تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-10-2014

سرخیاں ‘متن اور ٹوٹے

بلاول 18اکتوبرکو اپنی والدہ کا 
مشن شروع کریں گے...گیلانی
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''بلاول 18اکتوبرکو اپنی والدہ کا مشن شروع کریں گے‘‘ اور اس کی کامیابی اس لیے بھی یقینی ہے کہ یہ مشن وہ خاکسار ،منظور وٹو‘رحمن ملک اور امین فہیم وغیرہ کی سرپرستی میں شروع کریں گے جن کی نیک نامی کے ڈنکے چار دانگ عالم میں بج چکے ہیں ،بلکہ اب تک بج رہے ہیں‘ بلکہ یہ دراصل ہم لوگوں ہی کا مشن ہو گا تاکہ جو کسر رہ گئی ہے وہ بھی پوری کی جا سکے اور بلاول کو بھی اسی نیک راستے پر چلانے کی کوشش کی جائے گی ،جو ان کے والد صاحب کے مشن کے سراسر مطابق ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ ''وزیر اعظم ہوتا تو کہتا عمران آئو عہدہ سنبھالو اور ملک چلائو‘‘ یہ الگ بات ہے کہ وزیر اعظم ہوتا تو اس کام پر لگا رہتا جو ہم سب مل جل کر کر رہے تھے‘لیکن ہمارا چھابہ ہی الٹا کر رکھ دیاگیا۔انہوں نے کہا کہ ''ملک چلانا آسان نہیں ہے‘‘ ماسوائے اس کے کہ جملہ فریق ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر اسے چلائیں تاکہ کسی کو اعتراض کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔آپ اگلے روز ملتان میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عوام نے دھرنا دینے والوں 
کو مسترد کر دیا ہے...حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی میاں حمزہ شہباز
شریف نے کہا ہے کہ ''عوام نے دھرنا دینے والوں کو مسترد کر دیا ہے‘‘ اورہر جگہ گو نواز گو کے نعروں سے حکومت کا بول بالا ہو رہا ہے حتیٰ کہ آج ان لوگوں نے والد صاحب کے رنگ میں بھی بھنگ ڈالنے کی کوشش اور انہیں اپنی تقریر ادھوری چھوڑ کر آنا پڑا۔انہوں نے کہا کہ ''ان کی سیاست ختم ہو گئی ہے‘‘ اور ان کے جلسوں میں شریک ہو کر عوام انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ انہیں سیاست کی بجائے اب کوئی اورکام کرنا چاہیے جبکہ اس کا مشورہ انہیں ہم بھی دے سکتے ہیں کیونکہ ہم نے ماشاء اللہ کوئی کام چھوڑا ہی نہیں بلکہ اکثر کاموں میں اجارہ بھی قائم ہو چکا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ''دھرنوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے‘‘ حتیٰ کہ اس میدان میں وہ ہم سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں وہ بری طرح ناکام ہوں گے اور وہ ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔آپ اگلے دن لاہور میں تہمینہ دولتانہ ایم این اے اور رکن پنجاب اسمبلی میاں عرفان دولتانہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
عمران خان کی متوقع ناکامی
عمران خان کے بظاہر ہمدرد کچھ حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ عمران خان حکومت میں آ بھی گئے تو بُری طرح ناکام ہوں گے کیونکہ انہیں اس سلسلے میں کوئی تجربہ ہی حاصل نہیں ہے۔اس ضمن میں پہلی گزارش یہ ہے کہ جب میاں نواز شریف پہلی بار اقتدار میں آئے تھے یا لائے گئے تھے‘انہیں اس وقت حکومت چلانے کا کس قدر تجربہ حاصل تھا ۔دوسری یہ کہ عمران خاں کی حکومت صحیح معنوں میں ایک جمہوری حکومت ہو گی جس میں سارے فیصلے اجتماعی طور پر پارٹی کیا کرے گی اور موجودہ حکومت کی طرح شخصی نہیں ہو گی ،جو بادشاہت کے قریب قریب پہنچ چکی ہے اور یہ بات رپورٹ بھی ہو چکی ہے کہ بعض نواز لیگی ارکان اسمبلی یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ہم عمران خان کے دلی طور پر مشکور و ممنون ہیں جن کے طفیل میاں برادران نہ صرف ہماری بات سننے لگے ہیں بلکہ ہمارے مسائل میں بھی دلچسپی لینے لگے ہیں جبکہ اس سے پہلے تو ہمیں گھاس ہی نہیں ڈالی جاتی تھی اور کئی کئی مہینے ہمیں ان سے ملاقات کے لیے وقت ہی نہیں دیا جاتا تھا۔علاوہ ازیں‘ حکومت کے کاموں میں رکاوٹ کی اصل وجہ بیوروکریسی ہے جس پر عمران خان نہ صرف اندھا اعتماد کریں گے بلکہ اسے کس کر بھی رکھیں گے۔اس لیے ان حضرات کو اس غم میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
گلو بٹ کا نیا روپ
گلو بٹ صاحب کو نہ صرف موبائل فون کے ذریعے جیل سے لوگوں کے ساتھ رابطہ کرتے دکھایا گیا ہے بلکہ ان کا کھانا بھی گھر سے آتا رہا ہے‘ اس لیے کہ وہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ پولیس کا ٹائوٹ ہے اور حوالات میں اسے ہر طرح کی وی آئی پی سہولیات حاصل رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جیل اتھارٹیز بھی پولیس سے کچھ زیادہ مختلف محکمہ نہیں ہے۔ اگر ایک ٹائوٹ کے لیے قانون میں اتنی لچک پیدا کی جا سکتی ہے تو اس حوالے سے حکمرانوں کی صورت حال کا اندازہ بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے جن کے خلاف اگرچہ قتل وغیرہ کے تین تین پرچے درج ہو چکے ہیں اور ان میں ابھی تک کوئی پیش رفت بھی نہیں ہوئی اور اگر انصاف کا یہی عالم ہے تو عمران خان کی اس بات کو کیونکر نظر انداز کیا جاتا ہے کہ دھاندلی کے ضمن میں اگر کوئی کمیشن بن بھی جاتا ہے تو ان حالات میں اس سے انصاف کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔دوسری درخشندہ مثال یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے سلسلے میں جو جوڈیشل کمیشن حکومت نے خود بنایا تھا ، اس کی رپورٹ کو کس ڈھٹائی سے چھپایا جا رہا ہے‘حالانکہ اس کے مندرجات ٹی وی سکرین پر بھی دکھائے جا چکے ہیں!
صادق اور امین!
یادش بخیر‘ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ایک رکن اسمبلی کی اس درخواست پر کہ وزیر اعظم صادق اور امین ہونے کی شرط پوری نہیں کرتے اس لیے وہ وزیر اعظم رہنے کے اہل نہیں ہیں‘یہ قرار دیتے ہوئے وہ درخواست خارج کر دی ہے کہ وزیر اعظم مکمل طور پر صادق اور امین ہیں۔یہ فیصلہ بالکل درست ہے کیونکہ جہاں تک صادق ہونے کا تعلق ہے تو صاحبِ موصوف پہلے تو اس الزام کی مسلسل تردید کرتے رہے کہ وہ جنرل مشرف سے دس سالہ معاہدہ کر کے سعودیہ گئے تھے، پھر ان کے جذبہ صداقت نے زورمارا تو انہوں نے بیان دیا کہ دس سال نہیں بلکہ پانچ سال کا معاہدہ ہوا تھا،لیکن ایک سعودی شہزادے نے یہ کہہ کر اس صداقت کا پول کھول دیا کہ معاہدہ دس سال ہی کا تھا۔ان کی شان صداقت کا تازہ ترین مظہر پارلیمنٹ میں وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت نے آرمی چیف سے مدد کی کوئی درخواست نہیں کی تھی جس کا بھانڈہ آئی ایس پی آر نے پھوڑ دیا۔اور ‘ امین ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ملک عزیز کی دولت کا ایک قابل ذکر حصہ انہوں نے امانت کے طور پر ملک سے باہر بھجوا رکھا ہے!
آج کا مقطع 
سوچا نہیں کرتے ہیں، ظفرؔ، ڈوبنے والے 
پانی اگر اتنا ہے تو گہرائی بھی ہو گی 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved