مخدوم جاوید ہاشمی نے نادانستگی میں‘ عمران خان اور پاکستانی عوام کا جو بھلا کیا‘ اگر وہ اس عظیم نیکی کے بعد خاموشی اختیار کر لیتے‘ تو ان کی عزت میں کئی گنا اضافہ ہوتا۔ جو قصے کہانیاں انہوں نے بیان کئے‘ وہ سچے تھے یا جھوٹے؟ عوام اور عمران کا بھلا ہو گیا۔ اس سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ عمران جو عوام کے سامنے ہیں‘ وہی اندر سے بھی ہیں۔ فو ج اور عدلیہ کی سازش کا جو افسانہ گھڑا گیا‘ اگر خدانخواستہ وہ درست ہوتا‘ تو اس سے پہلی سیاسی ہلاکت‘ عمران خان کی ہونا تھی۔ وہ مقبولیت کی جن بلندیوں پر اس وقت پہنچ چکے ہیں‘ ایسی کسی سازش کے نتیجے میں انہیں اقتدار مل جاتا‘ تو 18 سال کی مسلسل محنت کے بعد‘ انہوں نے سیاست میں جو مقام حاصل کیا ہے‘ وہ اس سے محروم ہو گئے ہوتے۔ پاکستان جمہوریت سے محروم ہو گیا ہوتا۔ یہ بات ہاشمی صاحب نے اپنے سلسلۂ انکشافات میں کل ہی بتائی۔ انہوں نے فرمایا کہ ''سازش کے مطابق کسی بڑی شخصیت کو ہلاک کر کے‘ غیرجمہوری قوتیں‘ قوم کو آپس میں لڑوا کر ملک میں خانہ جنگی کرانا چاہتی تھیں۔ دھرنے والوں کا پروگرام تھا کہ دس پندرہ بندے مروا دیئے جائیں‘ حکومت گر جائے گی یا ملک کی کسی قدآور شخصیت کو قتل کروا کر جمہوریت ختم کر دی جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگا دی جاتیں‘‘۔ یعنی عمران خان نے 18 سال خارزار سیاست میں‘ اس لئے تکلیف دہ سفر کیا کہ مقبولیت کے عروج پر پہنچ کر‘ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگوائیں۔ اقتدار پر غیرجمہوری قوتوں کا قبضہ کرائیں اور پھر آرام سے گھر پر بیٹھ جائیں۔ اگر انہیں آرام سے گھر میں ہی بیٹھنا ہوتا‘ تو اتنے جتن کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ تو بگلے کے سر پر موم رکھنے والی بات ہوئی۔ کسی دانا آدمی نے‘ ایک سادہ لوح شخص کو بگلا پکڑنے کا آسان طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ ''جب بگلا پانی کے کنارے بیٹھا ہو‘ تو دبے پائوں اس کے پیچھے سے چلتے ہوئے قریب پہنچ جائو۔ دھیرج سے موم کا ایک ٹکڑا‘ اس کے سر پہ رکھ دو۔ پہلے یہ دیکھ لینا کہ بگلا دھوپ میں بیٹھا ہو۔ تھوڑی دیر میں موم پگھل کر بگلے کی آنکھوں میں چلی جائے گی۔ اسے دکھائی دینا بند ہو جائے گا۔ پھر بے شک سامنے سے آ کر اسے دبوچ لینا۔‘‘ کہانی تو بہت مزے دار ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ بگلا پکڑا کیوں جائے؟ اس کے انڈے کھائے نہیں جاتے۔ گوشت پسند نہیں کیا جاتا۔ اسے گھریلو پرندے کے طور پر بھی نہیں پالا جاتا۔ پھر اسے پکڑنے کے لئے‘ اتنی تگ و دو کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہاشمی صاحب کے نظریہ سیاست کے تحت اس سازش کا جائزہ لیا جائے‘ جس کا انہوں نے انکشاف فرمایا ہے‘ تو عمران کو ملنا کیا تھا؟ بگلا؟
