قانون فطرت مگر یہ ہے کہ جو خود اپنے ساتھ وفا نہیں کرتا‘ کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا۔
ع اگے تیرے بھاگ لچھیے!
کبھی کبھی میاں محمد نواز شریف سے ہمدردی ہونے لگتی ہے۔ غلطیاں ان کی سنگین ہیں‘ بہت سے لوگ روز گنواتے ہیں‘ مگر اب ایسے لوگ بھی ان کو گالی دینے لگے جو خود گالی ہیں۔ حیرت سے میں نے سوچا‘ کیا میرے اندر بھی خوئے غلامی کے جراثیم متحرک ہو گئے۔ جس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بادشاہوں اور شہزادوں پر برا وقت آئے تو ترس کا جذبہ ادبدا کر جاگ اٹھتا ہے۔
عجیب حکومت ہے۔ اول تو کچھ کرتی ہی نہیں‘ کرتی ہے تو کچھ ایسا کہ ہوش مند لوگ سر پکڑ کے رہ جاتے ہیں۔ پرسوں پرلے روز ٹیلی ویژن پر عرض کیا تھا کہ یہ وہ نواز شریف ہی نہیں‘ جسے ہم جانتے تھے۔ کم از کم تحرک تو اس میں تھا۔ اگر یہ بات صحیح ہے کہ سیاست پہل قدمی کا نام ہے تو میاں صاحب اب اس سے محروم ہو چکے۔ ان کے ایک قدیم رفیق نے‘ جو میاں صاحب کی رگ رگ سے واقف ہیں‘ ابھی کچھ دیر پہلے یہ کہا: وزیر اعظم نہیں‘ انہیں صدر بن جانا چاہیے‘ پھر وہی جملہ: یہ وہ نواز شریف نہیں۔ شاعری میں اسے توارد کہا جاتا ہے۔
تو کیا میاں محمد شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دینا چاہیے؟ یہ سوال انہی قدیم رفیق سے پوچھا۔ ان کا جواب یہ تھا۔ جی ہاں‘ مگر اس کا وقت گزر چکا۔ سانحہ ماڈل ٹائون سے پہلے یہ ممکن تھا‘ اب شاید نتیجہ خیز نہ ہو۔
سارا وقت فوج کے ساتھ تصادم میں گنوا دیا۔ دھاندلی پر عمران خان چیختے چلاتے رہے۔ سن کر نہ دیا۔ سوال یہ نہیں کہ کتنی سیٹوں پر گڑبڑ ہوئی۔ یہ تو سب مانتے ہیں کہ ہوئی۔ کوئی حل تلاش کرنا چاہیے تھا۔ وہ تو زعم کا شکار رہے۔ بڑی خرابی یہ ہے کہ ٹیم بڑی ہی ناقص
تشکیل دی۔ خواجہ آصف کا حال یہ ہے کہ راولپنڈی میں وزیر دفاع کے دفتر کو صرف ایک بار اپنی زیارت کا شرف بخشا۔ کسی اور کو ذمہ داری سونپ دی ہوتی۔ کابینہ کی سکیورٹی کمیٹی کا حال یہ ہے کہ فروری کے بعد اس کا ایک بھی اجلاس نہ ہو سکا۔ غلیلی وزیر سے نجات کیوں نہیں پا لی جاتی۔ اس کا مصرف کیا ہے؟ وزارت اطلاعات کا کام نہ صرف قومی بلکہ عالمی محاذ پر ملک کا دفاع کرنا ہے۔ عالمی اور قومی پریس کو حکومتی مؤقف سے آگاہ رکھنا۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ‘ خاص طور پر ضرب عضب کے پس منظر میں یہ ذمہ داری اور بھی گراں بار ہے۔ ادھر موصوف ہیں کہ جملے بازی کے سوا کوئی ہنر رکھتے ہی نہیں۔ انگریزی اور اردو تو کیا پنجابی زبان میں بھی اظہار خیال پر قدرت نہیں رکھتے۔ کل ایک ممتاز ٹی وی میزبان کے سامنے عبرت کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ سچ بول رہے ہوں‘ تب بھی لگتا ہے کہ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ طارق عظیم ایسے مفکرین نون لیگ کا دفاع کرتے ہیں۔ کیا یہ ان کے بس کا ہے۔ رہے طلال چودھری‘ مشاہد اللہ خان اور حنیف عباسی جیسے لوگ تو وہ مقابل کی توہین کر سکتے ہیں‘ دلیل نہیں دے سکتے۔ ان سے تو سلمان شہباز شریف بدرجہا بہتر ہیں‘ اگرچہ ان کی ذمہ داری یہ ہے نہیں۔
طاہرالقادری تو خیر‘ جب تک کینیڈا کا پاسپورٹ جلا نہیں دیتے‘ کوئی انہیں سنجیدگی سے لے گا ہی نہیں۔ عمران خان نے مگر ایک طوفان اٹھا دیا ہے۔ لاہور کا جلسہ حیران کن تھا تو میانوالی کا خیرہ کن۔ ظاہر ہے کہ اب ملتان کا اجتماع بھی ایک ریکارڈ ہو گا۔ وہ خود وزیر اعظم بن سکیں یا نہ بن سکیں‘ مگر نون لیگ کی چُولیں انہوں نے ہلا دی ہیں۔ محترمہ مریم نواز اور وزیر اعلیٰ کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ خاص طور پر سرخی پائوڈر والی بات نے۔ ربع صدی سے سرمایہ کاری کے باوجود میڈیا کی جنگ نون لیگ ہار چکی۔ اس کا مقدمہ لڑنے والے وہ ہیں‘ جن کی کوئی سنتا ہی نہیں۔ جنہوں نے خود کو فریق بنا کر بے وقعت کر لیا۔
عمران خان خود فاتح بن کر شاید نہ ابھر سکیں مگر ہنگامے بڑھتے گئے تو خدانخواستہ فوج آئے گی۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان دشمن غیر ملکی طاقتیں اسی کی آرزو مند ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے ملک اور کمزور ہو گا کہ فعال طبقات عسکری قیادت کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے۔ وسط مدتی الیکشن؟ جی نہیں‘ مگر اس طوفان میں کوئی نتیجہ ان سے بھی نہیں نکلے گا۔ آندھی میں راستہ گم ہو جایا کرتا ہے۔ فوجی قیادت آخری وقت تک مزاحمت کرے گی مگر تا بہ کے؟ اگر فساد بڑھتا ہی رہا تو کیا ہو گا؟ تاریخی قوتیں بے لگام ہو چکیں اور اب کوئی حکم لگایا نہیں جا سکتا۔
میں کیا اور میری بساط کیا۔ کچھ دیر کو مگر میں نے سوچا کہ اگر میں میاں محمد نواز شریف کی جگہ ہوتا تو کیا کرتا۔ کچھ دانا لوگوں سے مشورہ بھی کیا جو سیاسی حرکیات کے شناور ہیں۔
تمام تر انحصار میاں محمد نواز شریف پہ ہے‘ اب جو قوت عمل سے محروم نظر آتے ہیں۔ اپنا بہت سا وقت جو لاہور‘ بھوربن اور بیرونِ ملک گزارتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر اگر وہ خود کو بحال کر سکیں تو سب سے پہلے انہیں فوج کے ساتھ مراسم کو بہتر بنانا چاہیے۔ اس سلسلے میں وہ میڈیا گروپ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا‘ جس پر وہ انحصار کر رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف ان کی مہم خود ان کے لیے زیادہ تباہ کن ہے۔ ہفتے بھر میں دو تین خبریں تو قابل فہم ہیں لیکن روزانہ آٹھ دس بے تکے تجزیوں نے اخبار کی بجائے اسے پوسٹر بنا ڈالا ہے۔ میرے اندازے میں عسکری قیادت مسلسل صلح کی طرف مائل ہے مگر تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ مراسم کو اداراتی سطح پر بہتر بنانا ہو گا‘ انفرادی نہیں۔ مجبوری کی بجائے خوش دلی سے۔ دلیل اور معقولیت کی بنیاد پر۔ حالات کے معروضی مطالعے کے ساتھ۔ ثانیاً‘ اپنی ٹیم اب وزیر اعظم کو بدلنا ہی ہو گی بلکہ آغاز اسی سے کرنا ہو گا۔ اس سے پیغام یہ پہنچے گا کہ وہ سنجیدہ ہیں اور بروئے کار آنے پر تل گئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنانا ہو گا اور دل جمعی سے اس کی وکالت کرنا ہو گی۔ پنجابی محاورے کے مطابق شلغموں سے مٹی جھاڑنے کا ہرگز کوئی فائدہ نہیں۔
اگر کوئی بڑی پہل ممکن ہے تو وہ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی ناقص کارکردگی نے قوم میں اشتعال پھیلا رکھا ہے۔ پنجاب تو رہا ایک طرف عمران خان سندھ گئے تو وہاں بھی ان کا غیر معمولی استقبال ہو گا۔ ایسے میں بلدیاتی الیکشن ہی واحد طریقہ ہیں جو سیاسی پارٹیوں کو قدرے شائستگی کی طرف مائل کر سکتا اور کارزار کی فضا اور جنگ کی نوعیت بدل سکتی ہے۔ غصے میں بھرے ہوئے تجزیہ کار‘ اس رائے کو نفرت سے مسترد کر دیں گے مگر میرا خیال یہ ہے کہ نون لیگ اب بھی پنجاب میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔ اس لیے کہ کونسلر کو حکومت سے کام ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تحریک انصاف کو علامہ صاحب کے سوا شاید ہی کوئی حلیف ملے یا پختونخوا میں جماعت اسلامی۔ اس کے برعکس نون لیگ کی تائید کرنے والی جماعتیں زیادہ ہوں گی۔ شہری سندھ میں میدان ایم کیو ایم کے ہاتھ رہے گا‘ الاّ یہ کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں سمجھوتہ ہو جائے۔ سرحد میں تحریک انصاف کی کارکردگی ہرگز ایسی نہیں کہ وہ آسانی سے جیت جائے۔ بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کی تنظیم اس کے گلے کا پھندہ بن جائے گی۔ سیف اللہ نیازیوں‘ صداقت عباسیوں اور اعجاز چودھریوں کے ساتھ کوئی الیکشن لڑا جا سکتا ہے اور نہ جیتا جا سکتا ہے۔
سب سے اول اور سب سے زیادہ اہم یہ کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو لندن سے اپنے اثاثے پاکستان منتقل کرنا ہوں گے۔ قوم اپنے حکمران کو بیرون ملک کاروبار کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتی۔
جب سے ہنگامہ شروع ہوا‘ پیہم اور مسلسل طالب علم کا ذہن ستر برس پر پھیلی ہسپانیہ کی خانہ جنگی کے بارے میں سوچتا رہا‘ جس نے اسلامی تاریخ کے عظیم ترین المیوں میں سے ایک کو جنم دیا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان پر بھی یہی گزرا تھا۔ 50 ہزار انگریز وگرنہ برصغیر کے کروڑوں باشندوں پر کیسے مسلط ہوتے۔ جانتا ہوں کہ مجھے گالی دی جائے گی‘ مگر کپتان شہادت کا مرتکب نہیں ہونا چاہتا۔
بری حکمرانی‘ انارکی سے بہرحال بہتر ہے۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: الفتنۃ اشد من القتل۔ فتنہ قتل سے بھی بہت بڑھ کر ہے۔
قانون فطرت مگر یہ ہے کہ جو خود اپنے ساتھ وفا نہیں کرتا‘ کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا۔
ع اگے تیرے بھاگ لچھیے!