تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     05-10-2014

ایک غیر آئینی گانا

اردو اور فارسی شاعری کا وزن عروض پر ہوتا ہے۔ جبکہ گیت کا وزن ماتروں پر ہوتاہے۔ گیت میں وزن کی کمی بیشی‘ سروں کی اونچ نیچ سے‘ برابر کر لی جاتی ہے۔ عروض میں اس کی گنجائش نہیں۔ اسی لئے اردو اور فارسی شاعری پڑھنے میں سہولت رہتی ہے۔ جب گیت کے بول پڑھے جائیں‘ تواس کے بول بروزن نہیں لگتے۔ اس فرق کو‘ مغنّی سُروں کے تال میل سے برابر کر لیتا ہے‘ جو پڑھنے میں ممکن نہیں۔ آج میں ایک مقبول گیت پیش کر رہا ہوں‘ جو ان دنوں سوشل میڈیا پر ہٹ جا رہا ہے۔ یہ کورس کی شکل میں گایا گیا ہے اور سنگرز میں‘ملک کے نامور ستارے شامل ہیں۔ میں صرف تین کے نام لکھ رہا ہوں۔ جویریہ‘ عائشہ عمر اور فلم سٹار ثناء‘ ان کے علاوہ دیگر کئی نسوانی اور مردانہ آوازیں ہیں۔اب گیت یا گانا ملاحظہ فرمایئے
غیر آئینی گانا
کوئی مرتا ہے مر جائے
جمہوریت چلتی جائے
کوئی بھی نہ بچ پائے
جمہوریت چلتی جائے
کوئی مرتا ہے مر جائے
جمہوریت چلتی جائے
کوئی بھی بچ نہ پائے
جمہوریت چلتی جائے
کرپشن چاہے عام ہو
کرسی سب کے درمیان ہو
نعرہ جمہوریت کا ہو
پھر جو بھی ہو سرعام ہو
نہ بجلی ہو، نہ تیل ہو
سارا سسٹم ہی فیل ہو
ہر چیز یہاں پر بکتی ہو
پورا ملک ہی اوپن سیل ہو
لندن میں کسی کا پیلس ہو
یا کسی کا وہاں پر فارم ہو
پبلک اس پیاس میں مر جائے
کہ بس روٹی کپڑا مکان ہو
کوئی بن لادن کو لے جائے
بدلے میں ڈرون دے جائے
کوئی مرتا ہے مر جائے
جمہوریت چلتی جائے
کوئی بھی بچ نہ پائے
جمہوریت چلتی جائے
ڈیزل‘ پٹرول‘ سی این جی
ہر چیز یہاں اتنی مہنگی
بس جان یہاں پر سستی ہے
اندھا قانون پولیس مہنگی
بے چارگی چلتی جائے
ریاست میں چند سیانے ہیں
بس ایک ہم ہی دیوانے ہیں
چال چلیں وہ کچھ ایسے
سب خواب لگیں سہانے ہیں
اک چیف کو ایکسٹینشن دے دے
اک چیف کو بس ٹینشن دے دے
آئین بھی ہو قانون بھی ہو
اس قوم کو ڈکٹیشن دے دے
ذرا قرضہ بھی ہو جائے
روپیہ بھی رل جائے
جس نے جانا ہے 
کروٹ لے کر سو جائے
کوئی مرتا ہے مر جائے
جمہوریت چلتی جائے
کوئی بھی بچ نہ پائے
جب کوئی عوامی لہر چلتی ہے تو اس میں ہر طبقے کے لوگ اپنے حصے کے جذبات مُٹھی مُٹھی ڈالتے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی صنف سخن نہیں ہوتی۔ اس کا اپنا وزن ہوتا ہے۔ اس کے اپنے سُر اور اپنے الفاظ ہوتے ہیں۔ ایسے دور میں جو بھی موسیقی‘ شاعری اور بولیاں تخلیق ہوتی ہیں‘ وہ ایک ''عارضی فوک آرٹ‘‘ کی طرح ہوتی ہیں۔ ان میں قوت محرکہ ‘ الفاظ یا سُروں میں ڈھلے ہوئے جذبات ہوتے ہیں۔ کسی تراش خراش کے بغیر۔ مرصع سازی کے بغیر۔لفظوں کی دروبست کے بغیر۔ بچے کی ہنسی اور رونے کی آواز کی طرح۔ کراہتے ہوئے زخمی کی کراہ کی طرح۔زنجیروں کو توڑنے والے بے اختیار جھٹکے کی طرح۔ مجھے ایک دوست سے سوشل میڈیاپر ‘ ایک پرانا نعرہ‘ پرانی دھن میں‘ نئے الفاظ کے ساتھ سننے کا موقع ملا۔پرانا نعرہ تھا 
بھٹو آ گیا میدان وچ
ہے جمالو
نئے نعرے کے الفاظ یوں ہیں: 
عمران آ گیا میدان وچ
گو نواز گو
یہ مت سوچئے کہ نعرے کا ردھم بدلا ہو گا۔ پرانے نعرے کو یاد کر کے اسی انداز میں دہرایئے۔ آپ کو ہے جمالو اور گو نواز گو‘ دونوں ایک ہی وزن میں محسوس ہوں گے۔ اوپر فنکاروں کا جو گیت نقل کیا گیا ہے‘ اس میں عوام کی مکمل مایوسی کی کیفیت ظاہرہوتی ہے۔ و ہ موجودہ نظام اور اس کے چلانے والوں سے کوئی امید نہیں رکھتے۔ جمہوریت کے نام کو جس قدر رسوا اور بدنام کر دیا گیا ہے‘ اب یہ لفظ سن کر عوام کو یوں لگتا ہے‘ جیسے چرکا لگا دیا گیا ہو اور پارلیمنٹ کا لفظ سنتے ہی محسوس ہوتا ہے‘ جیسے عوام کو گالی دے دی گئی ہو۔یہی دو لفظ یا اصطلاحیں تھیں‘ جن کے لئے ہمارے عوام نے بے مثال قربانیاں 
پیش کی ہیں‘ لیکن جمہوریت کا کاروبار چلانے والوں نے‘ نسل درنسل اس نظام کی یہ حالت کر دی ہے کہ اس کے لغوی اور روایتی معانی کی جگہ‘ مکمل طور پر عوام کی توہین اور تذلیل کا احساس ہوتا ہے۔ پہلے جب کبھی مختلف سیاسی عناصر اکٹھے ہو کر‘ کوئی متحدہ محاذ بناتے تھے‘ توہم پُرامید ہو کر جبر کے نظام سے نجات کی توقعات لگا بیٹھتے تھے۔ ہمیں یوں لگتا تھا کہ اقتدار پر قابض گروہ ‘ جو ہمارے لئے ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے‘ اب یہ رخصت ہو جائے گا اور اس کی جگہ اچھے لوگ آ جائیں گے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد یہی اچھے لوگ‘ برے لوگ بن جاتے تھے اور ہم پھر ایک مرتبہ ان کے جانے کی دعائیں مانگتے اور انہیں ایوانِ اقتدار سے نکالنے کے لئے نعرے لگاتے۔ ہمارے ساتھ یہ تماشا اتنی بارہو چکاہے کہ اب اسے دہرانے کی ہر کوشش ‘ہمیں اپنے خلاف سازش لگتی ہے۔پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس نے تو سارے پردے اٹھا دیئے۔ دنیا میں کسی پارلیمنٹ کا اتنا طویل اجلاس صرف اس مقصد سے نہیں ہوا کہ عوام جبر‘ ناانصافی اور لوٹ کھسوٹ کے نظام سے جان چھڑانے کے لئے‘ جو جدوجہد کر رہے ہیں‘ اسے ناکام بنایا جائے۔اگر فوج میں عوامی خواہشات کی تسکین کے لئے‘ خیال بھی پیدا ہو‘ تواشاروں کنایوں میں اس کی مذمت کی جائے۔ اتنے طویل اجلاس میں ملک و قوم کے فائدے‘ معاشرتی اصلاح اور عوام کی تکلیفیں دور کرنے کے لئے‘ بحث سے اپنے آپ کو یوں بچایا جائے‘ جیسے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ‘ عوام کی خدمت کرنے کی بجائے انہیں دھتکارنے اور کچلنے کے لئے ووٹ لے کر آئے ہوں۔مفادات کی خاطر‘ ایک ہی صف میں کھڑے ہونے والے یہ محمود و ایاز اب راستے ڈھونڈ رہے ہیں کہ پھر سے ووٹ مانگنے کے لئے‘ اپنے آپ کو الگ الگ کیسے ظاہر کیا جائے؟ اقتداراور مفادات کو محفوظ رکھنے کی خاطر اتحاد پر پردہ کیسے ڈالا جائے؟ مگر اب یہ ہوتا ہوا مشکل لگتا ہے۔ نئے نئے پُرفریب نعرے آئیں گے۔ اپنے آپ کو ایک دوسرے سے الگ ثابت کرنے کے لئے‘ طرح طرح کے نقاب پہنے جائیں گے‘ لیکن عوام کا شعور تیزی سے نکھر رہا ہے۔ یہ لوگ کتنے بھی بھیس بدل کر آئیں‘ عوام انہیں پہچان لیں گے۔ اس سکھ کی طرح‘ جو دکاندار کو دھوکا دے کر‘ ریفریجریٹر خریدنے کی خاطر بار بار بھیس بدلتا رہا۔ دکاندار ہر بار اسے پہچان لیتا۔ آخر سکھ نے عاجز آ کر پوچھا ''میں نے اتنے بھیس بدلے‘ تم ہر بار مجھے پہچان جاتے ہو۔ وجہ کیا ہے؟‘‘ دکاندار نے جواب دیا''کوئی خاص وجہ نہیں۔ تم ہر بار الماری کی طرف اشارہ کر کے پوچھتے ‘ یہ ریفریجریٹر کتنے کا ہے؟ اور میں سمجھ جاتا کہ یہ چالاکی کوئی سکھ ہی لگا سکتا ہے۔‘‘ہمارے نام نہاد رہنما کتنے ہی بھیس بدل کے آئیں؟ اس بار عوام انہیں ضرور پہچان لیں گے۔یہ اس بار بھی طرح طرح کے وعدے کر کے‘ عوام سے ووٹ مانگیں گے اور عوام پہچان لیں گے کہ وہی مداری بھیس بدل کے پھر ووٹ مانگنے آ گئے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved