سالانہ پارٹی کانفرنس برطانوی سیاست میں ایک اہم واقعہ سمجھی جاتی ہے۔ دو دن پر محیط اس کانفرنس میں پارٹی کے اہم رہنما ملک بھر سے آئے ہوئے پارٹی کے حامیوں سے خطاب کرتے ہیں۔پارٹی قیادت کی طرف سے اقتدار کے حصول یا اس کو برقرار رکھنے کے لیے طے کی جانے والی حکمتِ عملی پر تقریریں کی جاتی ہیں۔مختصر یہ کہ یہ انتہائی اُکتا دینے والی کانفرنس ہوتی ہے ۔ لہٰذا پارٹی سے وابستہ اور وہاں موجود مٹھی بھر افراد اور سیاسی ناقدین کے سواکوئی بھی اس میں دلچسپی نہیں لیتا۔
تاہم یہ کانفرنس اُس وقت دلچسپ ہوجاتی ہے جب قومی انتخابات بمشکل چھ ماہ کی دُوری پرہوں۔ کئی عشروںسے برطانیہ میں دوجماعتی نظام کام کررہا تھا۔۔۔اس میں لیبر اور کنزرویٹو پارٹیاں ''باریاں ‘‘لیتے ہوئے حکومت بنارہی تھیں۔ تاہم 2010 ء میں طے شدہ سیاسی معروضات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی جب معلق برطانوی پارلیمنٹ میں کنزرویٹو اور لبرل ڈیموکریٹس کے درمیان مخلوط حکومت دیکھنے میں آئی۔ برطانیہ میں ایسے اشتراک ِ اقتدار کی کوئی مثال دیکھنے میں نہیں آئی تھی ، اس لیے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی خدشہ تھا کہ مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوںکے درمیان ساجھے داری دیر تک نہیں چل پائے گی اوربہت جلد حکومت گرجائے گی۔ تاہم ایسا نہ ہوا۔گاہے گاہے پیدا ہونے والے تنائو اوربے چینی کے باجود مخلوط حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہے۔ برطانیہ میں تازہ عام انتخابات مئی 2015 ء میں متوقع ہیں۔ سیاسی مفاہمت کے تجربے نے ٹوریز سے زیادہ لبرل ڈیموکریٹس کو نقصان پہنچایا۔ نک کلگ (لبرل ڈیموکریٹس پارٹی سے تعلق رکھنے والے برطانیہ کے نائب وزیر ِ اعظم) کو اس اشتراک ِ اقتدار سے خاص کر ذاتی طور پر نقصان پہنچا۔ شواہد بتارہے ہیں کہ اگلے انتخابات میں ان کی جماعت کو اس مفاہمت کی قیمت چکانی پڑے گی۔
درحقیقت گزشتہ پانچ برسوںکے دوران برطانوی سیاست منظر نامے میں بہت سی تبدیلیاںسرایت کرچکی ہیں۔ اس میں سب سے بڑی کامیابی نیگل فارج (Nigel Farage) ، جو انتہا ئی پرکشش اور سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں، کی Ukip (یونائیٹڈ کنگڈم انڈی پنڈنٹ پارٹی) کو ملی۔ مشرقی یورپ سے بلاروک ٹوک آنے والے تارکین ِ وطن سے پیدا ہونے والے خطرے کو ابھارتے ہوئے مسٹر فارج نے ٹوریز کی صفوں کو برہم کردیا۔ اب تک کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو ارکان ِ پارلیمنٹ Ukip میں شامل ہوچکے ہیں۔ برطانوی انتخابی قوانین کے مطابق وفاداری تبدیل کرنے والے رکن کو اپنی نشست سے استعفیٰ دیتے ہوئے نئی جماعت کے ٹکٹ سے ضمنی انتخاب لڑنا ہوتا ہے۔ چنانچہ ان دونوں اراکین نے استعفیٰ دے کر Ukip کے ٹکٹ سے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔
اگلے سال انتخابات میں Ukip سے سخت مقابلے کی توقع نے ٹوریز کی نیند حرام کردی ہے۔ پارٹی کے بہت سے روایتی حامی بھی ڈیوڈ کیمرون کی یورپی یونین کے ساتھ جڑے رہنے کی پالیسی سے ناراض دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ یورپی یونین کی رکنیت رکھتے ہوئے برطانوی شہری کہیں بھی سفر کرنے کے لیے آزاد ہیں لیکن اس کی وجہ سے مشرقی یورپ سے آنے والے تارکین ِوطن کے آنے سے برطانوی معاشرے پر دبائو میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔ شہری علاقوں میں رہنے والے مزدور پیشہ افراد ان تارکین ِوطن، جو کم
تنخواہوں پر کام کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ، کی آمد سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ برطانوی معاشرے میں یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ مشرقی یورپ سے آنے والوںکو نہ صرف ملازمتوں بلکہ شہری سہولیات میں بھی حصہ دینا پڑے گا ۔ مسٹر فارج ان ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسری طرف لیبر پارٹی ، جو یورپی یونین کی حامی ہے، اپنے ووٹروںکو بتارہی ہے کہ اس کی رکنیت کے کیا فوائد ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مسٹر فارج کے دلائل زیادہ متاثر کن ہیں۔ چنانچہ توقع ہے کہ اگلے سال Ukip زیادہ ووٹروں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
بدقسمتی سے لیبر پارٹی کی ابتلا یہی تک ہی محدود نہیں۔ سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں مسٹر برائون نے آگے بڑھ کر ''نہیں ‘‘ کی مہم چلائی تھی۔ اس کی وجہ سے لیبر پارٹی کو سکاٹ لینڈ، جہاںگزشتہ انتخابات میں اس نے چالیس نشستیں جیتی تھیں، میں سکاٹش نیشنل پارٹی کے ہاتھوں شکست کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس کے علاوہ لیبر پارٹی کوشخصیت کے بحران کا بھی سامنا ہے ، جس کی وجہ اس کے رہنما ایڈ ملی بینڈ ہیں۔ کیے گئے پول سروے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ عوامی مقبولیت میں مسٹر کیمرون سے کہیںپیچھے ہیں۔ بلکہ نک کلگ بھی مقبولیت میںان سے آگے ہیں۔ اگرچہ مسٹر ایڈ ملی بینڈ برطانوی سیاست کے انتہائی ذہین سیاست دانوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں، لیکن وہ مزاح، شگفتگی اور لطیف انسانی جذبات سے محروم ہونے کی وجہ سے عوامی مقبولیت کی دوڑ میں پیچھے ہیں۔ اگرچہ لیبر پارٹی کی اپنی مقبولیت قائم ہے لیکن انتخابی سیاست میں ملی بینڈ پارٹی پر ایک بوجھ کی طرح ہیں۔
لیبر پارٹی کا ایک کمزور پہلو یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں کنزرویٹوز کو بہتر معاشی مینیجر سمجھا جاتا ہے۔ اس تاثر کو مزید تقویت ملی بینڈ کی کانفرنس میں کی جانے والی تقریر سے ملی ‘جب اُنھوں نے خسارے پر قابوپانے کے لیے احمقانہ تصور پیش کیا۔ چونکہ یہ موضوع اُنھوں نے کسی تیاری اور ضروری نوٹسز کے بغیر چھیڑ لیا تھا، اس لیے اُنہیں بہت جلد اس سے جان چھڑا کر آگے بڑھنا پڑا لیکن اس کا نقصان ہو چکا تھا اور ان کے حریفوںنے ان پر کاری ضرب لگانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ مزید ستم یہ ہوا کہ ملی بینڈ اپنی تقریر میں تارکین ِوطن کے معاملے پر بات کرنا بھول گئے۔ اس اہم موقع پر ان کی یادداشت کے غچے کو ان کے حامی بھی معاف نہیں کریںگے۔
آنے والے مئی میں کیا ہوگا؟ایک بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ کوئی جماعت بھی واضح اکثریت لینے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ تاہم دوتہائی رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ آئند مخلوط حکومت نہیں چاہتے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لبرل ڈیمو کریٹس کودونوں اہم جماعتیں کتنا ناپسند کرتی ہیں، لیکن اُنہیں احساس ہے کہ اُنہیں نک کلگ سے ڈیل کرنا پڑے گی۔ تارکین ِوطن کے بہائو کی مخالفت کرنے والے ٹوری ووٹروںکے لیے Ukip کے ایجنڈے میں بہت کشش ہے۔ بہت سی نشستیں جو پہلے بلاشرکت ِ غیرے کنزرویٹو پارٹی کی سمجھی جاتی تھیں، اب ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے لیبر پارٹی کے ہاتھ جاسکتی ہیں۔ اس طرح ٹوریز کے نزدیک فارج ووٹ تقسیم کرتے ہوئے لیبر پارٹی کی راہ بھی ہموار کرسکتے ہیں۔ اس کا اظہار مسٹر کیمرون نے کانفر نس میں تقریر کرتے ہوئے روایتی شگفتہ انداز میں اس طرح کیا ۔۔۔''خدشہ ہے کہ آپ رات کو فارج کے بستر پر سوئیں لیکن جب صبح آنکھ کھلے تو آپ ملی بینڈ کے بستر پر ہوں۔‘‘
سکاٹ لینڈ کی علیحدگی پر ہونے والے ریفرنڈم سے پیدا ہونے والا ایک سوال انگلینڈ کی مرکزی طاقت کو تحلیل کرتے ہوئے شہروں اور کونسلوں کو مرحلہ وار زیادہ بااختیار بنانا ہے۔ جب ریفرنڈم کے موقع پر برطانوی سیاست دانوں کی نیند یں حرام ہوچکی تھیں تو اُنھوںنے وعدہ کیا تھا کہ وہ سکاٹ لینڈ کو زیادہ اختیارات منتقل کردیںگے لیکن اس سے مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ اب انگلینڈ کے سیاست دان بھی مرکز سے یہی مطالبہ کررہے ہیں۔اس سے ایک اہم بحث چھڑ جانے کا خدشہ ہے جس سے سکاٹ لینڈ کو اختیارات منتقل کے عمل میں تاخیر ہو جائے گی۔ اس سے یہ تاثر گہرا ہو جائے گا کہ آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو جھوٹے وعدے کرکے دھوکہ دیا گیا۔ اس سے لندن کا استیصالی کردار مزید اجاگر ہوجائے گا اور مستقبل میں بھی علیحدگی کی توانا آوازیں اٹھیںگی۔ چنانچہ اگلے انتخابات میں برطانیہ کا سیاسی وجود اور اس کی یورپی یونین کی رکنیت اہم سوالات بن کر ابھریںگے۔ لیبر اور ٹوریز کے علاوہ تین نئے کھلاڑی، لیبرل ڈیموکریٹس، ایس این پی اور Ukip بھی میدان میں ہوںگے۔ برطانوی ووٹر پسند کریں یا نہ کریں، اگلی حکومت، چاہے لیبر کی ہو یا کنزرویٹو کی، مخلوط ہی ہوگی۔