مخدوم صاحب کو اپنے اس کارنامے پر بہت فخر ہے کہ انہوں نے سازش کا انکشاف کر کے‘ جمہوریت کو بچانے کا شاندار کارنامہ انجام دیا ہے اور اب وہ ملتان کے لوگوں سے اس لئے ووٹ مانگ رہے ہیں کہ انہوں نے جمہوریت کو بچا لیا۔ بہت اچھا کیا‘ لیکن الیکشن جیت کر اگر انہیں اسی اسمبلی میں آ کر جمہوریت کی خدمت کرنا ہے‘ تو وہ اس سے باہر ہی کیوں نکلے؟ عمران نے پیٹھ میں چھرا کھانے کے بعد بھی‘ انہیں پارلیمنٹ سے نکلوانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کرتے بھی‘ تو نکلوا نہیں سکتے تھے۔ جن لوگوں کو سازش کے انکشاف سے فائدہ پہنچا‘ ان کی نظر میں ہاشمی صاحب پہلے ہی ہیرو بن چکے تھے۔ وہ پرانی رکنیت کو محفوظ رکھتے ہوئے‘ بطور ہیرو اسمبلی کے اندر داخل ہوئے۔ ان کا شاندار خیرمقدم کیا گیا۔ ان کی تقریر پر تالیاں بجائی گئیں۔ وزیر اعظم نے گرمجوشی سے ان کا حال چال پوچھا۔ بطور رکن قومی اسمبلی تو موجودہ ایوان کے اندر ان کی عزت میں اضافہ ہوا تھا‘ پھر اسمبلی کیوں چھوڑی؟ اب بھی اگر وہ منتخب ہو گئے‘ تو ان کی عزت میں مزید کیا اضافہ ہو گا؟ وہ پھر اسی اسمبلی میں جائیں گے‘ جسے وہ چھوڑ کر آئے۔ انہی لوگوں میں بیٹھیں گے‘ جو اس وقت بھی پارلیمنٹ کے ممبر تھے اور ہیں اور وہ سب کے سب‘ ہاشمی صاحب کی عزت کرنے لگے تھے۔ دوبارہ الیکشن لڑ کر اسمبلی میں آنے سے‘ ان کی عزت میں کتنا اضافہ ہو گا؟ پھر وہی بگلا پکڑنے والی بات۔ انسان جس حالت میں بگلا پکڑنے سے پہلے ہوتا ہے‘ اس کی وہی حالت بگلا پکڑنے کے بعد بھی رہتی ہے۔ نہ وہ اسے پال سکتا ہے‘ نہ اس کے انڈے کھا سکتا ہے‘ نہ اسے عقاب کی طرح استعمال کر کے‘ شکار کھیل سکتا ہے۔ بگلا پکڑنے کے بعد بھی ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے‘ جیسا بگلا پکڑنے سے پہلے تھا۔ مخدوم صاحب استعفیٰ دینے اور الیکشن جیتنے کے بعد بھی اسی اسمبلی میں ہوں گے‘ جسے وہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ ساری محنت کا کیا فائدہ؟
مخدوم صاحب نے سازش کا انکشاف کرتے ہوئے‘ یہ نہیں بتایا کہ اگر سازش کامیاب ہو گئی تو سازشیوں کو کیا ملے گا؟ عدلیہ اپنے اس عہد پر قائم ہے کہ وہ آئین اور جمہوریت کو تحفظ دے گی۔ فوج نے واضح اعلان کر رکھا ہے کہ وہ آئین اور جمہوریت کی خلاف ورزی نہیں کرے گی۔ عمران خان کو بقول مخدوم صاحب‘ سازش کے نتیجے میں کچھ ملنا نہیں تھا‘ تو کامیابی کی صورت میں فائدہ کس کو ہوتا؟ انہوں نے چیف جسٹس کا باقاعدہ نام لیا۔ فوج کی طرف واضح اشارہ کیا‘ لیکن یہ دونوں ہی سازش کامیاب ہونے کے بعد کچھ حاصل نہیں کرنے جا رہے تھے‘ تو انہوں نے بھی ساری محنت بگلا پکڑنے کے لئے ہی کی تھی؟ مخدوم صاحب کی اپنی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جدوجہد کے دھنی ہیں۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں بہت قربانیاں دیں۔ اگر وہ آج بھی یہ بتا دیں کہ وہ قربانیاں کس لئے تھیں؟ تو میرے علم میں بہت اضافہ ہو گا۔ ورنہ میں ابھی تک یہی سمجھ رہا ہوں کہ انہوں نے پولیس کی لاٹھیاں کھا کر بگلا ہی پکڑا تھا۔ اگر وہ جنرل ضیا کی کابینہ میں وزارت کو قربانیوں کا
صلہ سمجھتے ہیں‘ تو معاف کیجئے! ایسی وزارت بھی بگلا ہی تھی۔ انہوں نے جماعت اسلامی اور تحریک استقلال میں رہ کر بھی بہت قربانیاں دیں۔ حاصل کیا ہوا؟ بگلا؟ اس کے بعد وہ مسلم لیگ (ن) میں آئے۔ یہ ایک لاڈلی بہو جیسی پارٹی ہے‘ جس نے ایوان اقتدار کے باہر کبھی پیر تک نہیں رکھا تھا۔ پارٹی کا اقتدار چلا بھی جاتا تو بہو‘ گھر کے اندر ہی رہتی۔ ایسی پارٹی کوجدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مسلم لیگ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں۔ یہ آج تک کسی حکومت سے نہیں لڑی۔ حد یہ ہے کہ جب پرویز مشرف نے اقتدار چھینا‘ تو یہ بڑے آرام سے معاہدہ کر کے‘ سعودی عرب کے شاہی مہمان خانے میں قیام پذیر ہو گئی۔ سڑکوں پر نہیں آئی۔ نواز شریف نے اپنے تمام ساتھیوں کو محفوظ اور آسودہ رکھنے کی خاطر‘ ہاشمی صاحب کو پارٹی کا قائم مقام صدر بنا دیا۔ کھان پین نوں بلیاں‘ تے گھوٹے کھان نوں رچھ۔ ہاشمی صاحب نے اپنے لیڈر کو مایوس نہیں کیا۔ وہ چاہتے تو پارٹی کے دوسرے لیڈروں کی طرح‘ گھر بیٹھ کے آرام کرتے اور کبھی کبھی جدہ ٹیلیفون کر کے‘ وفاداری کا یقین دلاتے رہتے۔ ان سے ایسا نہ ہو سکا۔ فوج کے خلاف ایک ایسا خط جو اس زمانے کے تمام اراکین اسمبلی میں تقسیم کیا گیا تھا‘ وہ ہاشمی صاحب کو بھی مل گیا۔ ان کا جذبہ قربانی بیدار ہوا اور یہ خط سیدھا‘ اس زمانے کی فوج کے منہ پر مار کے‘ جیل جا پہنچے۔ جیل میں کئی سال اذیت کے ساتھ گزارے اور قید و بند میں قربانیاں دینے کے بعد‘ باہر آئے تو انہیں کیا ملا؟ بگلا؟ عمران خان اپنی پارٹی کو منظم کرتے کرتے‘ چھوٹے شہروں تک لا چکے تھے۔ عوام ان کی طرف متوجہ ہونے لگے تھے۔ بطور ایک ایماندار لیڈر‘ ان کی شہرت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ عمران خان تصادم اور محاذ آرائی کے بجائے‘ پُرامن سیاست کرتے ہوئے آگے بڑھتے آ رہے تھے۔ ان کی پارٹی کو کسی طرح کی قربانیوں کی ضرورت نہیں تھی۔ گویا ہاشمی صاحب کا وہ سودا‘ جسے انہوں نے بازار سیاست میں ہمیشہ استعمال کیا‘ تحریک انصاف کے لئے کسی کام کا نہیں تھا۔ عمران نہ خود جیل جا رہے تھے اور نہ اپنے ساتھیوں کو جیلوں میں بھیج رہے تھے۔ دوسرے‘ ہاشمی صاحب بھی جسمانی طور پر پولیس کی لاٹھیاں کھانے اور جیل میں تشدد برداشت کرنے کی حالت میں نہیں رہ گئے تھے۔ تحریک انصاف نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ انہیں پارٹی کا اعلیٰ ترین عہدہ دیا۔ کور کمیٹی کے اجلاس میں ان کی رائے کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ سنا جاتا۔ پتہ نہیں انہیں کیا ہوا؟ شاید وہ پارٹی کے اقتدار میں آنے کا امکان دیکھ کر گھبرا گئے۔ کسی نے انہیں سازش کا وظیفہ بتا دیا اور انہیں بشارت ہوئی کہ ان کی پارٹی‘ جمہوریت کو ختم کرنے کی سازش کر رہی ہے‘ تاکہ دوسرے لوگ اقتدار میں آ جائیں اور عمران خان اپنی پارٹی لے کر گھر کا رخ کر لیں۔ ہو سکتاہے مخدوم صاحب نے‘ عمران کو اس انجام سے بچانے کے لئے سازش کا انکشاف کیا ہو تاکہ عمران گھر بیٹھنے سے بچ جائیں اور حصول اقتدار کی منزل کی طرف بڑھتے رہیں۔ عمران کی کامیابی کی صورت میں انہیں اقتدار ملنے کا اندیشہ تھا؛ چنانچہ درویش صفت باغی‘ بگلا پکڑنے نکل کھڑا ہوا۔ شاید زندگی کا باقی حصہ بگلے پکڑنے میں ہی گزار دے۔