کراچی مزارِ قائد کے پہلو میں تحریک انصاف کا جلسہ ہوا تو کسی نے خبریں دینی شروع کردیں کہ عمران خان کے جلسے میں حاضرین کی کل تعداد چالیس سے پچاس ہزار کے درمیان تھی۔ اس کی دیکھا دیکھی ملک کی وہ تمام سیاسی جماعتوں‘ ماسوائے ایم کیو ایم کے‘ نے یہی راگ الاپنا شروع کر دیا کہ عمران خان کراچی جیسے بڑے شہر میں پچا س ہزار لوگ بھی اکٹھے نہ کر سکا۔ ایم کیو ایم چونکہ صحیح معنوں میں سیا سی ورکروں پر مشتمل جماعت ہے‘ اس لیے اس نے جلسہ کے حاضرین کی تعداد کی بات کیے بغیر اسے ایک کامیاب سیا سی اجتماع قرار دیتے ہوئے سیاسی شعور کا ثبوت دیا‘ جبکہ سندھ کی حکمران جماعت پی پی پی کے لیڈروں نے وہی زبان بولنی شروع کر دی جو لاہور میں رانا ثنا اﷲ اور چنددوسرے لوگ استعمال کیا کرتے ہیں۔ شرجیل میمن اور چانڈیو جیسے حضرات نے عمران کے کراچی جلسے پر لفظوں کی بم باری کی اور اب 18 اکتوبر کو پیپلز پارٹی پاکستان بھر سے اپنی سیا سی قوت اکٹھی کر کے بلاول کی میدان سیاست میں رونمائی کرا نے جا رہی ہے۔ اب اپنے حاضرین کی تعدادبتانے کے لیے وہ کون سا پیمانہ استعمال کریں گے؟۔ دیکھا جائے تو کراچی میں سیا سی میدان جمانے کے لئے اب مزار قائد اور نشتر پارک دو جگہیں ہی منتخب کی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ میدان دور دور تک انسانی سروں سے بھر بھی لیے جائیں تو پی پی پی یا کوئی اور جماعت‘ سوائے ایم کیو ایم کے‘ کیسے دعویٰ کر سکے گی کہ یہ چالیس ہزار نہیں بلکہ لاکھوں افراد کا سمندر ہے؟
لاہور مینارِ پاکستان میں تحریک انصاف کا28 ستمبر2011ء کو جلسہ ہوا تو ہمارے جیسے لوگوں‘ جو1963ء سے لاہوری جلسے دیکھنے کے عادی تھے‘ کے ذہنوں میں صرف دو جلسوں کی فلمیں گھومنے لگیں۔ ایک محترمہ بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی کے بعد پاکستان واپسی پر پہلی دفعہ لاہور آمد پر مینار پاکستان کے وسیع عریض میدان میں کیا جانے والا جلسہ اور دوسرا عمران خان کا حالیہ 28 ستمبر کاجلسہ۔ آپ چاہے سیا ست میں ہوں یا صحافت میں‘ صاف نظر آنے والی چیز کو اگر جھٹلائیں گے تو اس سے تنقید کا نشانہ بنائے جانے والے شخص یا ادارے کی وقعت میں نہیں بلکہ آپ کی اپنی عزت میں کمی آئے گی۔ کراچی کی طرح لاہور کے جلسہ عام کی کریڈیبلٹی کو ختم کرنے کے لیے بھی یہ خبریں دینی شروع کی گئیں کہ لوگ تو جلسہ شروع ہونے سے پہلے ہی واپس جانا شروع ہو گئے تھے اورتحریک انصاف کے جلسہ میں حاضرین کی کل تعداد ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطا بق پچاس ہزار سے کم تھی۔ جیسے ہی حکومتی ایجنسیوں اور نواز لیگ کے لیڈروں کے حوالے سے جاری کی جانے والی اس خصوصی رپورٹ کے ''ٹکر‘‘ چلنا شروع ہوئے تو اسی گردان پر سوئی اٹک کر رہ گئی کہ جلسے کی تعدا چالیس ہزار سے زائد نہیں تھی۔ نیوزروم میں بیٹھے ہوئے بہت سے لوگوں نے سمجھایا بھی کہ اس طرح ہم اپنی بچی کھچی عزت کو بھی دائو پر لگارہے ہیں ۔
لیکن کہتے ہیں ناں‘ جب عقل گھاس چرنے چلی جائے تو دماغ میں سوائے بھوسے کے کچھ نہیں رہتا‘ سو وہی ہوا اور پی پی پی سمیت مرکز اور پنجاب میں براجمان نواز لیگ نے حاضرین کی تعداد کو کسی صورت پچاس ہزار سے آگے لے جانے کی منظوری نہ دی۔ وہ جذبات میں آکر بھول گئے کہ اس طرح وہ خود پھنس جائیں گے کیونکہ کل جب ہم سیاسی جواب دینے کیلئے یہاں پر اپنا میدان سجائیں گے تو لوگوں کو کیا بتائیں گے؟ نادان دوستوں نے خبریں دیتے ہوئے اوپر والوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے دام تو کھرے کر لیے لیکن ان سب کو وہ اس قدر گہری دلدل میں پھنسا گئے ہیں کہ لاکھ نکلنے کی کوشش کریں‘ نکل نہیں سکیں گے۔ دیکھا جائے تو اس طرح کی خبروں نے مسلم لیگ اور پی پی پی کی خوش فہمی کے غباروں میں وقتی طور پر ہوا تو بھر دی ہے لیکن انجام بالآخر غبارہ پھٹنے کی شکل میں ہی سامنے آئے گا۔ اسے کہتے ہیں کہ دشمن نہ کرے‘ دوست نے جو کام کردیا۔
گزشتہ سال 30 اکتوبر کا جلسہ ہوا تو عمران خان سے اس کی اصل طاقت چھیننے کے لیے پنجاب بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے قدموں میں لیپ ٹاپ اس طرح ڈھیر کرنے شروع کر دیے کہ اس مقصدِ عظیم کی خاطر جناب نواز شریف ، شہباز شریف بشمول حمزہ شہباز اور محترمہ مریم نوازبذاتِ خود پنجاب کے ایک ایک کالج اور یونیورسٹی میں حاضر ہوئے۔ لیپ ٹاپ دیتے ہوئے ان نوجوانوں کو بار بار سمجھایا بھی جانے لگا کہ بچو‘ کہیں سیاسی نعروں کی لہروں سے گمراہ نہ ہو جانا‘ تمہارے اصل دوست ہم ہیں جو تمہیں لیپ ٹاپ دے رہے ہیں لیکن یہ جنریشن اس قدر نا شکری نکلی کہ لیپ
ٹاپ بھی لے لیے اور ان کے جانے کے فوراً بعد یہ کہتے ہوئے ان سے منہ بھی پھیر لیے کہ کون سے اپنی جیب سے دیے ہیں‘ ہمارے اور ہمارے اہل وطن کے ٹیکسوں کے پیسوں سے خریدا ہوا یہ ہمارا ہی مال تھا جو ہمارے پاس واپس پہنچ گیا۔ یعنی حق بحقدار رسید والا معاملہ ہو گیا۔اب سنا جا رہا ہے کہ چین سے ایک لاکھ موٹر سائیکلیں نوجوانوں میں تقسیم کرنے کیلئے منگوائی جا رہی ہیں۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی انگلیاں قوم کی نبض پر رہتی تھیں۔ وہ حقیقت پسند اور حقیقت بیںتھے۔ نوجوانوں کو انہوں نے ایسے ہی اقبال کا شاہین نہیں کہا تھا۔ انہوں نے فرمایا ؎
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے منزل ان کو اپنی آسمانوں میں
حکمران شاید تحریک پاکستان کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ اگر انہیں ذرا سا بھی تحریک پاکستان کا علم ہوتا تو جان لیتے کہ پاکستان انہی نوجوانوں‘ جنہیں ہم لیپ ٹاپ ، موٹر سائیکلوںاور فیسوں کی ادائیگی کے نام پر خریدنے جا رہے ہیں‘ کے آبائو اجداد نے بنایا تھا ۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ بار ہا کہا کرتے تھے ''پاکستان قوم کے نوجوانوں نے بنایا ہے‘‘۔ لہٰذا ایسے نوجوانوں کو کھلونے دے کر بہلانے کی کوشش کرنا سراسر بیوقوفی اور حماقت ہوگی۔