تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     06-10-2014

یہ دن تو وہی کل سا دوبارہ نکل آیا

ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں تبدیلی تو آئی ہے مگر سیاسی وفاداریوں کا مجموعی کلچر سو فیصد ویسا کا ویسا ہے۔تبدیلی یہ آئی ہے کہ تحریک انصاف کی بدولت نیا ووٹر پولنگ سٹیشن آیا ہے ۔ نوجوان خصوصاً اس تبدیلی کا بنیادی ماخذ ہیں۔ایسا ایسا شخص پولنگ سٹیشن پر نظر آیا جس کے بارے میں کبھی گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلے گا اور قطار میں لگے گا۔ نوجوان‘تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے پورے پورے خاندان۔ان کو انتخابی سیاست میں لانے کا سہرا عمران خان کے سر ہے۔سب سے حیران کن بات ''برگر‘‘ گروپ کو متحرک کرنا تھا۔الیکشن میں ممی ڈیڈی کلاس کے نوجوانوں کا شامل ہونا تو باقاعدہ محیر العقول قسم کی بات تھی مگر یہ ہوئی۔یہ پاکستان کی سیاست میں 1971ء کے بعد پہلی نمایاں تبدیلی تھی۔
ایک عرصے سے سیاسی ورکروں کی وفاداریاں ''وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے‘‘ کے بنیادی نظریے پر قائم تھیں۔ جیالا پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو والی پیپلز پارٹی ہو‘بے نظیر بھٹو والی ہو یا حتیٰ کہ آصف علی زرداری والی ہی کیوں نہ ہو۔جیالا تن من دھن سے بلا سوچے سمجھے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے۔زیادہ ناراض ہوا تو صرف یہ کیا کہ گھر سے نہیں نکلا۔ووٹ نہیں ڈالا۔ اوربس۔بھٹو کی سالگرہ ہوئی تو بن بلائے جا پہنچا۔لیڈر آیا تو نعرے لگانے ایئر پورٹ پہنچ گیا۔ذلیل ورسوا بھی ہوا تو بے لوث وفاداری سے تائب نہیں ہوا۔یہی حال متوالے کا ہے۔میاں صاحب کا عشق صادق۔ میاں صاحب کبھی زندگی میں اس سے ہاتھ نہ ملائیں۔کبھی حال نہ پوچھیں ۔کبھی ملنے کا وقت نہ دیں۔کبھی اس کی بہتری کی طرف نظر نہ ڈالیں مگر متوالا ہر حال میں صرف متوالا ہے۔
ایسی صورتحال میں ہمارے ہاں سیاسی ورکرز بہت کم پارٹیاں بدلتے ہیں۔ہاں کچھ سیاسی ورکروں کے گروہ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے علاقائی مسائل کی وجہ سے کسی لیڈر سے جُڑے ہوتے ہیں۔ جب وہ لیڈر پارٹی بدلتا ہے وہ ورکر بھی اس کے ساتھ اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ مگر یہ والے ورکر جیالے یا متوالے نہیں ہوتے۔یہ اپنے لیڈر کے زرخرید ہوتے ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ والی ورکروں کی قبیل بھی وفادار ہوتی ہے۔اپنے مقامی لیڈر کے ساتھ وفادار۔یہ پارٹیاں ضروربدلتے ہیں مگر اپنا لیڈر نہیں بدلتے۔ تحریک انصاف نے ایک سیاسی کامیابی تو یہ حاصل کی کہ اس نے اس سیاسی ماحول میں‘ جس میں سیاسی کارکن وفاداری سے کہیں بڑھ کر اندھی تقلید کی بیماری میں مبتلا ہیں‘ جسے میں سیاسی غلامی کہتا ہوں‘ اپنے لیے نئی سیاسی ورکروں کی کھیپ پیدا کی۔اس کے ووٹروں کی اکثریت نئے ووٹروں پر مشتمل تھی اور بقیہ موجودہ سیاسی نظام سے مایوس نوجوانوں سے تعلق رکھتی تھی۔
ہمارے ہاں سیاسی وفاداری سیاسی غلامی جیسی چیز ہے اور سیاسی ورکر دراصل سیاسی غلام زادگان ہیں۔عقل و خرد سے عاری‘ ذاتی طور پرسوچنے سے محروم اور اپنی اپنی لیڈر شپ کے اندھے مقلد۔ سوئس بنکوں میں بے نظیر بھٹو کے کروڑوں روپے والے ہیروں کے کسی نیکلس کی آواز گونجی۔ سب جیالوں کو سانپ سونگھ گیا۔کسی کو جرأت نہ ہوئی‘ کہ وہ پوچھے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔سب یک زبان ہو کر کہنے لگے کہ بہتان ہے‘ جھوٹ ہے اور الزام ہے۔اسی دوران بی بی نے بھی اس قسم کے کسی نیکلس سے اعلان لاتعلقی کر دیا۔اب تو آپ کچھ پوچھیں ہی نہ۔جیالوں نے ایسا شور و غوغا کیا کہ الامان۔ سب گلے پھاڑ کر پکارنے لگے کہ یہ ہماری لیڈر پر الزام ہے۔بدنام کرنے کی سازش ہے۔بھٹو خاندان کی عزت و آبرو کو مشکوک کرنے کی عالمی سازش ہے۔غرض کوئی جیالا مان ہی نہیں رہا تھا کہ یہ نیکلس بے نظیر بھٹو کا ہو سکتا ہے۔پھر یوں ہوا کہ سوئس عدالت میں اس نیکلس کے بارے میں ثابت ہو گیا کہ یہ بے نظیر بھٹو کی ملکیت ہے۔ اب بے نظیر بھٹو نے بیان جاری کیا کہ ہاں یہ نیکلس میرا ہے۔میں تین پشتوں سے وزیر اعظم ہوں۔ کیا میں ایک نیکلس نہیں خرید سکتی؟ سارے جیالے قومی ترانے کی مانند میں کورس گانے لگ گئے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو تین پشتوں سے وزیر اعظم ہیں کیا وہ ایک نیکلس نہیں خرید سکتیں؟ کسی جیالے نے یہ نہیں پوچھا کہ بی بی آپ تین پشتوں سے یقینا وزیر اعظم ہیں مگر آپ نے یہ بات پہلے کیوں نہیں کہی؟آپ نے اس نیکلس کی ملکیت سے پہلے کیوں انکار کیا تھا؟آپ نے اس کی ملکیت کا پہلے اقرار کیوں نہیں کیا؟آپ نے ہمیں پہلے حقیقت حال سے کیوں آگاہ نہیں کیا؟آپ نے ہمیں پہلے کیوں بے وقوف بنایا؟جو بات آپ آج کہہ رہی ہیں پہلے کیوں نہیں بتائی؟سیاسی غلام زادے ایسے سوالات نہیں کیا کرتے۔
میاں صاحب ایک دن خاموشی سے اپنے سو صندوق اور صدیق مالشی کو لے کر بمعہ خاندان جدہ چلے گئے ۔ایک دن پہلے تک وہ فرماتے رہے کہ میں کہیں نہیں جا رہا اور اچانک سرور پیلس جا کر بیٹھ گئے۔کسی نے سوال نہیں کیا کہ آپ کل تک کیا کہہ رہے تھے اور آج آپ نے کیا کیا ہے؟پھر وہاں جا کر فرمایا کہ میں کسی معاہدے کے تحت نہیں آیا۔سارے متوالے رولا ڈالنے لگ گئے کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا‘ کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ پھر اچانک چند سال بعد میاں صاحب پاکستان آئے تو انہیں بستر بند کی طرح لپیٹ کر واپس بھجوا دیا گیا کہ وہ طے شدہ معاہدے کے تحت دس سال سے پہلے واپس نہیں آ سکتے۔ اب میاں صاحب نے پینترا بدلا اور فرمانے لگے کہ معاہدہ توپانچ سال کا تھا مگر پھر دس سال کا ہو گیا۔ مگر یہ سب زبانی تھا تحریری نہیں تھا۔ متوالا تب بھی اسی بات پر ایمان رکھتا تھا کہ معاہدہ وغیرہ کچھ نہیں تھا۔ پھر یوں ہوا کہ معاہدہ سامنے آ گیا۔ضامنوں کا پتہ چل گیا۔ دس سال کی مدت بھی سامنے آ گئی۔ کسی مائی کے لعل نے سوال نہیں کیا کہ ہمیں برسوں احمق اور بے وقوف کیوں بنایا گیا؟ اگر معاہدہ کیا تھا تو ہمیں بتایا کیوں نہیں تھا؟ اگر دس سالہ معاہدہ تھا تو پانچ سال کا جھوٹ کیوں بولا گیا؟مگر ہمارے ہاں سیاسی غلام زادے ایسے سوالات نہیں کیا کرتے۔
گمان تھا کہ تحریک انصاف ‘ جو ملک میں سیاسی ماحول کی تبدیلی کی ابتدا کر چکی ہے اس سیاسی غلامی کے کلچر کا بھی خاتمہ کرے گی مگر افسوس! 2013ء کے الیکشن میں سٹیٹس کو کے نمائندے شامل ہوئے ۔ جنون خاموش رہا۔ ٹکٹیں بیچی گئیں۔ جنون خاموش رہا۔ پرانے پاپیوں نے پارٹی پر قبضہ کر لیا۔ جنون خاموش رہا۔پارٹی الیکشن میں کرپشن ہوئی۔ جنون خاموش رہا۔ جہاز گروپ پارٹی پر مسلط ہوا۔ جنون خاموش رہا۔ بے سمت قسم کا دھرنا شروع ہوا۔ جنون خاموش رہا۔بالکل مختلف نقطہ نظر اور سیاسی نظریے کے حامل طاہر القادری نے دھرنا تقریباً اغوا کر لیا۔جنون خاموش رہا۔وزیر اعظم کے استعفے کا غیر منطقی مطالبہ کیا گیا۔ جنون خاموش رہا۔ڈیرہ اسماعیل خان میں ضمنی الیکشن لڑا گیا۔ جنون خاموش رہا۔ملتان میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا گیا۔ جنون خاموش رہا۔ بائیکاٹ کے باوجود شاہ محمود ملتان میں آزاد امیدوار کے لیے مہم چلاتا ہے۔ جنون خاموش رہتا ہے۔ اس آزاد امیدوار کی کامیابی کے لیے چار ایسے لوگوں سے صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدواری کا وعدہ کیا گیا جہاں پی ٹی آئی کا امیدوار2013ء کا الیکشن جیت چکا ہے۔اب ایسے ایسے لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو کرپشن اور بدنامی کی پوری تاریخ رکھتے ہیں۔ مگر جنون خاموش ہے۔ سوچا تھا کہ سیاست میں تیسری طاقت کی آمد جیسی خوشگوار تبدیلی کے ساتھ ساتھ سیاسی کلچر میں بھی تبدیلی آئے گی مگر ۔اس صورتحال پر برادر خورد عزیزم شوکت فہمی کا ایک شعر ؎
ہم خوش تھے بہت رات گزر جانے پہ لیکن 
یہ دن تو وہی کل سا دوبارہ نکل آیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved