پرائم ٹائم اور رات دیر گئے ٹاک شوز میں جلوہ گر ہونے والے اینکروں کی طرح ہمارا بھی پختہ یقین تھا کہ شیخ رشید صاحب بڑے ''کرنی والے‘‘ ہیں، لیکن ان کے تمام دعووں کے باوجود حکومت کی قربانی ہوئی اور نہ ہی جھٹکا۔ شیخ صاحب ٹاک شوز میں نیچے سروں میں جبکہ جلسوں اور دھرنوں میں واجے کی آخری سپتک (اونچے سروں) میں قوالی کر رہے تھے کہ ''قربانی سے پہلے قربانی ہو گی‘‘ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب جبکہ حکومت کالی سی کلکتے والی، کالے بکرے کی سری اور الو کے خون سے لکھے تعویزوں کے نحس اثرات سے بچ نکلی ہے‘ تو تبدیلی اور انقلاب کے استھائی انترے بھی بدل گئے ہیں۔ شیخ رشید اب اپنی بات یوں کہہ رہے ہیں کہ 'قربانی سے پہلے قربانی ہونی تھی لیکن نواز شریف کو قربانی کے بجائے غالباً جھٹکا پسند ہے‘ اس لیے اب جھٹکا ہو گا۔ عمران خان نے بھی لاہور اور میانوالی کے میگا جلسوں میں یہ کہا کہ ''نواز شریف! آپ نے اچھا کیا جو استعفیٰ نہیں دیا، مجھے اپنی قوم کو جگانے کا موقع مل گیا‘‘۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ قربانی کا بکرا کنٹینر کے باہر ہی قربان کریں گے اور وزیر اعظم کے استعفے تک دھرنا جاری رہے گا۔ قادری صاحب نے بھی اپنے جانثاروں کو بڑی عید پر بڑا تحفہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ وہ ہر قسم کے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ مراد یہ ہے کہ بلدیاتی سمیت صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں شریک ہوں گے۔ بقول قادری صاحب اب ''ظلم کے نظام‘‘ سے اسمبلیوں میں بیٹھ کر مقابلہ بھی کریں گے اور انقلاب بھی لائیں گے۔
پچھلے کچھ عرصے میں ''تبدیلی‘‘ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈسکس ہونے والا لفظ بن چکا ہے۔ یہ تبدیلی اب گراس روٹ لیول پر بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر 'ونڈو شاپنگ‘ کا کانسپٹ بڑے بڑے شاپنگ مالز سے نکل کر بکر منڈیوں تک پہنچ گیا ہے۔ چونکہ قربانی سے پہلے قربانی نہیں ہو سکی لہٰذا ہونا یہ چاہیے تھا کہ بکر منڈیوں میں جانوروں کی تعداد زیادہ ہوتی‘ لیکن خبریں یہ ہیں کہ اس بار منڈیوں میں مال کی کمی پائی جا رہی ہے۔ بیوپاری جانور کا بھاؤ اس طرح بتاتے ہیں جیسے یہی وہ جانور ہے جس کا ذکر شیخ رشید صاحب نے اپنی پیش گوئی میں کیا تھا۔ ایک دور تھا جب لوگ اپنے بچوں، دوستوں اور عزیز و اقارب کے ہمراہ بکر منڈیوں میں جاتے تھے۔ منڈی میں موجود جانوروں کا اور ان کے بھاؤ کا بغور جائزہ لینے کے بعد جانور خریدتے تھے۔ آج صورتحال قدرے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو بکر منڈیوں میں لے جا کر محض بکروں کا کیٹ واک شو دکھاتے ہیں اور گھر واپسی پر انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم واقعی کبھی قربانی کیا کرتے تھے۔ بکروں کے بھاؤ اس قدر زیادہ ہو چکے ہیں جیسے یہ ایپل بکرے یا بلیک بیری بکرے ہوں‘ جن میں جدید فیچرز کے ساتھ ساتھ وائی فائی کی سہولت بھی موجود ہے۔ یہی صورتحال رہی تو مستقبل قریب میں بیوپاری یہ تک کہا کریں گے کہ میرے بکرے کو تو لوگ ٹوئٹر اور فیس بک پر فالو بھی کرتے ہیں۔
ماضی میں بکرے اپنی نسل اور اقسام کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتے تھے‘ جیسے بیتل، ناچی، دیسی، چھترا، مکھی چینی، گلابی یا راجن پوری، دائرہ دین پناہ، پہاڑی، دنبہ، چکی والا دنبہ اور ٹیڈی بکرا سمیت بکروں کی دیگر اقسام معروف تھیں۔ اس بار اس معاملے میں بھی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے یعنی نسل کی بجائے بکرے دلچسپ ناموں کی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ جانوروں کا جو ہارٹ فیورٹ نام سامنے آیا‘ وہ ہے 'گلو بٹ‘۔ کچھ گلو بٹ تو وہ ہیں جو منڈیاں قائم ہونے سے پہلے ہی 'گلو بٹ‘ تھے اور کچھ وہ ہیں جو ساتھی بکروں اور بکریوں کو ٹکریں مارنے کی وجہ سے 'گلو بٹ‘ کے نام سے مشہور ہو گئے ہیں۔ 'گلو بٹ‘ بنتے ہی جانور کا بھاؤ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اسے پھر حکمران ہی خرید سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی بڑے بڑے دلچسپ نام سننے میں آ رہے ہیں جیسے بلو بٹ، ڈون، ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، سلمان خان، سلطان راہی، دبنگ، کپتان وغیرہ وغیرہ۔ ایک بکرے کی نکلی ہوئی پسلیاں دیکھ کر جب بیوپاری سے وجہ دریافت کی گئی تو اس نے انکشاف کیا کہ یہ پسلیاں نہیں، سِکس پیک ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار دھرنے والے پارلیمنٹ ہاؤس کے پہلو میں قربانی کر کے انقلاب کو ایک نیا رنگ دیں گے۔ عمران خان کے دھرنے میں جس طرح لوگ جوق در جوق آ رہے ہیں یقینا 'بون فائر‘ اور ' بار بی کیو پارٹیز‘ بھی ہوں گی۔
مہنگائی جس طرح ساتویں آسمان کو چھو رہی ہے‘ لگتا ہے عوام قربانی نہیں کریں گے‘ عوام کی قربانی ہو گی۔ عوام کی قربانی کا آئینی اور قانونی حق حکومت کے ہاتھ میں ہے کیونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے وجود میں آئی ہے۔ مگر پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کا بھی یہی کہنا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی اور سب سے زیادہ اعتراض تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو ہے۔ دونوں جماعتیں حکومت کا حق حکمرانی ماننے سے انکاری ہیں اور دونوں کے دوست شیخ رشید ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ''اب قربانی نہیں جھٹکا ہو گا‘‘۔ کیا واقعی بات قربانی سے جھٹکے تک پہنچ گئی ہے؟ غریب، مسکین اور یتیم عوام کا جھٹکا تو نجانے کب سے ہو رہا ہے؟ بجلی، گیس، کھانے پینے اور اشیائے ضرورت کی دستیابی عوام کے لئے زندگی کا سوئمبر بن چکا ہے۔ غور کریں تو عوام اور قربانی کے جانور میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔ حکمران، عوام کو مہنگائی اور بے تحاشا ٹیکسوں کے زنگ آلود چھرے سے ذبح کرتے ہیں جبکہ اپوزیشن والے اس نیم بسمل جنس سے اپنے لانگ مارچ، جلسوں اور دھرنوں کی رونق بڑھاتے ہیں۔
اس وقت عمران خان میگا جلسے کر رہے ہیں جبکہ حکمرانوں کی طرف سے چھوٹی چھوٹی جلسیاں ہو رہی ہیں۔ عمران خان نے چیلنج کیا ہے کہ میاں برادران تمام تر حکومتی وسائل بروئے کار لانے کے باوجود اگر ان کے جلسوں کے مقابلے ایسا جلسہ کر لیں‘ جس کا سائز ان کے جلسے سے 80 گنا چھوٹا ہو تو وہ ''گو نواز گو‘‘ کی تحریک واپس لینے کا اعلان کر دیں گے۔ کراچی، لاہور اور میانوالی کے میگا جلسوں نے کپتان کا انرجی لیول ہائی کر دیا ہے۔ حکمران گھرانہ بھی بیانات میں شکست تسلیم نہیں کر رہا۔ مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ شیروں سے پنگا نہ لیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان باز آ جائیں نواز شریف کے شیروں کا صبر جواب دے سکتا ہے، جانتے ہیں ہمارے جلسوں میں شرپسند عناصر کون بھیجتا ہے، شیر جاگے تو پھر ُسرخی رہے گی نہ پائوڈر۔
کیسی بے بسی ہے؟ وفاق میں نون لیگ کی حکومت ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی میاں برادران کی حکومت ہے۔ اس کے باوجود میاں شہباز شریف اشارے کنائے میں کہہ رہے ہیں کہ ''جانتے ہیں کہ ہمارے جلسوں میں شرپسند عناصر کون بھیجتا ہے‘‘۔ جلسوں میں شرپسند بھیجنے کا رواج پرانا ہے، شاید اس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب وزیر اعظم لیاقت علی خان کے جلسے میں شرپسند بھیجا گیا تھا؟ مثل مشہور ہے کہ 'بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘ مراد یہ ہے کہ بکرے کی ماں لاکھ دعائیں کر لے اسے اس کی قربانی یا جھٹکا ہونے سے بچا نہیں پاتیں۔ اقتدار کے کھیل میں قربانیاں بھی ہوتی رہیں اور جھٹکے بھی لیکن اس سے عوام کے حصے کچھ بھی نہیں آیا۔ عمران اور قادری صاحب نے عوامی امیدوں کی ہنڈیا ایک بار پھر وعدوں کی آگ پر پکانے کے لئے رکھ دی ہے۔ دیکھیں انہیں اس بار کیا ملتا ہے۔