پچھلے ہفتے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکہ کے پانچ روزہ دورہ کے دوران گو کہ بظاہراہم پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی، مگر اس دورہ نے یقینا دونوں ملکوں کے تعلقات میں دوبارہ گرم جوشی پیدا کی ہے جو گزشتہ کچھ عرصے سے سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے۔ جاپان اور چین کی طرف سے مجموعی طور پر تقریباً 55بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلانات کے بعد امید بندھی تھی کہ امریکی سرمایہ کار بھی کچھ اسی طرح کے وعدے کرکے بھارتی معیشت کو مستحکم کرنے میں کردار ادا کریں گے ،مگر لگتا ہے کہ امریکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنا مودی کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ سرکاری طور پر یہاں بتایا گیا، کہ اس دورہ کا مقصدتعلقات میں آئے جمود کو توڑنا تھا، جس میں کسی حد تک دونوں ملکوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارت اور امریکی تعلقات نے 2005ء میں جوہری معاہدہ کرکے بلندیوں کو چھو لیا تھا۔ اس معاہدہ کو انجام تک پہنچانے والی امریکی کمپنیوں کی نظریں اس 140بلین ڈالر کے کنٹریکٹ پر ٹکی تھیں، جس کی رو سے ان کوری ایکٹر اور دیگر پرزے بھارتی جوہری تنصیبات کو فراہم کرنے کی آفردی گئی تھی۔ مگر بھلا ہوبھارتی پارلیمنٹ کا ، جس نے نیوکلیر لائبیلٹی قانون (Nuclear Liability Act) پاس کرکے ان کمپنیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس قانون کی رو سے جوہری پلانٹ میں کسی حادثہ کی صورت میں ا ن کمپنیوں کوبھاری ہرجانہ دینا پڑے گا، جنہوں نے مشینری اور پرزے فراہم کئے ہوں۔دوسری طرف سابق من موہن سنگھ حکومت نے مختلف وجوہ کی بنا پر خطے میں امریکی اسٹریٹیجک ایجنڈے کا حصہ بننے سے بھی گریز کیا۔ دراصل امریکہ کو چین کی اقتصادی اور فوجی قوت کو بے اثر کرنے کیلئے بھارت کی اشد ضرورت ہے۔30سال قبل کچھ اسی طرح کے عزائم کو لے کر امریکہ نے سوویت یونین اور کمیونزم کے خلاف جنگ میں پاکستان کو فرنٹ اسٹیٹ بنایا تھا۔
اگر مودی کے دورے کی کامیابیوں کا تجزیہ کیا جائے، تو مشترکہ اعلامیہ میں مختلف تنظیموں کا ذکر اور ان کی پناہ گاہوں اور نیٹ ورکس کو تباہ کرنے کیلئے مشترکہ اور متحدہ کوششیں کرنا امریکی پالیسی میں ایک تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگرچہ امریکی حکومت نے کافی عرصہ قبل ہی ان گروپوں کو دہشت گردمان لیا تھا، مگر اپنے جنگی وژن میں بھارت کو شامل کرنے کے سلسلے میں اس کو تحفظات لاحق تھے۔دوسری کامیابی وژن وزن اسٹیٹمنٹ میں امریکہ کا یہ وعدہ کہ : ''ہم وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ کا انسداد کریں گے اور جوہری اسلحہ کی تخفیف کی پابندی کریں گے۔ اس کے ساتھ پوری دنیا میں امتیاز سے مبرا جوہری اسلحہ کے خاتمہ کی کوشش کو مہمیز کریں گے ۔‘‘ خیال رہے بغیر کسی امتیاز کے جوہری اسلحہ سے دنیا کو پاک کرنے کا نعرہ 1988ء میں آنجہانی راجیو گاندھی نے دیا تھاجس کا مقصد دراصل امتیاز پر مبنی این پی ٹی (Nuclear Non-Proliferation Treaty)کو مسترد کرنا تھا جو امریکہ کی ایٹمی پالیسی کا اصل محور رہا ہے۔ دنیا کے جوہری نظام میں امتیاز کا اعتراف کرکے در اصل اوباما نے اس کے اہداف تبدیل کیے ہیں اور لگتا ہے کہ بھارت کے دیرینہ موقف کی کچھ حد تک تائید کی ہے ۔ بھارت اس معاہدہ کو یکسر مسترد کرتا رہا ہے۔ ا مریکہ اپنے اس موقف پر بھی مصر رہا ہے کہ بھارت کے برخلاف امریکہ کوجوہری اسلحہ تیار کرنے اور رکھنے کا استحقاق حاصل ہے کیونکہ اس نے جوہری اسلحہ کی روک تھام کے معاہدہ (این پی ٹی) پر دستخط کر رکھے ہیں جبکہ نئی دہلی اب تک اس کی مزاحمت کرتا آیا ہے کہ یہ ایک امتیازی نوعیت کا معاہدہ ہے ،تاہم امریکہ گزشتہ تین دہائیوں سے نئی دہلی پر اس معاہدہ پر دستخط کرنے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ حیرت
ہے کہ اس حوالے سے امریکی صدر نے اپنی تقریر میں کوئی خاص زور نہیں دیا ، مگر امر واقعہ یہ ہے کہ یہ کہنا آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا مشکل ۔ بلاشبہ امریکی کانگریس ( پارلیمنٹ) اوباما کی ایسی کسی بھی کوشش کی سخت مزاحمت کرے گی جو امریکہ کے جوہری امور کے بارے میں موقف میں کسی تبدیلی پر منتج ہو۔ عالمی سطح پر اسلحہ کے عدم پھیلائو اور ان کی برآمدات پر کنٹرول کے نظام کو طاقتور بنانے پر دونوں سربراہوں نے اتفاق کیا اور یہ عزم کیا کہ نیو کلیئر سپلائرز گروپ (NSG) ، میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم (MTCR) ، واسنیار نظم (Wassenaar Arrangement) نیز آسٹریلیا گروپ میں بھارت کی شمولیت کے لئے بتدریج قدم اٹھائے جائیں گے۔ اوباما نے کہا کہ بھارت ایم ٹی سی آر کی شرائط کو پورا کرتا ہے اور اسے این ایس جی کی رکنیت دی جاسکتی ہے ۔ امریکہ نے ان چاروں اداروں میں بھارت کو شامل کرنے کی حمایت کی۔ سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کے بار ے میں چار سال کی خاموشی کے بعد وائٹ ہائوس نے کہا کہ وہ اس پر غور کرنے کے لئے تیار ہے ۔ 2010 ء میں بھارت کے دورہ کے موقع پر اوباما نے اس پر لب کشائی کی تھی، اس کے بعد سے وہ اس معاملہ پر بالکل خاموش تھے اوریہاں پر بھی انہوں نے کوئی واضح بات نہیں کی ۔ مشترکہ بیا ن میں کہا گیا کہ 'ہم شمولیاتی عالمی نظام کی حمایت کرتے ہیں جس میں بھارت کو بین الاقوامی امور میں وسیع تر شمولیت کا حق ملے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اصلاح کی ضرورت ہے ‘جس کے نتیجہ میں عدل کی بنیاد پر عالمی نظام قائم ہوسکتا ہے۔
بھارت میں اپوزیشن کانگریس نے مودی کے دورہ امریکہ کو مایوس کن قرار دیااورکہا کہ اس دورہ سے بھارت کچھ حاصل نہیں کرسکا ۔ پارٹی کے ترجمان آنند شرما نے کہا کہ اگر اس دورہ کے نتائج پر نظر ڈالیں گے تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں لگے گا جب کہ اس دورہ کی حد سے زیادہ تشہیر کی گئی تھی ۔ ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا تھاکہ ہر کوئی اس دورے کی کامیابی کے بارے میں بڑا پرجوش نظر آرہا تھا اور لوگ یہ یقین کرنے لگے تھے کہ اب دنیا بدل جائے گی اورایک انقلاب آجائے گا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کوئی اہم اور بڑا سمجھوتہ نہیںہوا۔ شرما نے کہا کہ جو دفاعی معاہدے ہوئے یا دہشت گردی کے خاتمہ کے حوالے سے جو تبادلۂ خیال ہوا اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان اسٹر ٹیجک شراکت ہے ،یہ ایک پرانی بات ہے۔ اس کے متعدد پہلو ہیں۔ جوہری توانائی کے میدان میں 2008 ء میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور صدر جارج بش نے دستخط کئے تھے۔ اس معاہدہ کے لئے منموہن سنگھ نے اپنی حکومت دائو پر لگا دی تھی۔اس وقت بی جے پی بھی اس معاہدے کی مخالف تھی۔ شرما نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ بی جے پی کے وزیر اعظم اب اس معاہدہ میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ بی جے پی نے اس سمجھوتے کی مخالفت کی تھی۔
وزیر اعظم مودی نے اوباما کو تحائف دینے کے انتخاب میں خصوصی دلچسپی لی تھی۔ انہوں نے امریکی صدر کو بھگوت گیتا کا وہ نسخہ دیا جس کی شرح گاندھی جی نے لکھی تھی ۔ یہ نسخہ عدم دستیاب تھا، مودی نے اسے دوبارہ شائع کروایا، اسے کھادی کے ایک خصوصی کور میں اوباما کو پیش کیا گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ غیرملکی سربر اہوں کو ہندو مذہبی کتابیں پیش کرنا وزیر اعظم کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے کہ انتہا پسند ہندو حلقۂ اثرکوخوش رکھا جائے نیز دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ بھارت ایک 'ہندو ‘سیکولر ملک ہے ۔ اس سے قبل مودی نے سلامتی کونسل میں اپنی تقریر میں دنیا سے غربت مٹانے پر زور دیا تھا۔ انہوں نے یہ تقریر ہندی میں کی۔ اس کے بعد انہوں نے نیویارک کے میڈی سن اسکوائر پر ایک تقریر کی جس کا اہتمام امریکہ میں بی جے پی کے حامیوں نے کیا تھا ۔اس جلسہ میں 18ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ اپنی تقریر میں وہ ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کو نہیں بھولے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو نو سو سال کی غلامی کے بعد آزادی ملی ۔ مودی اس وعدے کے ساتھ بر سر اقتدار آئے تھے کہ وہ اقتصادی شرح نمو کی رفتار تیز کریں گے تاکہ لاکھوں کی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں،مگر ابھی تک بیرونی سرمایہ کاری کے بلند بانگ دعووں کے باوجود تازہ صنعتی ڈیٹا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ کاری میں کوئی زبردست اضافہ نہیں ہوا۔ جاپان کا دورہ کرنے کے بعد مودی نے دعوی کیا تھا کہ جاپان سرکاری اور نجی شعبہ میں 35ارب ڈالر مالیت کا سرمایہ لگائے گا۔ تاہم ایک جاپانی افسر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشروط نوعیت کی سرمایہ کاری ہے۔ جاپان اسی صورت میں پیسہ لگائے گا جب بھارت میں سرمایہ کاری کے لئے ساز گار ماحول ہوگا۔ اب امریکہ کے دورے سے بیرونی سرمایہ کاری کی جو آس لگائی گئی تھی وہ بھی پوری نہیں ہوئی۔ ویسے بھی امریکہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کسی کا وفادار دوست نہیں ہوسکتا ۔ وہ صرف اپنے مفادات کا وفادار ہے۔