تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-10-2014

ترازو

اللہ کا قانون سب کے لیے وہی ایک ہے... ایک ہی ترازو‘ جو ہمیشہ ہر حال میں پورا تولتا ہے۔ فرمایا: ہم نے پیغمبروں کے ساتھ کتاب اور میزان بھی نازل کی۔ اس کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ 
میچ لمبا ہو گیا۔ عمران خان اپنی زندگی کی بہترین بائولنگ کر رہے ہیں۔ انحصار اس پر ہے کہ میاں نوازشریف وکٹ پر کھڑے رہتے ہیں یا نہیں۔ اب تک وہ رنز نہیں بنا سکے۔ کل رات کی اطلاع مگر یہ ہے کہ بعض اقدامات کا انہوں نے فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ میں تبدیلیاں‘ بلدیاتی الیکشن اور ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ فوج سے مراسم مزید بہتر بنانے کی کوشش بھی۔ 
عمران خان کے جلسے‘ قومی تاریخ کے سب سے بڑے جلسوں سے بھی بڑے ہیں۔ لاہور میں تاریخ رقم کی تھی مگر میانوالی میں جو کچھ ہوا‘ اس کے لیے لفظ کم پڑتے ہیں۔ میاں صاحب نے بہت سا قیمتی وقت گنوا دیا۔ 50 میں سے پہلے پندرہ اوور ضائع۔ بے عملی اور یکسر بے عملی۔ خوش بختی ہے کہ آئوٹ ہونے سے بچ گئے۔ دھرنے کی منصوبہ بندی ورنہ ایسی تھی کہ کلین بولڈ ہو جاتے۔ پارلیمنٹ ان کی پشت پر آ کھڑی ہوئی اور دہشت گردی کے خاتمے کو اولین ترجیح بنانے والے چیف آف آرمی سٹاف نے مداخلت سے انکار کردیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کب تک‘ آخر کب تک؟ 
وزیراعظم آزردہ رہے کہ قوم انہیں بادشاہ کیوں نہیں مانتی؟ فرمایا کرتے کہ ایوان وزیراعظم میں ان کا جی نہیں لگتا۔ فوج سے غیر ضروری محاذ آرائی‘ معروضی حقائق پسِ پشت ڈال کر افغانستان اور بھارت کے ساتھ مراسم میں من مانی کی کوشش کی۔ دہشت گردی پر مخمصے کا شکار رہے‘ حتیٰ کہ عمران خان کو اپنی کشتی میں سوار کرنے کی کوشش کی‘ جو اس معاملے میں موصوف سے بڑھ کر کنفیوژن میں مبتلا ہیں۔ طالبان سے مذاکرات جو کبھی کامیاب نہ ہو سکتے تھے کہ ان کا ایجنڈا اوّل تو اپنا نہیں اور اگر ہے تو وحشت و بربریت کے ساتھ‘ اقتدار کا انبساط۔ عام آدمی کے مسائل کی وزیراعظم کو پروا ہی نہ تھی۔ 
حالات برے تھے مگر امکانات بھی بے شمار۔ ہر بحران میں مواقع چھپے ہوتے ہیں مگر ان کے لیے جو چیلنج قبول کر لیں۔ انہوں نے راہِ فرار اختیار کی۔ سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر لے کر کرشمہ کر دکھانے کی کوشش یا چینی کمپنیوں سے قرض لے کر‘ عمران خان کو وہ سمجھ ہی نہ سکے۔ وہ سادہ لوح آدمی ہے اور اعتبار کر لیتا ہے‘ حتیٰ کہ حریف پربھی‘ اگر وہ نرم دمِ گفتگو ہو۔ اس کا دوسرا پہلو ہولناک ہے۔ اگر توہین کی جائے یا احساس ہو کہ دھوکہ دیا گیا تو وہ انتقام پر تل جاتا ہے۔ اعتماد اس میں بہت ہے بلکہ ضرورت سے زیادہ اعتماد۔ دھاندلی پر اس نے صبر کر لیا تھا اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر آمادہ تھا۔ اپنی پہاڑ سی غلطیوں کو بھلا کر‘ ظفرمندی کے خواب کا وہ اسیر تھا۔ 11 مئی کی صبح احسن رشید سے کہا کہ انتخابی نتائج سنتے ہی شوکت خانم ہسپتال آ جانا کہ جشن منایا جا سکے۔ اپنے بچوں سے لندن میں کہہ آیا تھا کہ اگلی بار‘ وہ وزیراعظم کی حیثیت سے برطانیہ آئے گا۔ نتیجہ نکلا تو صرف اس کی نہیں‘ پارٹی کے تمام بزرجمہروں کی رائے یہ تھی کہ قبول کر لینا چاہیے۔ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ کئی ماہ وہ مخمصے کا شکار رہا۔ پارٹی کو ان دنوں دو تین گھنٹے سے زیادہ وقت نہ دیا کرتا۔ شاطروں نے سمجھ لیا کہ اسے الّو بنانے میں کامیاب رہے۔ یقین دلایا گیا کہ دھاندلی کی تحقیق ہوگی اور اس کے اطمینان کے 
مطابق۔ پھر نادرا کے چیئرمین سے بدسلوکی سمیت جو کچھ ہوا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ فاسٹ بائولر اگر مشتعل نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ 
لیڈروں اور پارٹیوں کی نہیں‘ سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت صورت حال کی ہوتی ہے۔ وقت کے تیور تقدیر الٰہی کے مظہر ہوتے ہیں۔ میاں صاحب اور ان کے ساتھی سمجھ ہی نہ سکے کہ جو مڈل کلاس گزشتہ ڈیڑھ دو عشروں میں پروان چڑھی ہے‘ روایتی پاکستانیوں کی طرح قسمت پہ شاکر رہنے والی وہ ہرگز نہیں۔ 
عمران خان نے احتجاجی جلسوں کا آغاز کیا تو نوازشریف کے اقتدار کا ایک برس پورا ہو چکا تھا۔ امیدیں دم توڑ رہی تھیں اور غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ میاں صاحب کا فرمان یہ تھا کہ ہر چیز کی انہوں نے تیاری کر رکھی ہے۔ ایک تجربہ کار ٹیم ان کے ساتھ ہے اور اوّل روز سے وہ اصلاح اور تبدیلی کا آغاز کردیں گے۔ ان کے بازوئے شمشیر زن میاں محمد شہباز شریف بڑے بھائی سے بھی دو قدم آگے تھے۔ صدر آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور چھ ماہ نہیں تو دو سال میں بجلی بحال کرنے کے اعلانات فرما رہے تھے۔ 
لاہور کے ایک ایڈیٹر صاحب ہیں۔ خوش بیاں‘ چرب دست و تر دماغ۔ جب کبھی ڈھنگ کا کوئی منیجر یا اخبار نویس ان کے ہتھے چڑھتا‘ اس طرح کے سپنے دکھاتے کہ وہ خیالات کا ایک فردوس آباد کر لیتا۔ چند ہفتے بعد ہی اسے اندازہ ہوتا کہ ۔ع 
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا 
پھر شکوہ شروع ہوتا ہے۔ شکایت‘ پھر غیبت‘ حتیٰ کہ تلخی اور بدمزگی۔ خواب بکھرتا تو بدمزگی اور تلخی۔ نوبت جدائی تک پہنچتی اور اذیت کے ساتھ۔ سب سے برا طریق یہی ہے کہ زمینی حقائق بھلا کر توقعات آسمان پر پہنچا دی جائیں۔ عمل کا وقت آئے تو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہو۔ میاں صاحب نے یہی کیا۔ 
کالم کی تنگ دامنی اجازت نہیں دیتی‘ وگرنہ اقبال کے فلسفۂ عشق و عقل پر کچھ عرض کرنے کی کوشش کرتا؛ با ایں ایک پہلو کو انہوں نے خوب روشن کردیا۔ 
روزِ ازل مجھ سے یہ جبرئیل نے کہا 
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول 
جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ زندگی فقط تدبیر پہ بسر کی جاتی ہے‘ آخرکار وہ خاک چاٹتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کی طرح کہ دولت بہت سمیٹ لی مگر پارٹی ہاردی۔ بے بسی کی تصویر‘ اب در در کشکول لیے پھرتے ہیں۔ 
جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی 
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی 
زندگی حکمت کا مطالبہ کرتی ہے مگر اس سے زیادہ خلوص کا۔ سیاستدان اور رہبر تو الگ‘ شاعر اور ادیب بھی وہی بڑا ہوتا ہے‘ جو خود کو تھامے رکھے اور عرق ریزی کر سکے۔ کامل خلوص کے ساتھ۔ افسانہ نگاری بھی پورا آدمی طلب کرتی ہے چہ جائیکہ کہ ادبار میں گھری ایک قوم کی بقا۔ نوازشریف ایک عجیب وزیراعظم ہیں۔ تنہائی اور تفریح‘ لاہور اور لندن... ذاتی کاروبار اور سرخروئی کی تمنا۔ تضادات کا بوجھ اٹھا کر‘ ہم اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتے۔ منزل سے ہمکنار نہیں ہو سکتے۔ آخرکار ڈھے پڑتے ہیں اور نمونۂ عبرت بن جاتے ہیں۔ اہل علم اسی لیے یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی کائنات میں زیاں بہت ہے۔ 
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل 
یہی ہے فصلِ بہاری؟ یہی ہے بادِ مراد؟ 
دھاندلی الگ‘ شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کے معمار عمران خان کو نظرانداز کر کے میاں صاحب پر زیادہ ووٹروں نے اس لیے اعتماد کیا تھا کہ وہ تجربہ کار ہیں۔ کپتان کی غیر ذمہ داری اور مردم ناشناسی کا بھی اس میں دخل تھا۔ اقتدار ملنے کے بعد میاں صاحب نے کیا کیا؟ ایسے ایسوں کی سرپرستی کی کہ خدا کی پناہ۔ پی ٹی وی سے ایک صاحب کو اس قدر معاوضہ ملا اور ایسی شرائط پر کہ کوئی جانچے تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جائے۔ 
جی نہیں‘ کاروبارِ حکومت اس طرح نہیں چلتا۔ اس طرح تو کریانے کی ایک دکان نہیں چل سکتی۔ ان کے پاس یہ آخری موقعہ ہے۔ قوم سے انہیں معذرت کرنی ہوگی۔ ٹیم کی تبدیلی اور کارسرکار میں ہم آہنگی ہی نہیں‘ بلدیاتی الیکشن کی پہل قدمی اور اپنے سارے سیاسی ماضی کا تنقیدی جائزہ۔ 
اگر یہ نہیں تو میاں صاحب کے ساتھ وہی ہوگا جو ہر حکمران کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ اللہ کا قانون سب کے لیے وہی ایک ہے... ایک ہی ترازو‘ جو ہمیشہ ہر حال میں پورا تولتا ہے۔ فرمایا: ہم نے پیغمبروں کے ساتھ کتاب اور میزان بھی نازل کی۔ اس کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved