تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     03-10-2014

لبیک

آج دو سے تین ملین کے درمیان خوش قسمت اہلِ ایمان حج کارُکنِ اعظم ''وقوفِ عرفہ‘‘ادا کرنے کے لئے میدانِ عرفات میں جمع ہوں گے، سب کے سب اپنا قومی لباس اتار کر سنتِ ابراہیم واسماعیل اور سید المرسلین سیدنا محمد الرسول اللہ علیھم السلام ادا کرتے ہوئے دواَن سِلی چادروں پر مشتمل ایک ہی لباس میں ملبوس ہوں گے ، سب اپنے قومی اور علاقائی تمیزات ، وَضع قطع اور لباس کو ترک کرکے ایک ہی رنگ میں رنگے ہوں گے۔ سب کی زبان پر تلبِیہ کے یہ کلمات جاری ہوں گے :''میں حاضر ہوں ، اے اللہ!میں تیرے حضور حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ، میں حاضر ہوں، بے شک سب تعریفیں تجھی کو سزا وار ہیں اور ہر نعمت کا منبع تیری ہی ذاتِ عالی صفات ہے اور ملک واقتدار کا مالکِ حقیقی تو ہی ہے،تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔اگر واقعی حضوریِ بارگاہِ ربُّ العالمین کا تصور مومن کے دل ودماغ میں رَچ بس جائے ، تو قیامت کے دن جیسا لرزہ اس پر طاری ہوجائے، ہیبت وجلالِ الٰہی سے اس کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کا کامل مظہر بن جائے:(۱)''درحقیقت کامل اہلِ ایمان وہی لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب ان کے سامنے آیاتِ الٰہی کی تلاوت کی جائے، تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجائے(یعنی ایمان ان کے دلوں میں مزید راسخ ہوجائے ) اور وہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں ، (الانفال:02)‘‘۔ (2):''اللہ نے بہترین کلام کو نازل کیا، جس کے مضامین ایک جیسے ہیں ،بار بار دہرائے جاتے ہیں، جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں (اسے سن کر) ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر ان کے دل اور ان کے جسم اللہ کے ذکر کے لئے نرم ہو جاتے ہیں،(الزمر:23)‘‘۔
پس ہر حاجی اپنے اندر جھانک کر اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ کیا یہ کیفیت اس پر طاری ہے اور وہ اس روحانی تجربے سے گزر رہا ہے؟۔ اگر وہ اس کیفیت میں سرشار نہیں ہے، تو اس کا حج حقیقت اور روحِ عبادت سے کوسوں دور ہے ، اس نے صرف عبادت کی ظاہری صورت کو اپنایا ہے، اُس کا اندر اس کے نور سے خالی ہے۔ ایک عارف باللہ ولی اللہ تعالیٰ کی حضوری میں ڈوبے ہوئے ''لبّیک اللّٰھم لبّیک‘‘ کی صدائیں بلند کررہے تھے کہ غیب سے ندا آئی: ''لَالبّیک‘‘ (یعنی تیری حاضری قبول نہیں) ۔ ایک نوجوان نے اس ندائے غیبی کو سنا تو کہا:''بزرگوار! جب آپ کی حاضر ی قبول ہی نہیں ، تو میدانِ عرفات میں آپ کی آمد کا کیا فائدہ؟‘‘۔ بزرگ نے جواب دیا:''یہ جواب تو میں چالیس سال سے سن رہا ہوں، لیکن کیا اللہ کی بارگاہ کے سوا کوئی اور بارگاہ ہے، جہاں میں رجوع کروں، ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو تا حیات مجھے تو یہیں حاضری دینی ہے‘‘۔ اس پر غیب سے نداآئی:''اے میرے بندے! میں نے تیری حاضری قبول کی اور گزشتہ سالوں کی بھی سب حاضریاں قبول کیں‘‘۔ یعنی جب یہ حقیقت بندے کے قلب وروح میں جذب ہوجائے کہ حقیقی مالک ومختار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، ساری نعمتوں اور تمام فیوض وبرکات کا منبع اسی کی ذات ہے اس کے مقابل کسی کے لئے کوئی جائے امان نہیں ہے، ہر حال میں بندے کو اسی سے رجوع کرناچاہئے اور زندگی کے آخری سانس تک اسی کا ہوکر رہناچاہئے، توپھراُس وقت بندہ حج کی معراج کو پالیتا ہے۔ 
اسی کو ''حجِ مبرور‘‘کہا جاتاہے اور کامل اجروثواب کی ساری بشارتیں اسی کے لئے ہیں ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(1)'' جس نے حج کیا اور نہ کوئی جنسی آوارگی کی بیہودہ بات کی اور نہ ہی اللہ عزّوجل ّ اور اس کے رسول ِ مکرم ﷺ کی کسی بات میں حکم عدولی کی، تو وہ حج سے گناہوں کی ہر میل سے پاک ہوکراس حال میں لوٹے گا، جیسے اس دن پاک تھا ، جب اس کی ماں نے اسے جنا،(بخاری:1819)‘‘۔(2):رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''یکے بعد دیگرے حج اور عمرہ ادا کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں فقراورگناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں ، جیسے بھٹی لوہے ، سونے اور چاندی کی میل کو دور کردیتی ہے اور ''حجِ مقبول ‘‘ کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں،(سنن ترمذی:810)‘‘۔
اسلام میں حج نو ہجری کو فرض ہوا، مگر رسول اللہ ﷺ اس سال بذاتِ خود حج کے لئے نہ گئے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکو ''امیرالحج‘‘ مقرر فرمایا، بعد میں ضروری اعلانات کے لئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے نمائندۂ خاص بناکر بھیجا، ان اعلانات کا ذکر سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات میں موجود ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:
''اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں سے برأت (یعنی بیزاری اورقطع ِتعلق)کا اعلان ہے، جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا ، پس (اے مشرکو!) تم زمین میں (صرف) چار ماہ تک (آزادانہ )چل پھر سکتے ہواور خوب جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے حج اکبر کے دن سب لوگوں کے لئے اعلان ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول (بھی) ، پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم (قبولِ حق سے) اعراض کرو گے ، تو جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، (اے رسول !) کافروں کو درد ناک عذاب کی وعید سنا دیجئے، ماسوا ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا، پھر انہوں نے اس معاہدہ کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ، پس تم ان سے مقررہ مدت تک اس معاہدے کی پوری پاس داری کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تقوے والوں کو پسند فرماتاہے۔ پس جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم مشرکوں کو جہاں پاؤقتل کردو، ان کو گرفتار کرو اور ان کا محاصرہ کرو اور ان کی تاک میں ہر جگہ دھاک لگا کر بیٹھو ، (توبہ:1-5)‘‘۔اور مزید اعلان ہوا:''اے مومنو! تمام مشرک محض نجس ہیں، سو وہ اس سال کے بعد مسجدِ حرام کے قریب نہ آئیں، (توبہ:28)‘‘۔
پھر دس ہجری کو رسول اللہ ﷺ بذاتِ خود حج کے لئے تشریف لے گئے اور یہ آپ کی ظاہری حیاتِ مبارَکہ کا'' حجۃ الاسلام‘‘تھا ، اسی میں آپ نے جبلِ رحمت پر اپنی ناقۂ مبارَکہ'' قَصوا‘‘پر سوار ہوکر وہ عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا، جو تاریخِ انسانی میں حقوقِ انسانی کا پہلا منشور ہے، اسے ''خطبۂ حَجۃ الوَداع‘‘ کہا جاتاہے۔اس کے موضوعات پر الگ سے گفتگو کی جائے گی۔
سورۂ توبہ میں ''حج اکبر‘‘ کا ذکر ہے، ملاعلی القاری حنفی لکھتے ہیں:''حج اکبر کے بارے میں چار اقوال ہیںایک یہ کہ اس سے مراد ''یومِ عرفہ‘‘ ہے،دوسرا یہ کہ اس سے مراد'' یومِ نحر‘‘ ہے، تیسرا یہ کہ اس سے مراد ''طوافِ زیارت‘‘ کا دن ہے ، چوتھا یہ کہ حج کے تمام ایام ''یومِ حج اکبر‘‘ ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عمرے کے مقابلے میں ہر حج ''حجِ اکبر‘‘ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اگر حج جمعہ کے دن واقع ہوجائے ، تو اسے'' حج اکبر ‘‘کہتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے جب حج فرمایا تھا تو وہ جمعۃ المبارک کا دن تھا، (الحظ الاوفر فی الحج الاکبر مع المسلۃ المتقسط،ص:481)‘‘۔
اگر حج جمعہ کے دن واقع ہوجائے تو اس پر ''حجِ اکبر‘‘ کا اطلاق کرنا متفق علیہ مسئلہ نہیں ہے، کیوں کہ اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی صریح حدیث ثابت نہیں ہے ۔ تاہم اس کے بارے میں ایسے قرائن موجود ہیں کہ اس کی افضلیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ملاعلی قاری نے ''اِتّحاف السادت المتقین‘‘ کے عنوان سے ''حجِ اکبر ‘‘ کے بارے میں ایک رسالہ لکھا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں کہ:''جب یومِ عرفہ جمعہ کے دن واقع ہو تو اس پر حجِ اکبر کا اطلاق زبان زدِ خلائق ہے اور خلقِ خدا کی زبانیں حق کا قلم ہوتی ہیں اور پھر وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث بیان کرتے ہیں:''جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں ، وہ اللہ کے نزدیک بھی حسَن ہے اور جس چیز کو مسلمان برا سمجھیں ، وہ اللہ کے نزدیک بھی بُری ہے،(مسنداحمد:36000)‘‘۔وہ مزید لکھتے ہیں:''امام رزین بن معاویہ نے ''تجرید الصحاح‘‘ میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:'' افضل الایام یومِ عرفہ ہے اور جب یہ جمعہ کے دن واقع ہو، تو بغیر جمعہ کے ستر حج کے برابر ہے‘‘۔یہ اعتقادی مسئلہ نہیں ہے، اس کا تعلق فضائلِ اعمال سے ہے اور فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث بھی معتبر ہوتی ہے۔ جمعہ کے دن یومِ عرفہ واقع ہونے کی صورت میں بلاشبہ جمعہ کی برکات بھی قدرِزائد کے طور پر شامل ہوجاتی ہیں ، کیونکہ جمعۃ المبارک کے فضائل احادیثِ مبارَکہ میں بکثرت مذکور ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جمعہ سیدالایام ہے،(مصنف ابن ابی شیبہ:5507)‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved