تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     06-10-2014

شعائر اللہ

جو چیز کسی دین یا مذہب کی امتیازی شناخت بن جائے ، اُسے ''شِعار‘‘ کہتے ہیں اور اس کی جمع ''شعائر‘‘ہے، جیسے صلیب مسیحیت کا شِعار ہے، ''زُنّار‘‘ہندو مذہب کا شِعار ہے اور اذان، جمعۃ المبارک ، حج وارکانِ حج وغیرہ اسلام کا شِعار ہیں۔ اللہ عزّوجلّ نے فرمایا:''بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ، سو جس نے بیت اللہ کاحج یا عمرہ کیا ، اُس پر ان دونوں کا طواف (وسعی) کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے،(البقرہ:158)‘‘۔ صفا اور مروہ بیت اللہ کے قریب دو پہاڑیاں ہیں، ''صفا‘‘ کے معنی ہیں:چِکنا پتھر اور ''مروہ‘‘ کے معنی ہیں:سفید اور ملائم پتھر ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ صفا پر حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام بیٹھے تھے ، اس لئے اس کا نام صفا قرار پایا اور مروہ پر ان کی بیوی (اِمْرَء ۃ)بیٹھی تھیں، اس لئے اس کا نام مَروہ قرار پایا۔ جب حج اور عمرے کے لئے صفا اور مروہ کی سَعی (سات پھیرے)کو واجب قرار دیا گیا، تو مسلمانوں کو تردّد ہوا، کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں صفا پر ''اِسعَاف ‘‘ نامی بت اور مروہ پر''نائلہ‘‘ نامی بت رکھے ہوئے تھے، فتح مکہ کے بعد یہ بت توڑ دئیے گئے۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ''یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ، اسلام سے پہلے وہ مَنات (ایک بت کا نام) کے لئے احرام باندھتے تھے اور مشلّل کے پاس وہ اس کی عبادت کرتے تھے،تو جو شخص احرام باندھتا ، وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتا ۔ پس جب وہ اسلام لے آئے، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا، انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ہم صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی،(بخاری:1643)‘‘۔حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے فرزند حضرت اسماعیل کو بیت اللہ کے سامنے بٹھا کر پانی کی تلاش میں نکلیںاور صفا سے مروہ تک چکر لگایا تو اللہ تعالیٰ نے اسے حج وعمرہ کے اعمال میں شامل فرمادیا اور اسے حج وعمرے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا۔اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے زمزم کا چشمہ جاری کردیا، یہ بھی اللہ کی نشانی ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے،ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے،پس تم ان کو قطار میں کھڑا کرکے (نحر کرنے کے وقت )اللہ کا نام لو، پس جب ان کے پہلو زمین پر گر جائیں تو تم خو د(بھی) ان کو کھاؤ اور محتاج اور مانگنے والے کو بھی کھلاؤ،(الحج:36)‘‘۔اس آیت میں قربانی کے لئے نامزد کئے گئے اونٹوں کو اللہ کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح فرمایا:''اے ایمان والو! اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو، نہ حرمت والے مہینے کی ، نہ کعبہ میں بھیجی ہوئی قربانیوں کی اور نہ ان جانوروں کی جن کے گلوں میں (قربانی کی علامت کے) پٹے پڑے ہوں،(المائدہ:02)‘‘۔ اس آیت میں حرمت والے مہینے، نامزد کرکے حرم میں بھیجی گئی قربانیوں اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں قربانی کی علامت کے طور پر پٹّے ڈال دئیے گئے ہوں ،اِن سب کو اللہ کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:'' پس جب تم عرفات سے لوٹوتو مَشعرِ حرام (مُز دَلِفہ) کے پاس اللہ کا ذکر کرو، (البقرہ:198)‘‘۔ مَشْعَربھی شِعار کے ہم معنی ہے ، یعنی مُزدَلِفہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانی قرار دیا ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی امتیازی علامات کو شِعار قرار دے کر ان کی تعظیم کا حکم فرمایا ، ارشاد ہوا:''اور جس نے اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کی تو بیشک یہ دلوں کے تقوے (کے آثار )سے ہے،(الحج:32)‘‘۔پس اللہ تعالیٰ ۔نے اپنے دین اور عبادات کی امتیازی نشانیوں کی تعظیم کا حکم دیتے ہوئے، اسے دلوں کا تقویٰ قرار دیا، کیونکہ تعظیم کا تعلق دل سے ہے۔ اہلِ دنیا کا شِعار یہ ہے کہ وہ کسی بڑی شخصیت کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے اس کے مجسمے بناتے ہیں، کسی بڑے واقعے کی یاد کو مدتوں تک زندہ وتابندہ رکھنے کے لئے اس مقام پر یادگاریں اور بڑے بڑے مینار تعمیر کرتے ہیں، تاکہ اسے دیکھتے ہی اس شخصیت یا واقعے کی یاد لوگوں کے دل ودماغ میں تازہ ہوجائے۔ اسلام میں مجسمے بنانا حرام ہے اور یادگاریں تعمیر کرنا شعائر اسلام میں سے نہیں ہے بلکہ ان تعلیمات کو زندہ وتابندہ رکھنا ہی مقاصد شریعت میں سے ہے۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات ''مرکز المِلَل‘‘ یعنی ملتِ اسلامیہ ، ملت یہوداور ملت نصاریٰ کے لئے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ، حتیٰ کہ مشرکینِ مکہ بھی اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرتے تھے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''ابراہیم نہ یہودی تھے ، نہ نصرانی ، بلکہ ہر باطل نظریے سے الگ رہنے والے خالص مسلمان تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے،(آل عمران:67)‘‘۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے بیت اللہ کی تعمیر کی ، ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام اس تعمیر میں ان کے معاون بنے ، اللہ تعالیٰ نے اس منظر کو قرآن مجید میں بیان فرمایا:''اور (یاد کیجیے)جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادوں کو اٹھا رہے تھے (اور یہ دعا کررہے تھے): اے ہمارے رب! ہم سے (اس خدمت کو) قبول فرما، بے شک تو بہت سننے والاخوب جاننے والا ہے،(البقرہ:127)‘‘۔جس پتھر پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر کی ، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی اپنی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا:''اور (یاد کیجیے ) جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے مرکزِ عبادت اور جائے اَمن بنایا اور مقامِ ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو،(البقرہ:125)‘‘۔پس اسے سنت قرار دیا گیا کہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعدمقامِ ابراہیم پرطواف کے شکرانے کے دو نفل بطورِ واجب ادا کئے جائیں ۔ 
انہی منجملہ شعائر میں سے عبادتِ قربانی بھی ہے ، جو کہ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یادگار ہے۔ منیٰ میں جو قربانی کی جاتی ہے ، وہ دمِ قران اور دمِ تمتع ہے۔ مگر عام قربانی حج کے ساتھ لازم وملزوم نہیں ہے بلکہ روئے زمین پر رہنے والے ہر صاحبِ استطاعت مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے۔اللہ عزّوجلّ کا فرمان ہے :''پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجیے، (الکوثر:02)‘‘۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جو مالی استطاعت رکھتا ہواور (اس کے باوجود)وہ قربانی نہ کرے، تو ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے،(سنن ابن ماجہ:3123)‘‘۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ صحابۂ کرام نے عرض کی:''یا رسول اللہ ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟، آپ ﷺ نے فرمایا:تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہیں ، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! ہمارے لئے اس میں کیا ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا:(قربانی کے جانور کے )ہر بال کے بدلے میں نیکی ہے، صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ! اُون والے جانوروں کا کیا حکم ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:اُون کے ہر روئیں کے بدلے میں نیکی ہے،(سنن ابن ماجہ: 3127)‘‘۔
بہت سے حضرات جو اپنے آپ کو عقل ودانش کا امام سمجھتے ہیں، یہ مشور ہ دیتے ہیں کہ ایامِ قربانی میں اتنی کثیر تعداد میں جانوروں کا ذبح کیا جانا، ایک غیر دانشمندانہ اور اقتصادیات کے منافی عمل ہے ، کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس پیسے کو ضرورت مندوں ، سیلاب زدگان اور بے گھر لوگوں کی مدد پر خرچ کیا جائے، بلاشبہ ان لوگوں کی مدد اَحسَن کام ہے اور پوری قوم کو دل وجان سے یہ کام کرناچاہئے، لیکن قربانی عبادت ہے اور عبادت صرف اسی طریقے پر ادا کی جاسکتی ہے ، جو شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمایا ہے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''ایام قربانی میں بندۂ مومن کا کوئی بھی نیک کام قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں ہے اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگااور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقامِ قبولیت کو پالیتا ہے، سو( اے مسلمانو!)تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو، (سنن ابن ماجہ:3126)‘‘۔
اگر محض مادّی نقطہ ٔ نظر سے بھی دیکھا جائے تو ذرا سوچئے!کتنے لوگوں کا روزگار مویشی بانی سے وابستہ ہے ، وہ سال بھرمحنت ومشقت کرکے جانور پالتے ہیں کہ ایامِ قربانی میں انہیں فروخت کرکے اپنے سال بھر کا ٰخرچ نکالیں گے، کتنے قصاب ہیں جن کی روزی اس سے وابستہ ہے ، جانور وں کی کھالیں خام اور تیار شدہ چرمی اشیاء ملک کے زرِ مبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ ہے اور دیگر شہروں ، قصبوں اور گاؤں کی بات تو چھوڑئیے کراچی جیسے شہر میں ضرورت مند لوگ قربانی کے گوشت کے طلبگار رہتے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں قربانیوں کے باوجود لوگوں کی ضرورت اور طلب پوری نہیں ہوتی ، ہم نے کہیں بھی قربانی کے گوشت کو رُلتے ہوئے نہیں دیکھا ، بہت سے مخیر رفاہی اور تعلیمی اداروں کے وسائل کایہ ایک ذریعہ ہے ، انہی قربانی کے جانور وں کو دور درا زعلاقوں تک پہنچا کر ذبح کیا جاتا ہے ، جہاں آفت زدگان اور مصیبت زدگان زیادہ تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved