تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     09-10-2014

امریکہ میں بھارت

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے وزیراعظم نوازشریف کی سربراہی میں جب پاکستانی وفد ''LaGuardia'' انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچا تو ائیر پوٹ پر تعینات''US&IC'' انفورسمنٹ سٹاف نے وفد کے اراکین کو اس لیے کلیئرنس دینے سے انکار کر دیا کہ ان کے پاس پولیو کے سرٹیفکیٹ نہیں تھے ۔ امریکی امیگریشن اور کسٹم سٹاف نے ان کی ایک نہ سنی اور پھر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی مداخلت کے بعد اس پاکستانی وفد کو اس وقت امریکہ میں داخل ہونے کی اجا زت دی گئی جبUS&ic انفورسمنٹ سٹاف نے پاکستانی وفد کو پولیو کی باقاعدہ ویکسین استعمال کرا دی۔ دوسری جانب میڈیسن اسکوائر گارڈن میں 20 ہزار بھارتی اس وقت شرمسار سے ہو کر رہ گئے جب ان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے بتایا کہ وہ واشنگٹن انتظامیہ کو بتا چکے ہیں کہ آپ ایک ہندو وزیر اعظم کا سواگت کر رہے ہو اور بھارت کا یہ ہندو وزیر اعظم آپ کے صدر اوباما کی جانب سے اپنے اعزاز میں دی جانے والی دعوت میں صرف وہ بھارتی خوراک قبول کرے گاجس کی ہندو مذہب اجا زت دیتا ہے۔
امریکہ کل تک ایسے بنیاد پرست اور کٹر ہندو وزیر اعظم کو گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے دو ہزار کے قریب مسلمانوں کے قتل عام کا برا راست ذمہ دار قرار دیتا رہا‘ یہاں تک کہ بش انتظامیہ نے اسے امریکی ویزہ دینے سے انکار کر رکھا تھا۔ اب وہی مودی اپنے دورہ امریکہ میں بھارت کے وزیراعظم کی نہیں بلکہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے رکن کی زبان اختیار کررہا تھا لیکن اوباما انتظامیہ مذہبی منافرت پھیلانے والے اس مہمان کو والہانہ اور پُر جوش طریقے سے پروٹوکول دے رہی تھی۔ یہ منظر دیکھنے والوں کو حیران کر رہا تھا؛ حتیٰ کہ بین الاقوامی میڈیا یہاں تک کہنے پر مجبور ہو گیا کہ ایسا لگتا ہے کوئی سپر پاور تیسری دنیا کے کسی ملک کا دورہ کر رہی ہے۔ امریکی جس حد تک مودی کے سامنے جھکے اس طرح تومئی میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد مودی نے جب بھوٹان اور نیپال کا دورہ کیا تھا ،وہ بھی نہیں جھکے تھے ۔مودی نے سارک کے ان دو ننھے منے ملکوں کو باور کرانے کی پوری کوشش کی کہ وہ بھارت کے بغیر کچھ بھی نہیں لیکن اس میں اسے کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ 
نیپال اور بھوٹان کے بعد ستمبر کے اوائل میں ا س نے جاپان کا دورہ کیا۔ مودی کے ذہن میں تھا کہ جاپانی وزیر اعظم شن زو چونکہ اس کے دوست بھی ہیں اس لئے وہ جاپان سے کئی سالوں سے زیر التوا ''Security Cooperation'' کے معاہدے پر دستخط کے علاوہ جاپانی فرموں اور سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ کاری پر راضی کر لیں گے لیکن دورے کی ابتدا میں ہی اسے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے بر عکس امریکہ تو ایسے لگ رہا تھا جیسے خود سپردگی کیلئے پہلے سے تیار بیٹھا ہو۔
یا تو امریکیوں کی یاد داشت کمزور ہوتی جا رہی ہے یا وہ اپنے ہی آئین اور اپنے ہی 1998ء کے اس ''LAW OF RELIGIOUS FREEDOMS'' کو سرے سے فراموش کر چکے ہیں جس کی سنگین خلاف ورزی پر مودی کیلئے امریکی ویزے پر پابندی عائد کی گئی تھی یا پھر امریکی، مودی کی جماعت کے ادیتا ناتھ کو بھول گئے ہیں جس نے2005 میں اتر پردیش میں1800 سے زائد عیسائیوں کو زبردستی دوبارہ ہندو مت میں داخل کیا تھااور یہ سب کچھ ادیتا ناتھ اور مودی کے دست راست امیت شاہ کے کہنے پر ہوا جو گجرات میں مودی کے اندرونی سکیورٹی کے وزیررہے تھے ۔
مودی کیلئے خصوصی امریکی پرو ٹوکول اور پھر نیو یارک میں مودی کی اسرائیل کے وزیر اعظم سے خصوصی ملاقات بھی پاکستان کیلئے الارمنگ صورت حال کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ یہ گرم جوش استقبال جہاں امریکہ کی بھارت کے بارے میں بدلتی ہوئی پالیسی کی عکا سی کرتا ہے وہاں اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی حالیہ قربت بھی خطرے سے خالی نہیں ہو سکتی۔ امریکی اور اسرائیلی سفارتکاروں کی طرف سے مودی کے لیے والہانہ پن کا سہرا امریکی شہریت رکھنے والی ان ہندو طاقتور شخصیات کے سر ہے جو امریکی پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ اس کی ایک مثا ل 32سالہ تلسی گیبرڈ ہے جو جنوری میں ڈیموکریٹ کے ٹکٹ پر فراوے ہوائی سے ریبپلکن امیدوار کو19.40 کے مقابلے میں80.6 فیصد ووٹوں سے شکست دے کر امریکی کانگریس کی رکن منتخب ہوئی وہ امریکہ میں ہی پیدا ہوئی ۔اس نے آج تک بھارت کی شکل تک نہیں دیکھی لیکن اس کی وجہ سے امریکی کانگریس کی223 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اس کے کسی رکن نے ہندو مذہب کی کتاب گیتا پر ہاتھ رکھ کر اپنی رکنیت کا حلف اٹھا یا ۔اس سال جنوری میں جب تلسی امریکی کانگریس میں حلف اٹھا رہی تھی تو پورے امریکہ کی ہندو کمیونٹی میں میلے کا سا سماں تو تھا ہی،امریکیوں کیلئے بھی یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔اس وقت اگر امریکی سوسائٹی کی اشرافیہ کی طرف دیکھیں تو ہندو امریکن بڑی بڑی کمپنیوں اور یونیورسٹیوں کے انتظام سنبھالے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ان میں سے کچھ نے نوبل انعام جیتا ہے تو بہت سے امریکی اداروں سے گولڈ میڈل حاصل کیے ہوئے ہیں۔اگر ہندو کسی پلیٹ فارم سے باہر تھے تووہ ایوان نمائندگان تھا ۔ گوکہ اس سے قبل دو بھارتی امریکن کانگریس کے رکن تھے لیکن ان میں سے ایک دلیپ سنگھ سوند سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے تھے جو1950ء سے تین دفعہ کیلیفورنیا سے منتخب ہوئے اور دوسرے بوبی جندل جو2004 ء سے دو دفعہ رکن کانگریس بنے لیکن اس نے ہندو مذہب ترک کر کے عیسائیت اختیار کرلی تھی اور دونوں نے گیتا پر حلف نہیں لیا تھا۔
اس وقت امریکہ میں جتنے بھی سائنسدان ہیں، ان کی12 فیصد تعداد ہندو ئوں پر مشتمل ہے۔ پورے امریکہ میں38 فیصد ڈاکٹر ہندو ہیںاور امریکہ خلا میں اپنی فتح کے جس ادارے ناسا پر ناز کرتا ہے وہاں36 فیصد سائنسدان ہندو ہیں۔امریکہ کی مائیکرو سافٹ انڈسٹری میں اس وقت34 فیصد ملازمین ہندو ہیں۔ اس کے علاوہ آئی بی ایممیں ملازمین کی تعداد28 فیصد سے زائد ہے۔ اگر زندگی کے دوسرے شعبوں کی تفصیل دیکھیں تو اس وقت امریکہ میں 68 فیصد ٹیکسی ڈرائیور ہندوستان سے ہیں اور 80 فیصد ڈرائی کلین کی دکانیں ہندوئوں کی ملکیت ہیں۔ اس کے علاوہ پورے امریکہ میں79 فیصد موٹل یا توہندو ئوں کی ملکیت ہیں یا وہ اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔اکثر کافی شاپس اور فاسٹ فوڈز پوائنٹس بھی ہندوئوں کے تصرف میں ہیں۔
اس وقت امریکہ میں مقیم ہندو کمیونٹی کو اسرائیلی اداروں میں جس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے اس سے بھارت کے تارکین وطن کی تعداد رو ز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے نریندر مودی کاا س طرح استقبال کیا جس طرح آج سے 55 سال قبل صدر ایوب خان کا کیا تھالیکن مودی کے مقابلے میں ہمارے وزیر اعظم نواز شریف کا اگر دس ہزار کے قریب پاکستانیوں کی جانب سے 'گو نواز گو ‘کے نعروں سے امریکی وقت کے مطا بق پانچ بجے شام تک مسلسل ''ا ستقبال‘‘ نہ کیا جاتا تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلنا تھا کہ کون آیا اور کون گیا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved