تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     05-10-2014

پائوں کی جوتی

قصور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ گائوں کے رہائشی اکرام کا تھا جو فلک ناز کی بیٹی کو بھگا کر لے گیا مگر مقامی جرگے نے سزا ملزم کی چھ سالہ کمسن بھتیجی کو سنائی۔ ونی کے طور پر بائیس سالہ بختاور خان کے ساتھ شادی کی سزا ۔ غربت، جہالت اور مقامی رسم و رواج کے ملغوبے سے عدل و انصاف کے ایسے ہی شاہکار فیصلے جنم لیتے ہیں۔
ونی، سوارا، وٹہ سٹہ ایسی جاہلانہ رسمیں ہیں جن کی بنا پر سندھ، خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کی ستم رسیدہ خواتین کے دکھ درد سوا ہیں مرد کے پائوں کی جوتی تو وہ ہمیشہ سے ہیں جنہیں عزت اور غیرت کے الفاظ کا ورد کرنے والے معاشرے میں تمام مرد جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ ماں، بہن ، بیٹی ، بہو اور بیوی ایک برابر۔ مگر ان رسموں نے صنف نازک کی زندگی مزید اجیرن کردی ہے۔ ان رسموں کا آغاز کیسے ہوا‘ کس طرح پروان چڑھیں اور صرف عورت ہی ہمیشہ ان کا نشانہ کیوں بنی؟ ایک طویل داستان اور تاریخ ہے۔ زمانہ بدلا‘ تقاضے بدلے‘ معاشرے کا چلن تبدیل ہوا مگر یہ رسوم و رواج۔ زمیں جنبد‘ نہ جنبد گل محمد۔ 
میانوالی کے نواحی گائوں اباخیل میں چند سال قبل دو خاندانوں کی باہمی رنجشیں ختم کرنے کے لیے آٹھ کمسن بچیوں کو ونی کیا گیا تو پورے ملک میں شور مچا ۔ مختاراں مائی کے واقعہ پر ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ قانون سازی اور سخت سزائوں کا مطالبہ ہوا مگر پھر وہی معاملہ ڈھاک کے تین پات ، ونی اور سوارا کی قبیح رسم ختم ہوئی نہ وٹے سٹے کا رواج۔ معصوم بچیاں بدستور اس رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ اکرام کی بھتیجی اور کلور کوٹ کی سلمیٰ تازہ شکار ہیں۔
جن پسماندہ علاقوں کا میں نے ذکر کیا ہے یہاں کے ریت رواج کے بندھن اور غربت و جہالت کے شکنجے میں بندھے‘ کسے سادہ لوح عوام کے لیے یہ کوئی قابلِ ذکر اور انہونا واقعہ ہے ‘نہ قابلِ نفرت سانحہ ۔ کوئی تحقیقاتی ٹیم جاکر ان علاقوں کا جائزہ لے تو کئی بوڑھے ایک نہیں دو دو بالغ و نابالغ لڑکیوں سے بیاہ رچا چکے ہوں گے۔ باہمی رضا مندی سے یا جرگوں ، پنچائیتوں کے فیصلوں کے تحت۔ یہ شادیاں بالعموم اس عمر میں ہوتی ہیں کہ معصوم و کمسن بچیاں کافی عرصے تک اپنے مجازی خدا کو تایا، چاچا، نانا، دادا پکار کر مار کھاتی ہیں ۔وہ ان رشتوں سے واقف مگر شوہر کے رشتے سے لاعلم ہوتی ہیں اور اپنی معصومیت کے ہاتھوں مجبور۔ خیارالبلوغ کے شرعی اصولوں کے تحت کم عمر بچی کی مرضی کے بغیر نکاح فاسد قرار پاتا ہے مگر یہاں علمائے دین بھی خاموش ہیں اور مذہبی جماعتیں بھی۔ کسی کو شریعت، عزت، ناموس ، غیرت اور پاکیزہ رشتوں کے احترام کی روایت یاد رہتی ہے ۔نہ اپنے پیارے پیغمبرﷺ کے احکامات۔
آپؐ نے فرمایا '' جن والدین نے اپنی بچیوں کی اچھی پرورش کی، تعلیم و تربیت کا حق اچھی طرح سے ادا کیا اور پھر انہیں مناسب گھرانوں میں بیاہا ‘انہیں جنت میں داخلے کی بشارت دیتا ہوں ‘‘ مگر اسلام کے نام لیوا اور عشق مصطفی ﷺ کے دعویدار معاشرے میں ہوتا کیا ہے؟ غربت و جہالت کے سبب بیٹی ماں باپ پر بوجھ ہے اور کہیں کہیں باعث شرم و ندامت ۔ بیٹیاں جگر کا ٹکڑا اور آنکھوں کی ٹھنڈک صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جنہیں خدا نے یہ شعور عطا کیا۔ مالدار، زمیندار ، وڈیرے ، طاقت ، دولت اور اثرو رسوخ کے زور پر غریب ونادار خاندان کی کم عمر خوبرو بچی کو بیاہ لاتے ہیں اور عمر میں تیس چالیس ، بسا اوقات پچاس ساٹھ سال کے فرق کو معیوب نہیں سمجھتے۔
باپ، بھائی، ماموں یا چچا زمین کے تنازع اور کسی کی بہو بیٹی کو چھیڑنے سے روکنے پر جھگڑے میں قتل کر بیٹھے تو یہ غیرت مند مرد اپنی جان بچانے کے لیے بدلے میں اپنی بچی، بھانجی، بھتیجی اور بہن کی بلی چڑھاتا ہے۔ دشمن خاندان میں بیاہی جانے والی عورتوں کو عمر بھر اپنے والدین اور میکے والوں سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے ‘نہ اپنے سسرال میں کسی عزت ‘احترام یا معمول کے انسانی سلوک کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ بسا اوقات تو عورت کنیز اور ملازمہ سے بھی بدتر زندگی بسر کرتی ہے کیونکہ مقتول خاندان کے سبھی مرد و زن اس سے نفرت کرتے ہیں اور اپنے پیارے کی موت کا انتقام اس بدنصیب سے لیتے ہیں جس نے اتفاق سے کسی قاتل خاندان کے گھر میں جنم لیا ۔ شریکِ جرم نہ موقع پر موجود اور نہ رشتے سے انکار کی مجرم۔ جبرو وتشدد کی پھر بھی حقدار۔
عام حالات میں بھی عورت کمائو پوت ہے جو ماں باپ کے گھر میں ہو یا سسرال میں ‘ایک ایسی مشین جو صبح سویرے کے تڑکے چلنے لگتی اور رات گئے کہیں جاکر کمر سیدھی کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ بچوں، بڑوں ، بزرگوں کے علاوہ گھر کے جانوروں کی دیکھ بھال اس کی ذمہ داری ہے۔ صفائی ‘لیپا پوتی اور ایندھن کی فراہمی اس کا فرض اور فصلوں کی بوائی ، کٹائی میں یہ کھیت مزدور ۔ جن علاقوں میں پانی کی کمی ہے خواتین کوسوں دور سے پانی لاکر سب کی پیاس بجھاتی اور جانوروں کے لیے چارہ ا کٹھا کرتی ہیں۔
بعض علاقوں میں پیٹ لکھ کر دینے کا رواج ہے ۔بگڑے ہوئے بدکردار نوجوان لڑائی جھگڑے میں کسی کا خون کر بیٹھیں تو اول اپنی کسی قریبی عزیز بہن ، بیوی، بیٹی کو زبردستی گھر سے لے جاکر موقع واردات پرذبح کردیتے ہیں تاکہ فوری اشتعال اور غیرت کا بہانہ بناکر تھانے کچہری سے چھوٹ جائیں اور اگر بات نہ بنے اور صلح کے عوض رشتہ دینا پڑے، خاندان میں کوئی کنواری خاتون موجود نہ ہو تو پھر اپنی بیوی ، بہن کا پیٹ لکھ کر دیا جاتا ہے کہ اس کے بطن سے جو بھی بچی پیدا ہوگی فلاں لڑکے سے بیاہی جائے گی۔ وٹہ سٹہ میں بھی پیٹ لکھائی کا رواج ہے۔ وٹہ سٹہ کی شادی میں ایک گھرانہ اگر کسی معمولی رنجش یا باہمی ناچاقی پر نباہ نہ کرسکے تو دوسرا ہنستا بستا گھر بھی اجڑ جاتا ہے تاکہ حساب برابر رہے۔ 
ان پسماندہ مگر روایت پرست علاقوں میں عورت کو پسند کی شادی کرنے کا حق ہے نہ کسی رشتہ دار سے سلام دعا کی اجازت۔ کسی عورت کا غیر مرد سے خواہ وہ اس کا تایا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد بھائی ہی کیوں نہ ہو آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرنا سنگین جرم ہے اور بے تکلفی سے ہم کلامی بسا اوقات موت کا پیغام۔ کسی حاسد نے باپ ‘بھائی یا قریبی رشتہ دار کے سامنے لگائی بجھائی کردی تو مرد کو وحشی قاتل بنتے دیر نہیں لگتی کہ اس قبائلی اور جاگیردارانہ سماج میں رشتوں ناتوں کی نہیں رسم و رواج کی اہمیت ہے۔
زمیندار اور پیر گھرانوں میں کام کرنے والی ،ملازمین ، مزارعین اور مریدوں کی بہو بیٹیاں ،ان نوجوان ، صاحبزادگان کے لیے مال غنیمت سمجھی جاتی ہیں جو بالعموم آوارہ گرد ، بھنورے اور علم و شعور سے بے بہرہ ہوتے ہیں ‘البتہ یہ کوئی اصول یا کلیہ نہیں ہر زمیندار اور وڈیرہ ایسا ہے نہ گدی نشین اور مخدوم کا ڈیرہ ایسی آلائشات کی آماجگاہ ‘مستثنیات ہر جگہ اور ہر طبقے میں ہیں۔ 
بلوچ علاقوں میں مرد گدھے ، گھوڑے یا اونٹ پر بیٹھ کر سفر کرتا ہے۔ عورت سواری کے آگے دس بیس کلو وزن، بغل میں بچہ اور پشت پر پانی کا مشکیزہ اٹھا کر چلتی ہے اور بالعموم پائوں سے ننگی ہوتی ہے۔ پنچائیتی فیصلوں میں عموماً تاوان یا جرمانے کے طور پر عورت بطور نقدی و جنس استعمال ہوتی ہے اور اس کم نصیب کو گھر سے یہ کہہ کر رخصت کیاجاتا ہے کہ وہ اپنے پیارے بھائی، شفیق باپ یا عزیز چچا ، تایا کی جان بچانے کے لیے قربانی دے رہی ہے۔ 
ان دنوں سیاسی ، انتخابی ، قانونی اور سماجی اصلاحات کا ہر جگہ چرچا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے شعور کی سطح بلند کی ہے مگر یہ سارا شور شرابا شہروں میں برپا ہے ‘ان جاگیردارانہ ، قبائلی رسوم و رواج کی تبدیلی کا پرچم کسی نے بلند نہیں کیا۔ حقوق نسواں کی تحریکیں اور تنظیمیں نمائشی کام میں مصروف رہتی ہیں اور ہمارے دور کے محمد بن قاسم بھی کسی غریب کی بیٹی سے گینگ ریپ کے بعد ہی موقع پر پہنچ کر مظلوم کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں جبکہ عدالتوں نے ایسے واقعات اور جرگوں، پنچائتوں کے خلاف جو فیصلے دیے ‘وہ صرف قانون کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ 
شور بہت ہے کہ عورت کو برابر کے حقوق مل گئے ہیں۔ شاید سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں شرکت‘ کارپوریٹ سیکٹر کے مفاد میں عورت کی تشہیر اور پارلیمانی ایوانوں میں نمائشی کردار 51 فیصد آبادی کے لیے کافی ہے۔ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی‘ طبقاتی حقوق‘ معاشرے میں عزت و احترام اور برابری کی سطح پر عدل و انصاف عورت کا حق نہیں۔ ورنہ ڈیرہ اسمٰعیل خان اور کلورکوٹ کے شرمناک واقعات کیوں پیش آتے۔ قبیح رسمیں اور فیصلے بدستور جاری ہیں اور عورت بے چاری کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قانون، معاشرہ اور حکومت و ریاست ...کوئی بھی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved