایک وقت کی روٹی دے دی تھی ۔ 
کہنے لگے وہ ان بچوں کو پالنا چاہتے ہیں ۔ وہ ہر ماہ ان کے لیے نیویارک سے پیسے بھیجنا چاہتے ہیں۔ ان کے بعد ان کے بچے ان بچوں کی کفالت جاری رکھیں گے۔ مجھے لگا ان کی آواز بھرا گئی تھی۔ 
مجھے کہنے لگے‘ آپ نے لکھا تھا آپ آئندہ کرپشن کی کہانیاں نہیں لکھیں گے۔ وہ پھٹ پڑے اور بولے آپ کو اندازہ نہیں ۔ آپ نے کتنی آسانی سے لکھ دیا۔ یہاں تاریک وطن کے لیے اگر کچھ امید بچ گئی تھی تو وہ کچھ صحافی تھے جو ان حکمرانوں کی لوٹ مار کے آگے ڈٹ گئے تھے۔ اگر آپ لوگ بھی تھک ہار گئے تو کیا بنے گا 
اس ملک کا اور اس سے بڑھ کر ان پاکستانیوں کا جو اپنا وطن چھوڑ آئے تھے لیکن دل ان کے ابھی پاکستان میں ہی دھڑکتے ہیں۔ کہنے لگے بڑی تعداد میں پاکستانی اپنی نوکریاں چھوڑ کر اقوام متحدہ کے سامنے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے حکمرانوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ ان لوگوں کے پاس سب کچھ ہے لیکن وہ اپنے وطن کیلئے بے چین ہیں۔ وہ بھی پاکستان کو امریکہ کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں ۔ انہیں احساس ہوتا ہے ان کا ملک خطرے میں ہے اور انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کریں۔ کدھر جائیں۔ 
مجھے لگا دریائے چناب کے کنارے پر سیالکوٹ تحصیل سمبڑیال کے ایک وڑائچ جٹ کی آواز مزید بھرا گئی تھی اور اب سسکیاں میں فون پر سن سکتا تھا۔میں فون تھامے بیٹھا اپنے آپ کو مجرم سمجھتا رہا۔ میری اس بات نے انہیں دکھی کر دیا تھا کہ میں بھی کرپشن کے خلاف ہتھیار ڈال گیا تھا۔ طاقتور طبقات نے مل کر ہمارے جیسے رومانٹک اور آئیڈلسٹ کو شکست دے دی تھی۔ 
اقبال صاحب کہنے لگے اس میڈیا کی وجہ سے یہ شعور بیدار ہوا ہے۔ لوگوں کا احساس ہوا ہے کہ ان کا ملک خطرے میں ہے اور انہیں کچھ کرنا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور مرد رات گئے تک دھرنوں میں شریک ہوتے ہیں اور صبح پھر اپنے کام پر لوٹ جاتے ہیں۔ بیرون ملک پاکستانی سب کچھ چھوڑ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو دھرنے میں شریک سمجھتے ہیں۔ یہ سب اس ملک کو بدلنا چاہتے ہیں۔ یہ بے وطن پاکستانی بھی اس دھرتی کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ بھی وہاں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں جیسے امریکہ جیسے ملکوں میں نظرآتی ہے اور آپ کہتے ہیں کہ آپ تھک گئے ہیں۔ جب ہم کھڑے ہونا سیکھ رہے ہیں تو آپ کہتے ہیں آپ تھک گئے ہیں۔ 
کہنے لگے آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ عمران خان بیرون ملک پاکستانیوں کو کیوں اچھا لگتا ہے۔ اس کی وجہ بڑی صاف ہے۔ عمران کو کچھ بھی کہہ لیں وہ کرپٹ نہیں ہے۔ اس نے اس قوم کا کوئی پیسہ نہیں کھایا۔ اس نے کسی کو نہیں لوٹا۔ اس نے کسی کی جیب نہیں کاٹی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سمجھدار نہ ہو۔ وہ کوئی مکمل انسان نہیں ہے۔ لیکن کیا کریں جب ہم سب یہاں عمران کا موازنہ دیگر سیاسی لیڈروں سے کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ باقی تو اس ملک کو لُوٹ چکے۔ اب یہ ملک لگتا ہے آخری سانسیں گن رہا ہے اور یہ سب لوٹ مار کر کے نکل جائیں گے۔ چلیں عمران تو ہے جو اس ملک کی بات کرتا ہے۔ اس ملک کے عام آدمی کو اس کی بات سمجھ آتی ہے۔ میں خاموشی سے ایک درد سے بھرے جٹ کو سنتا رہا ۔ لاکھوں پاکستانیوں کی طرح اقبال وڑائچ کا دل بھی دکھی تھا ۔ 
بچوں کی طرح اپنے ملک کی محبت میں فون پر روتے سن کر دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔!! 
مجھے لگا ہم سب کا دکھ مشترکہ تھا...اپنے وطن اور دھرتی کی محبت کا دکھ۔ سمبڑیال کا جٹ امریکہ میں کروڑپتی بن گیا تھا لیکن اس کا دل ابھی بھی دریائے چناب کے کناروں پراگی جھاڑیوں میں کسی گائوں کی الہڑ دوشیزہ کے سرخ دوپٹے کی طرح اٹکا ہوا تھا۔ 
ایک پنجابی جٹ دریائے چناب سے یہ سوچ کرمنہ موڑ گیا تھا کہ ہزاروں میل دور ہڈسن کے کنارے بے چین روح کو کچھ کنارے سکون ملے گا ۔ لیکن اب نیویارک کی آسمان کو چھوتی خوبصورت عمارتوں کے دریائے ہڈسن کی لہروں میں تھرتھراتے عکس اور کہیں دور ڈوبتے سورج کی آخری سرخ کرنوں کو دیکھتے ہوئے ایک وڑائچ کو احساس ہوا ہوگا کہ صدیوں کے سفر اور امریکہ میں برسوں رہنے کے بعد بھی ان کی روح کے اندر سے دریائے چناب نہیں نکل سکا تھا... اس کے کنارے اگی کسی جنگلی جھاڑی سے ان کا دل اور روح ابھی تک ایک دوشیزہ کے دوپٹے کی طرح کچھ ایسے اٹکے تھے کہ برسوں بعد بھی وہ نہ چھڑا سکے تھے...! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved