تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-10-2014

چھوٹی بہو اور بڑی چھوٹی باتیں

فرح جنید میری سب سے چھوٹی بہو ہیں‘ میرے چھوٹے بیٹے کی اہلیہ‘ یعنی یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ میرے بیٹے کی خدانخواستہ دوسری‘ تیسری یا چوتھی اور سب سے چھوٹی بیوی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ جوڑا آسمانوں پر بھی ذرا مشکل ہی سے بنا تھا۔ یہ داستان ذرا تفصیل طلب ہے۔ ہوا یوں کہ ان کے تایا‘ ڈاکٹر محمد احمد جو شیخ زاید ہسپتال کے چیئرمین اور ہیلتھ سائنس شعبہ کے بانی تھے۔ فرسٹ ایئر میں ایف سی کالج میں میرے کلاس فیلو اور بہت ہی قریبی اور پیارے دوست تھے۔ ان کے بڑے بھائی میاں مقبول احمد سے بھی ربط و ضبط رہا کہ موصوف اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شعر کہتے ہیں اور متعدد مجموعوں کے خالق۔ 
جنید ان دنوں مسقط میں جاب کر رہے تھے کہ ان کے لیے رشتے کی تلاش شروع ہوئی اور جو رشتہ ہمیں پسند آیا وہ یہی تھا۔ چنانچہ ہم نے بخوشی اپنی رضامندی کا اظہار کردیا لیکن ان کے والدین نے کہا کہ وہ سوچ کر بتائیں گے‘ اور اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے انکار کردیا۔ ڈاکٹر محمود کو پتا چلا تو وہ اس پر رنجیدہ ہوئے اور اسے غلط قرار دیا۔ اس کے بعد کرنا خدا کا کیا ہوا کہ مقبول صاحب نے میری اہلیہ کو فون کر کے کہا کہ آپ کے گھوڑے جیت گئے ہیں اور ہمارے ہار گئے یعنی ہمیں منظور ہے۔ شانِ نزول اس کالم کی یہ رہی کہ اگلے روز فرح نے احتجاج کیا کہ میں نے اپنے بیٹوں‘ بیٹی‘ پوتوں‘ پوتیوں اور نواسیوں کا ذکر تو کئی بار کیا ہے بلکہ بڑی بہو کا تذکرہ ابھی پچھلے دنوں بڑے طمطراق سے کیا گیا تھا لیکن وہ کہیں نظر ہی نہیں آتیں۔ یہ شکایت بالکل بجا تھی
لہٰذا اس کالم کو ایک طرح کی تلافیٔ مافات ہی سمجھا جائے۔ جب یہ شادی ہوئی تو میں اردو سائنس بورڈ میں تھا اور جنید کے لیے نوکری کی تلاش میں بھی۔ ایک دن میں اپنے متعلقہ وزیر سید خورشید احمد شاہ کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ کے لائونج میں موجود تھا کہ مجھے شوکت کاظمی نظر آ گئے جو کہیں جا رہے تھے اور ان دنوں الائیڈ بینک کے سربراہ تھے۔ میری ان سے یاد اللہ تھی بلکہ اس سے پہلے قومی نغموں کے انتخاب کے سلسلے میں وہ مجھے جج بھی مقرر کر چکے تھے اور جس سلسلے میں مجھے کراچی بلایا گیا تھا اور جہاں بالآخر جمیل الدین عالی صاحب کا ایک نغمہ اول قرار دیا گیا تھا میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ میں کچھ دنوں کے لیے ملک سے باہر جا رہا ہوں۔ آپ برخوردار کی سی وی مجھے کراچی کے پتے پر بھجوا دیں‘ میں آ کر تعمیل کردوں گا۔ اتفاق سے انہی دنوں میرے دوست افتخار جالب بھی اسی بینک میں تھے اور ہیڈ کوارٹر پر تعینات تھے۔ میں نے ان سے بھی بات کر لی؛ چنانچہ انہوں نے مجھے کہا کہ کاغذات مجھے بھجوا دیں‘ کاظمی صاحب آتے ہیں تو میں ان سے آرڈر کرا لوں گا؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 
شادی سے پہلے منگنی ہوئی اور درمیان میں چند ماہ کا وقفہ بھی رکھا گیا کہ اگر موصوفہ کے والدین مُکرنا چاہیں تو اُن کے پاس آپشن موجود رہے لیکن یہ عرصہ بھی بخیرو عافیت گزر گیا اور شادی کا مرحلہ بھی سر ہو گیا۔ آپ گریجوایٹ تو تھیں ہی‘ آگے پڑھنے کا شوق اور ارادہ ظاہر کیا تو میں نے تجویز کیا کہ کیوں نہ آپ ایل ایل بی کر لیں‘ جس پر اتفاق ہوا اور نہ صرف ایل ایل بی کر لیا گیا بلکہ ایک عدد کالا کوٹ بھی خرید لیا گیا‘ حتیٰ کہ ایک عرصے تک میرے سائن بورڈ پر ان کا نام بھی بطور ایڈووکیٹ موجود رہا‘ لیکن چونکہ وکالت کا امتحان شوقیہ ہی پاس کیا گیا اس لیے قوم کو ان کی ماہرانہ وکالت سے محروم رہنا پڑا۔ جنید کا تبادلہ اوکاڑہ ہوا تو موصوفہ پر کام سیٹ کا امتحان پاس کرنے کی دھن سمائی۔ اس کا مرکز ساہیوال میں تھا؛ چنانچہ اس سلسلے میں روز کا آنا جانا رہا اور بالآخر یہاں سے ایم بی اے کر کے بھی سرخرو ہوئیں۔ اب آپ کسی بھی عمدہ جاب کے لیے کوالیفائی کر چکی تھیں لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے یہ ڈگری بھی شوقیہ ہی حاصل کی گئی تھی البتہ یہ کیا کہ چند درزیوں کا انتظام کر کے گھر پر ہی بوتیک قائم کر لیا گیا جس پر جنید نے فقرہ کسا کہ اب اس کی شکل بھی درزنوں جیسی ہوتی جا رہی ہے! 
یاد رہے کہ آپ نہ صرف شاعرہ ہیں بلکہ ایک عدد ''یادوں کی آہٹ‘‘ نامی مجموعے کی خالق بھی؛ تاہم یہ کام بھی چونکہ شوقیہ ہی تھا اس لیے آگے نہ چل سکا اور اب ان کا گزارہ ان مطلعوں اور مقطعوں پر ہے جو میرے کالم کے آخر پر درج ہوتے ہیں۔ ماڈل ٹائون ہی میں ایک گھر میں ماہانہ ادبی محفل منعقد ہوا کرتی جس میں میں بھی جایا کرتا تھا۔ ایک بار میں انہیں بھی ساتھ لے گیا۔ اس شام میڈم نور جہاں بھی موجود تھیں۔ بلکہ ان کے چچا ڈاکٹر محمود بھی مدعو تھے۔ باری آنے پر انہوں نے اپنی نظم اتنے اعتماد سے سنائی کہ باید و شاید۔ حالانکہ میرا خیال تھا کہ اپنے چچا کی موجودگی میں ان سے ایسا نہیں ہو سکے گا۔ 
سو‘ ڈگریوں کے حساب سے نہ صرف جنید بلکہ میں بھی ان سے پیچھے ہوں۔ میاں مقبول احمد صاحب کے ساتھ رشتہ مزید پکا ہو چکا ہے بلکہ میری ایک کتاب بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔ اور ہم دونوں عمر کے اس حصے میں ہیں کہ مشین کا کوئی نہ کوئی پرزہ خراب ہی رہتا ہے۔ واضح رہے کہ اسی دوران اس خاندان کے ساتھ ہماری ایک اور رشتے داری بھی وجود میں آئی اور میری ایک پھوپھی موصوفہ کے ماموں سے بیاہی گئیں۔ 
جنید کی شادی کے بعد میں زیادہ عرصہ انہی کے پاس رہا ہوں اور بالآخر اب اس فارم ہائوس میں آپناہ لی ہے کہ آفتاب بڑا ہے۔ اس لیے اس کا حق بھی مجھ پر زیادہ ہے۔ اگرچہ یہاں پر اپنے
دوستو ںاور ہم صفیروں کی صحبت سے محروم ہو گیا ہوں کیونکہ یہ جگہ شہر سے کافی دور ہے۔ البتہ چند ماہ پہلے میں نے کچھ دوستوں کو برنچ پر مدعو کیا تھا جن میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری‘ عبدالرشید‘ غلام حسین ساجد‘ سمیع آہوجہ‘ عطاء الحق قاسمی‘ ڈاکٹر ضیاء الحسن‘ حمید شاہین‘ اقتدار جاوید‘ افضال احمد اور کلیم خان و دیگران شامل تھے۔ موسم ذرا ٹھیک ہوتا ہے تو اس کی تکرار کرنے کا ارادہ ہے۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ آپ اتنے بڑے گھر میں اکیلے کیسے رہتے ہیں کیونکہ آفتاب بھی ہر روز میسر نہیں ہوتا اور اپنے ''خبرناک‘‘ کے سلسلے میں اسے مصروف رہنا پڑتا ہے لیکن ہر لکھاری کی طرح میں بھی تنہائی سے باقاعدہ لطف اندوز ہوتا ہوں اور یکسو ہو کر سوچنے کا موقع بھی ملتا ہے جبکہ ماضی میں اس طرح کے شعر بھی کہے ہیں ؎ 
فتور اگرچہ تمنا کا سر میں اتنا ہے 
غزل کہے کوئی کیا، شور گھر میں اتنا ہے 
اب عید پر انشاء اللہ سارا خانوادہ اکٹھا ہو گا۔ 
آخر میں ایک دلچسپ واقعہ یہ کہ ایک بار فرح اتوار بازار سے ہو کر آئیں تو میں نے پوچھا‘ کیا لائی ہیں؟ بولیں ''انواع و اقسام قسم ‘‘ کی سبزیاں لائی ہوں۔ تب سے ہم نے یہ ان کی چھیڑ بنا لی ہے اور اس کا مزہ لیتے رہتے ہیں۔ 
آج کا مطلع
وہیں اک شہر بھی سنسان ہوتا جا رہا ہے
جہاں اک باغ سا ویران ہوتا جا رہا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved