تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     10-10-2014

قطرہ قطرہ مئے حوادث ٹپک رہی ہے

جب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی دورہ امریکہ سے واپس آئے ہیں‘ جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن پر ہونے والی جھڑپیں تیز ہو رہی ہیں۔ ان کے امریکہ جانے سے پہلے ‘ لائن آف کنٹرول پر کبھی کبھارفائرنگ ہو جاتی تھی اور اگر یہ سلسلہ ٹوٹتانظر آتا‘ تودونوں طرف کے کمانڈر‘ باہمی مذاکرات کر کے‘ معاملے کو نمٹا دیتے۔ وہ ناکام ہوتے‘ تواپنے اعلیٰ حکام سے ہدایات لے کر‘ سیزفائر کر لیتے‘ لیکن اب یہ جھڑپیں بلاناغہ ہو رہی ہیں۔ ان میں دو طرفہ جانی و مالی نقصان بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ کسی فریق نے‘ فوجی کمانڈروں یا سفارتکاروں کے مابین مذاکرات کی تجویز بھی نہیں دی۔ شاید دونوں ایک دوسرے کی دلچسپی کی مقدار کا اندازہ لگانا چاہتے ہوں۔ تادم تحریر‘بھارتی کابینہ کے دو اراکین ‘ وزیردفاع ارون جیٹلی اوروزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے کافی سخت زبان میں تبصرے کئے۔راج ناتھ سنگھ نے اپنی حکومت کی آئندہ کشمیر پالیسی میںسخت گیری کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ''پاکستانیوں کو معلوم ہو جانا چاہیے‘ اب بھارت کی طرف سے سفید جھنڈا نہیں لہرایا جائے گا۔‘‘ یہ انتہائی سخت پیغام تھا‘ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اب سرحدوں پر فائر کھلا‘ تو بات چیت نہیں کی جائے گی۔ فیصلہ ہونے تک لڑائی چلے گی۔ وزیردفاع نے لائن آف کنٹرول پر اپنے‘ فوجیوں اور میڈیا والوں سے بات کرتے ہوئے کہا ''پاکستان کی توپیں خاموش نہ ہوئیں‘ تو اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘ ایک اخبار نویس کے پوچھنے پر انہوں نے وضاحت کی کہ ''اس سوال کا جواب دے کر میںاپنی تیاریوں کا انکشاف نہیں کر سکتا۔‘‘ پاکستان کی طرف سے‘ کسی اعلیٰ اتھارٹی نے ان واقعات پر ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ 
حالیہ سرحدی جھڑپوںمیںخلاف معمول طوالت کو دیکھتے ہوئے‘ اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ اس مرتبہ کنٹرول لائن پر‘ فائرنگ کے تبادلے میں بھارت کے ارادے کچھ مختلف ہیں۔ باخبر حلقوں کو اسی وقت شک پڑ گیا تھا کہ بی جے پی اور اس کی اتحادی تنظیم‘ آر ایس ایس کے ارادے اچھے نہیں۔ پہلے اس نے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان مذاکرات کی طے شدہ تاریخ منسوخ کرتے ہوئے‘ غیرسفارتی یا غیراخلاقی زبان میںاعلان کر دیا کہ ''سیکرٹریوں کی ملاقات منسوخ کر دی گئی ہے۔‘‘ وجہ یہ بتائی گئی کہ پاکستان کے دلی میں مقیم ہائی کمشنر نے‘ حریت کانفرنس کے کشمیری لیڈروں سے ملاقات کیوں کی؟ اس اعلان سے سفارتی ماہرین نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ اب نیویارک میں ‘ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی غیررسمی ملاقات نہیں ہو گی۔ یہ اندازے درست نکلے۔ بھارت کے تیور دیکھتے ہوئے‘ پاکستان نے ‘ نیویارک میں دونوں وزرائے اعظم کی غیررسمی ملاقات کی بات ہی نہیں چھیڑی۔ وزیراعظم پاکستان کے سفر کا ٹائم ٹیبل ایسے کر دیا گیا‘ جس میں دونوں وزرائے اعظم چاہتے بھی تو ملاقات کا وقت نہیں نکل سکتا تھا۔
بھارت نے سفارتی بدتمیزی سے کام لیتے ہوئے جو پیغام دیا تھا‘ پاکستان نے کچھ کہے اور کئے بغیر ہی ظاہر کر دیا کہ ہم بھی ملاقات کے لئے بے چین نہیں۔ بھارت کسی بھی عالمی فورم پر‘ پاکستان کی طرف سے ‘تنازعہ کشمیر کا تذکرہ پسند نہیں کرتا۔ کبھی ہمارے نمائندے نے‘ بھارتی مندوبین کی موجودگی میں‘ کشمیر کا نام تک بھی لیا‘ تو بھارتی وفد‘ اسی وقت احتجاجاً واک آئوٹ کر جاتا۔ اس بار وزیراعظم نوازشریف نے تنازعہ کشمیر کا ذکر کئی جملوں میں کیا۔ یہ بات میرے پڑھنے میں نہیں آئی کہ وزیراعظم کی تقریر کے وقت‘ بھارتی وفد یا اس کا کوئی مندوب‘ جنرل اسمبلی کے ہال میںموجود تھا۔ لیکن وزیراعظم مودی نے اپنی تقریر میںکشمیر کے حوالے سے کہے گئے الفاظ کا نوٹس تک نہ لیا۔صرف بھارت کی دیرینہ پالیسی کی روشنی میں‘ سرکاری پالیسی بیان کر دی‘ جس پر مجھے اندازہ ہو گیا کہ آگے چل کر کیا ہونے والا ہے؟ شک اسی وقت پڑ گیا تھا‘ جب کشمیری لیڈروں سے ملاقات پر اعتراض کرتے ہوئے‘ بھارت نے‘ سیکرٹریز کی ملاقات منسوخ کی تھی۔ وزیراعظم مودی کااپنی تقریر میں کشمیر کاذکر نظرانداز کرنا‘ ان کی حکومت کی نئی پالیسی کا بالواسطہ اعلان تھا۔ یہ شک اسی وقت پیدا ہو گیا تھا‘ جب مودی کی تقریر سے دو دن پہلے‘ بھارت کے تمام باخبر اور بارسوخ اینکرز نے اپنے ''اندازوں‘ تخمینوں اور تجزیوں‘‘ میں‘ کورس کی صورت‘ گردان شروع کر دی تھی کہ ''مودی نوازشریف کی تقریر کا نوٹس نہیں لیں گے۔ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کریں گے۔ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بدمزگی پیدا نہیں کریں گے۔‘‘ انہی تبصروں میں‘ پالیسی لائن کا اندازہ ہو گیا ۔ بھارت کے سینئر صحافی اور اینکرز‘ دنیا کے تمام جمہوری ملکوں کی طرح‘ جب اپنے صدر یا وزیراعظم کے اہم بیانات پر ‘ سرُ میں سرُ ملاتے ہوئے‘ ایک ہی راگ الاپنے لگیں‘ تو سمجھ لینا ‘سننے والے کو قبل ازوقت اصل خبر دی جا رہی ہے۔ یہ جاننے کے لئے ذہانت یا دوراندیشی والی کوئی بات نہیں ہوتی‘ محض تجربہ کافی ہے۔ بھارتی میڈیا اور حکمرانوں کی باتوں اور باڈی لینگویج سے ‘ہر کسی نے سمجھ لیا تھاکہ ''کچھ‘‘ غیرمتوقع ہونے جا رہا ہے۔کیا ہونے جا رہا ہے؟ عام سوجھ بوجھ رکھنے والوں نے‘ اسی وقت سمجھ لیا تھا‘ جب سیکرٹریز کے باہمی مذاکرات کی تاریخ منسوخ کی گئی۔ مودی صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعدسو ‘سوا سو دنوں میں ‘ ہمہ جہتی مشاورت کے بعد‘کشمیر پالیسی میں تبدیلی کا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے کو طول دینا‘ اسی منصوبے کی کڑی ہے۔وہ اصل پالیسی منظرعام پر لانے سے پہلے‘ مطلوبہ نتائج کاراستہ ہموار کر رہے تھے۔ فی الحال یہی سمجھ آ رہی ہے کہ لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں میں‘آہستہ آہستہ اضافہ کرتے ہوئے‘ پاکستان کے داخلی تضادات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ بھارت نے یہ بات جلد سمجھ لی تھی کہ نوازشریف حکومت میں‘ وہ طاقت اور توانائی نہیں رہ گئی‘ جو پاکستانی مقتدرہ سے‘ اپنے فیصلے منوانے کے لئے مو ثر ثابت ہو سکے۔ مودی حکومت‘ نوازحکومت کو ایک نئی صورت حال میں ڈال کرپرکھنا چاہتی ہے کہ وہ کتنا دبائو برداشت کر سکتے ہیں؟ یہاں دبائو کا مطلب‘ لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپوں میں شدت اور طول لانا ہے۔ یہ دیکھا جائے گا کہ نوازشریف اور ان کی حکومت میں کتنا دم خم ہے؟ طاقت کے وہ مراکز‘ جو پاکستان میں اہم فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہیں‘ان کے اعصاب کتنے مضبوط ہیں؟ سرحدی جھڑپوں کی شدت اور طوالت کا‘ دنیا کی بااثر قوتوں پر کیا اثر پڑتا ہے؟ خصوصاً چین کے موقف کو گہری نظر سے دیکھا جائے گا۔ بھارتی فیصلے کی نوعیت کا زیادہ دارومدار‘ چین کے ردعمل پر رہے گا۔ پاکستان کو دبائو میں لانے کی بھارتی پالیسی پر‘ چین کی طرف سے سخت جواب آگیا‘ تو بھارت ‘پاکستان کو وہ شرط منواکر ‘ خاموش ہو جائے گا‘ جو پہلے ہی سے دوطرفہ معاہدوں میں موجود ہے۔ یعنی پاکستان کواس وعدے کی پابندی پر مجبور کرنا‘ جو وہ پہلے ہی دو معاہدوں میں تسلیم کر چکا ہے: یہ کہ تنازعہ کشمیر‘ پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ ہے۔ کوئی فریق اسے عالمی عدالت‘ ادارے یا فورم میں نہیں اٹھائے گا۔ یہ تنازعہ باہمی مذاکرات میں حل کیا جائے گا۔ بظاہر پاکستانیوں کو یہ بات معمولی دکھائی دے گی کہ جو شرط پہلے دو معاہدوں میں تسلیم کی جا چکی ہے‘ اسے پھر سے تسلیم کرنے کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ بھارت کی یہ چال کامیاب رہی‘ تو لائن آف کنٹرول پر دوطرفہ گولہ باری تیز کر کے‘ چینی ردعمل کا جائزہ لیا جائے گا۔ اگر چین نے دوستانہ غیرجانبداری کی پالیسی اختیار کی‘ توبھارت‘ تاشقند اور شملہ کے معاہدوں میں‘ درج پابندیوں کی ازسرنوتوثیق کرا کے‘ پاکستان کے اس وعدے پر قناعت کر لے گا کہ وہ کشمیر کے باہمی تنازعے کو کسی عالمی فورم پر لے کر نہیں جائے گا‘ لیکن چین کی طرف سے پاکستان کے ساتھ‘روایتی دوستانہ تعلقات میں‘ تبدیلی کے آثار نظر آئے‘ تو بھارت اعلان لاہور کے اعادے پر مطمئن ہو جائے گا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لئے دونوں فریق ایک مدت کا تعین کر لیں گے۔ یہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اعلان لاہور کیا تھا؟ اور اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار کیا؟ اگر ہمیں یہ موقع مل گیا‘ تو بلاتاخیر نئے معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا جائے گا۔ اگر ہم ایسا نہ کر سکے‘ تو کشمکش‘ کشیدگی اور دبائو کے حربوں کا‘ طویل راستہ سامنے ہو گا۔ گزشتہ روز کے کالم میں‘ پاکستان اور بھارت کے مابین عدم مفاہمت کی صورت حال پیدا ہونے کے امکانات کو دیکھتے ہوئے‘ میں نے قلم رکھ دیا تھا۔ کیونکہ آگے جو کچھ دکھائی دے رہا ہے‘ اسے برداشت کرنے کا حوصلہ ‘فی الحال مجھ میں نہیں۔لیکن جب کسی چیز پر اختیار نہ ہو‘ تو انسان جینا سیکھ ہی لیتا ہے۔آخرلوگ ٹینری کے ساتھ والے گھر میں رہنا بھی سیکھ لیتے ہیں۔
----------------

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved