وہ منہ وکھائی مجھے بھولتی نہیں ہے ۔جنرل محمد ضیاالحق مارشل لانافذ کرنے کے بعد قوم سے پہلی بار مخاطب تھے۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد آیات قرآنی پڑھ کر قوم سے وعدہ کررہے تھے کہ وہ آئندہ 90دنوں میں صاف شفاف انتخابات کرانے کے بعد بیرکوں میں واپس چلے جائیںگے۔جنرل ضیا 11سال تک اس ملک کے سیاہ وسفید کے اکلوتے وارث رہے ،یہ انہی کا دور تھا جب ہم امریکہ اور روس کی جنگ‘ جو افغانستان میں لڑی جارہی تھی‘ میں ایک فریق کے طور پر شامل ہوگئے تھے۔یہ وہ دنیا تھی جس میں امریکہ کے ساتھ روس بھی سپر پاور ہواکرتا تھا ۔جنرل ضیاالحق ہمارے وہ فوجی حکمران تھے جنہوں نے امریکی آشیرواد پر ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ میں جھونک دیا تھا۔ جوں جوں امریکہ نے ہم پر ڈالر نچھاور کئے ہم اس جنگ کے اندر گھستے چلے گئے۔ دہشت گردی کا عذاب سرمایہ دارانہ نظام کی اسی جنگ کی ''اولاد نرینہ‘‘ ہے جس نے ہماری معیشت اور معاشرت کو خاکستر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہماری افواج آج بھی آپریشن ضرب ِعضب کے ذریعے ان قوتوں سے جنگ کرنے میں مصروف ہیں جو افغان جہاد نامی امریکی جنگ میں پیدا ہوگئی تھیں۔ہم 35سال سے اس عذاب کوجھیل رہے ہیں،ہمارا بے پناہ قیمتی وقت اور بے تحاشہ وسائل اس آگ کاایندھن بن گئے ۔کاش ! ایسا نہ ہوتا !
ملک میں اس وقت دو کام ہورہے ہیں (1) عمران خان کے میگا جلسے (2) ''گونواز گو‘‘ کی تحریک بڑی کامیابی سے چلائی جارہی ہے۔عمران خان کے جلسوں میں بندے کہاں سے آرہے ہیںاور ملک میں ''گو نواز گو‘‘ کی جو مہم چلائی جارہی ہے وہ اصلی ہے یا نقلی؟ مجھے اس سے خاص سروکار نہیں‘ میرا مسئلہ عام پاکستانی ہے جو ہر ماہ جب بجلی کا بل وصول کرتاہے تو اسے یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے اس کے ہاتھ موت کاپروانہ تھما دیاگیاہے۔لوڈشیڈنگ کا عذاب جو ایک طویل عرصہ سے ہماراقومی نشان بن گیاہے‘ اس کا پہلا تعارف بھی جنرل محمدضیاالحق کے دور میں ہوا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کلاشنکوف جیسا مہلک ہتھیار ، ہیروئن جیسا موذی نشہ اور لوڈشیڈنگ جیسی معاشرتی لعنت اسی دور کی ''سوغاتیں ‘‘ ہیں۔البتہ یہ درست ہے کہ بعدازاں جنرل مشرف ،زردار ی اور آج نوازشریف دور میں لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ اووربلنگ کو بھی ہمارا مقدر بنا دیا گیاہے۔ جنرل ضیاالحق چاہتے تو وہ اپنے گیارہ سالہ طویل ''آمری سٹارڈم‘‘ کے رعب اور دھونس سے کالاباغ ڈیم بناسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کو ہی دوام بخشا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا سہرا ہم اپنے جن محسنوں کے سر باندھتے ہیں جنرل ضیا الحق ان میں شامل ہیں۔جنرل ضیاالحق نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے پہلے سے جاری منصوبے کو کامیابی سے آگے بڑھایا ،علاوہ ازیں جنرل ضیانے افغان جہاد میں ایک فریق کے طور پر شریک ہونے کا مشکل ترین فیصلہ تن تنہا کیا تھا اگروہ قوم کے وسیع تر مفاد کے لئے کالا باغ ڈیم بنانے کا فیصلہ بھی کرلیتے تو یہ ان کا ہماری زندگیوں پر احسان ہوتا۔
مگر افسوس ایسا نہ کیاگیا۔
جنرل ضیاکے گیارہ سالہ تاریک دور کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو عوام کا بھاری مینڈیٹ لے کر وطن واپس آئیں مگر اسٹیبلشمنٹ نے بی بی کو اسحاق خان بطور صدر اور میاں نوازشریف وزیر اعلیٰ پنجاب کی صورت میں ''دوعدد تحفے‘‘ عطا فرمائے۔ لگ بھگ 10سال کے اس عرصے میں وہی کچھ ہوا جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی ۔ان چالوں سے سیاست، سیاستدان اورجمہوریت تو بے توقیرہوئی لیکن عوام کی زندگیاں بھی سونی ہوگئیں۔مجیدا مجد نے زندگیوںکے ویران صحن میں قبروں کے کھلتے دروازوں کا ذکر یوں کیاتھا:
پیلے چہرے‘ ڈوبتے سورج! روحیں‘ گہری شامیں!
زندگیوں کے صحن میں کھلتے‘ قبروں کے دروازے!
جو راستہ ہمیں دکھایاگیاتھااس پر چلتے ہوئے ہم یہیں تک پہنچ سکے ہیں۔ ہماری افواج دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑرہی ہیں،اس جنگ کو لڑتے ہوئے ہمارا انفراسٹرکچر تباہ ہواہے، ہماری معیشت برباد ہوئی ہے،فارن انویسٹرز تو اپنی جانیں بچا کر ملک سے بھاگ گئے ہمارے اپنے شہری بھی اپنا مستقبل بچانے کی غرض سے پُر امن اورخوشحال ممالک کا رخ کئے ہوئے ہیں۔ہم برین ڈرین کا بھی شکار ہیں،پڑھے لکھے ،باصلاحیت اورہنرمند لوگ اپنا ملک ہمیشہ کیلئے چھوڑ رہے ہیں۔ایسے ماحول میں ہمارے ہاں ایک بار پھر ''تبدیلی ‘‘ کا نعرہ لگایاجارہاہے۔یہ نعرہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ کراچی، لاہور اورمیانوالی میں عمران نے بہت بڑے جلسے کئے ہیں۔لاہور کے جلسے میں عمران سمیت پی ٹی آئی کے لیڈروں کا کہنا
تھاکہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ لاہوری اتنی بڑی تعداد میں منٹو پارک میں اکٹھے ہوئے ہیں۔یہ بات بالکل درست نہیں ہے۔لوگ اس سے قبل بھی کئی بار اکٹھے ہوتے رہے مگر ان کی قسمت نہیں بدلی ۔آج سے 74سال پہلے 23مارچ 1940ء کے دن قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے منٹوپارک میں ہی جلسہ کیاتھا جسے تاریخ میں قرارداد پاکستان کے نام سے یاد رکھاگیاہے ، جس میں اس وقت ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی۔اس وقت لاہور کی آبادی آج کے شہر کی نسبت کم از کم 74گنا ہی کم تھی۔ 10لاکھ لوگوں سے کہیں بڑا مجمع تو منٹو پارک میں 10اپریل 1986ء میں بھی اکٹھا کرلیا گیا تھا جب جنرل ضیاالحق کے دور میں بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے وطن لوٹی تھیں۔اس وقت لاہور کی آبادی 60لاکھ سے بھی کم تھی۔ آج 28 سال بعد منٹو پارک میں اتنا بڑا جلسہ کرنا اگرچہ بڑی بات ہے مگر ایسا کہنادرست نہیںکہ یہ چمتکار پہلی بار ہواہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کے لاہورکے جناتی جلسے کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے صرف 50ہزار کا مجمع قراردیاتھا۔
عمران خان گزشتہ کئی دنوں سے کنٹینر پر چڑھے ہوئے ہیں،وہ اکثرعینک لگا کر حکومت کے خلاف چارج شیٹ سناتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ''اگر 500افراد کا احتساب کرلیاجائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔عمران خان سچ بولتے ہیں مگر وہ پورا سچ نہیںبولتے۔ 500افراد کا احتساب کرنے سے سب کچھ ٹھیک نہیں ہوگا،سب کچھ ٹھیک کرنے کے لئے سب کو ٹھیک کرنا ہوگابلکہ ہم سب کو ٹھیک ہونا پڑے گا۔اس نوجوان کو جو ٹریفک کی سرخ بتی پر رکنے کے بجائے اسے توڑنا اپنے لئے ایک ایڈونچر اور ایک کھیل سمجھتا ہے اور اسے بھی جو آئین توڑ کر گیارہ گیارہ اورآٹھ آٹھ سال اس ملک پر حکومت تو کرتے ہیں مگر کالا باغ ڈیم نہیں بناتے۔عمران خان ہر شام ججوں ، اساتذہ اور پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں توبڑھاتے ہیں،مگر آئین توڑنے والوں کی بات نہیں کرتے کہ وہ آئین توڑ کر اپنی کون سی علت کو تسکین پہنچاتے ہیں؟ جج، استاد اور پولیس اہلکار ایک صحت مند معاشرے میں اہم ہوتے ہیں ، کیاڈاکٹر، انجینئراور سائنسدان ہمیں نظر انداز کردینے چاہئیں؟ معاشرے میں صرف جج ،استاد ، پولیس اہلکار ، ڈاکٹر اور سائنسدان ہی نہیں ہوتے، دیگر افراد اور طبقات بھی ہوتے ہیں جن میں معاشرتی ہارمنی اور بھائی چارہ پیدا کرنا بہت اہم ہے۔ عمران تو کہتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کا درس اقبال ؒ سے لیا ہے مگر علامہ تو کسی کو نظر انداز نہیں کرتے۔ ان کا تو کہنا ہے کہ ''ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘۔لہٰذ ا عمران کو اپنی ترجیجات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ملک میں مڈٹرم الیکشن کا بگل بجادیاگیاہے۔ 2013ء کے انتخابات پر قوم کے 24ارب روپے خرچ کردئیے گئے تھے،عوام کے خون پسینے کی کمائی سے لائی گئی جمہوری حکومت نے اووربلنگ کی صورت میں 70سے 75ارب روپے وصول کئے ہیں اور اب نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے جن مڈٹرم الیکشن کو لازمی قراردے دیاگیاہے‘ اس کے لئے 30ارب روپے مزید درکار ہوں گے۔عوام کو نئے ٹیکسوں والے زیر ومیٹر حکمران مبارک ہوں۔ نئے پاکستان میں لوڈشیڈنگ کے اوقات کار کیاہواکریں گے ؟ نیز اووربلنگ کے نرخ کیاطے پائیں گے۔ ایڈوانس پوچھ لیاجائے تو کوئی ہرج نہیں! اہل وطن کو حج اکبر اور عیدالاضحی دونوں مبارک ہوں۔