ملتان بڑے عرصے بعد آنا ہوا ۔ ملتان میری پہلی محبتوں میں سے ایک ہے۔ ملتان سے پہلی محبت ہندوستان سے ہجرت کر کے ملتان کو اپنی محبت بنانے والے ابن حنیف جیسے نفیس، خوبصورت انسان اور پرانی تہذیبوں کے طالب علم ''سات دریائوں کی سرزمین‘‘ پڑھ کر ہوئی تھی۔
اس شہر نے مجھ سے کچھ چھینا تو دیا بھی بہت۔ 1991ء میں یونیورسٹی میں داخلہ کے بعد دوست ہی دوست بنائے (جیسے آج کل صحافت میں دشمن ہی دشمن بناتا ہوں )۔ ایک نظر ماضی پر دوڑاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے ملتانی دوست نہ ملتے تو شاید زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہوتا ۔ اپنا یار روشن ملک یاد آیا جس کے گھر رات گئے گرم روٹی اور دال تو مل ہی جاتی تھی۔ اس گھر سے بہتر چائے شاید ہی کہیں اور ملتی ہو۔ باکمال روایتی مہمان نوازی۔ وقت کی کوئی قید نہیں۔ کھانا ضرور ملتا ۔ جی چاہا روشن ملک کے گھر جائوں اور لان میں بیٹھ کر تندور کی گرم روٹی کے ساتھ دال کھائی جائے۔ یاد آیا روشن ملک تو امریکہ ہے اور اماں بھی وہیں ہے۔ اب کس نے تندور کی گرم روٹی کھلانی ہے۔ مروت کا لفظ پڑھا بہت پہلے تھا لیکن اگر مروت دیکھی تو بہاولپور سے ملتان میں آ بسے اس خاندانی گھرانے میں... روشن ملک، شاہ رخ ملک، خرم اور ان کے والد صاحب‘ ہم دوستوں کی خدمت پر مامور اور ہم لاٹ صاحب بنے، چارپائیوں اور کرسیوں پر ایسے بیٹھتے جیسے ہم اس گھر کے مالک اور وہ سب ہم سے ملنے آئے ہوں ۔
ملتان جانا ہوتا اور ذوالکفل سے نہ ملا جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ چند برس قبل مکہ حادثے میں چل بسا تھا ۔ ایک ذہین نوجوان اتنی جلدی قبر میں جا لیٹا ۔ دل آج بھی دکھی ہے۔ مختار پارس کے والد باقر شاہ صاحب نے اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا ۔ کچھ دن پہلے بیوی سے کہا: اگر ہمارے بڑے بیٹے کا کوئی دوست شام کو بیگ اٹھا کر آئے اور کہے میرے پاس رہنے کو جگہ نہیں۔کیا ہم اسے گھر رکھ لیں گے؟
اسے خاموش دیکھ کر میں نے کہا یہی کچھ میں نے باقر شاہ صاحب کو ملتان کی ایک گرم شام کہا تھا کہ انکل میرے پاس رہنے کو جگہ نہیں۔ انہوں نے فوراً گلے سے لگایا تھا اور بیٹے کے دوست کا بیگ وہ خود اٹھا کر کمرے میں رکھ آئے تھے اور بچوں سے بڑھ کر خیال رکھا تھا ۔
جمشید رضوانی کو فون کیا۔ علی شیخ ، فیاض اور طاہر ندیم کو اکٹھا کرو۔ کچھ گپ شپ کرتے ہیں ۔ ملتان میں ہر کونے اور گلی میں اتنے دوست اور یادیں بکھری پڑی ہیں کہ اگر سب کو ملنے جائوں تو شاید ایک ہفتہ پورا لگے گا۔ کچھ دوست یہ کالم پڑھ کر ناراض ہوں گے جن میںسعد‘ سعود نیاز اور عمران مرزا ہیں جن سے نہ مل سکا ۔
جمشید رضوانی کے ساتھ شاکر حسین شاکر کی کتابوں کی دوکان پر گیا۔ عرصہ ہوا ملاقات نہ ہوئی تھی ۔ شاکر کے اندر ایک روایتی ملتانی آپ کو ملتا ہے۔ شاکر سے ملاقات 1993ء میں ہوئی تھی جب کتابیں خریدنے جاتے تھے۔ پہلے شاکر سے رعایت کراتے اور پھر بتاتے اب ادھار کرو۔ وہ مسکرا کر کتاب اٹھا کر حوالے کرتا... اچھا اگلی دفعہ دے دینا۔ اگلی دفعہ پیسے کیا دیتے، ایک اور کتاب پر پہلے رعایت اور پھر ادھار۔ کبھی پیسے ہوئے تو دے دیے، نہ ہوئے تو الٹا چائے پی کر روانہ ۔
شاکر کی دوکان اگرچہ بڑی ہوگئی ہے لیکن مجھے لگا کتابوں کا سیکشن چھوٹا ہوگیا تھا۔ کچھ اور سودا سامان بڑھ گیا تھا ۔ شاکر کی دوکان پر کچھ ایسی کتابیں دیکھیں جو شاید اسلام آباد میں بھی آج کل نہیں ملتیں ۔
تقریباً سو برس پہلے لکھے گئے ملتان گزٹ کا اردو میں بہترین ترجمہ یاسر جواد نے کیا۔ جس انگریز ای ڈی میکلیگن نے لکھا تھا وہ ایک سی ایس آئی افسر اور گورنر پنجاب بھی رہا۔ بلاشبہ انگریز سول افسر نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ملتان کی ہزاروں سال پرانی تاریخ، یہاں کی قومیں، ان کا مزاج، فصلوں کی تفصیلات... کیا کچھ نہیں ملتا ۔
عوام کا لہو چوستا کوئی پاکستانی ''زکوٹا جن‘‘ سرکاری بابو ایسی کتاب لکھ سکتا ہے؟
ملتان کی تاریخ پر بات ہوئی تو شاکر حسین شاکر کہنے لگا۔ ملتان کی تاریخ پر ایک کتاب گیلانیوں نے لکھوائی تو دوسری قریشیوں نے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو غدار ثابت کیا۔ جن کے حوالے دے دے کر آج کل ملتان اور سرائیکیوں کی نفرت سے بھرا ہمارا ایک دوست اپنے کالموں میں ملتانیوں کو برا بھلا کہتا رہتا ہے۔
اپنے یونیورسٹی کے استاد یاد آئے۔ میڈم مبینہ طلعت یاد آئیں۔ والدہ کی وفات کی وجہ سے تیاری نہ کر سکا تھا ۔ ایم اے انگلش فرسٹ ایئر کے ایک پرچے میں اٹھائیس نمبر آئے ہیں ۔ میڈم مبینہ بولیں۔ پانچ نمبر میں دے سکتی ہوں ۔ تم 33 لے کر پاس ہوجائو گے لیکن پھر ایم اے انگلش میں تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوگے۔ دوبارہ تیاری کرو۔ میںنے کہا جیسے آپ کہتی ہیں۔ دوسرے روز مجھے گھر بلایا اور تین ماہ میری تیاری کرائی۔ امتحان دیا اور 58 نمبر آئے۔ میں تین ماہ کے پیسے دینے لگا کہ ٹیوشن پڑھائی تھی۔ وہ ہنس پڑیں اور کہا تمہیں اس لیے فیل تو نہیں کرایا تھا کہ میں نے ٹیوشن لینی تھی۔ پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ آج تک دل سے میڈیم مبینہ کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔
ڈاکٹر انوار احمد ایک اور نامور استاد۔ اپنے طالب علموں میں بے پناہ مقبول۔ ساری عمر سب کی مدد کی لیکن جب اپنی مدد کا وقت آیا تو
اپنی انا کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ اچھا کالم لکھتے تھے۔ ملتان، ملتانیوں اور سرائیکیوں اور لیفٹ کی ایک طاقت ور آواز جنوبی پنجاب سے ابھری۔ کچھ پرانے اور نئے ملتانی کرداروں کے بارے میں دنیا کو ان کے کالموں کے ذریعے پتہ چلنا شروع ہوا۔ لوگوں نے جب انہیں پسند کرنا شروع کیا تو انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ آج وقت تھا کہ وہ ملتان کی محبتوں اور قربانیوں پر لکھتے۔
اپنے گائوں جیسل کلاسرا گیا تو ڈاکٹر جاوید کنجال اور ڈاکٹر محسن قادر ملنے آئے ۔ وہ نعیم بھائی کی پرانی یادوں سے جڑے ہیں۔
ڈاکٹر محسن نے میرے بستر پر پڑے ملتان گزٹ کو اٹھایا۔ بلاشبہ مترجم یاسر جواد نے اس اہم تاریخی دستاویز کو اردو میں ترجمہ کر کے بہت ہی اچھا کام کیا ہے اور اس سے بڑھ کر یاسر نے اس کا اچھا دیباچہ لکھا ہے۔
مجھے اس وقت حیرانی ہوئی جب ڈاکٹر محسن نے اس گزٹ میں اس خطے کی ذاتوں اور قوموں والے سیکشن کو کھولا اور کمی کمیں ذاتوں کو پڑھنے لگ گیا ۔ میں نے حیرانی سے پوچھا تم نے دوسروں قوموں میں اپنی قوم کو تلاش نہیں کیا سیدھے کمی کمیں سیکشن میں گئے ہو۔ محسن بولا میرا تعلق وہنی وال قوم سے ہے۔ اپنی ذات ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں نے پوچھا تم کہاں سے کمی کمیں ہوگئے؟ بولا حضور ہم تو صدیوں سے کمی کہلاتے ہیں ۔ یہیں کے باسی تھے۔ سندھ ، ستلج، چناب، راوی، بیاس کے کناروں کے باسی۔ جو باہر سے حملہ آور آئے تھے وہ سب اعلیٰ کردار کی قومیں ٹھہریں کیونکہ تاریخ انہوں نے لکھی تھی۔ مورخ بھی اپنا ساتھ رکھتے تھے۔ ہندوستان میں جو بھی مقامی قومیں
آباد تھیں جنہیں انہوں نے تلوار کے زور پر فتح کیا‘ وہ سب کمی ٹھہریں چاہے وہ کہیل ہوں، پکھی واس ہوں۔ موچی، نائی، جھبیل، لبانے، ماہتم، اوڈ، کٹانے ہوں۔ جن کی یہ دھرتی تھی، اپنی زمین تھی، سات دریائوں کی سرزمیں... کھیتی باڑی تھی وہ سب بیرونی فاتحین کے نزدیک کمی ٹھہرے۔ وہ اس لیے کمی ٹھہرے کیونکہ وہ کبھی اپنے جیسے انسانوں کو قتل کرنے ہندوستان سے باہر نہیں نکلے۔ وہ بھلا کیوںجاتے۔ ان کے پاس تو بقول ابن حنیف سات دریا تھے، کھیت تھے... کھانے پینے کو سب کچھ تھا۔ وہ کیوں لوٹ مار کرتے۔ آج وہی بزدل بھی کہلاتے ہیں۔ وہ بھی پہاڑوں، افغانستان، سینٹرل ایشیاء یا مقدونیہ سے آئے حملہ آوروں کی طرح اجنبی زمینوں پر دوسروں کے بچوں کو قتل کرتے، عورتیں اٹھاتے، اناج لوٹ لیتے، گھروں کو آگ لگاتے۔۔قلعوں پر پتھر، توپوں کے گولے برساتے ۔ سونا چاندی اکٹھا کرتے تو آج انگریز ان کا شمار بھی دیگر بہادر اور مارشل اقوام میں کرتے۔ صدیوں سے دھرتی کے بیٹے کیونکہ کسی انسان کا لہو نہ بہا سکے لہٰذا وہ کمی ٹھہرے۔ اس کتاب میں فخر سے اپنا نام لکھوانے کے لیے یہ ضروری تھا کہ آپ نے کتنے انسان قتل کیے۔ کتنے بچوں کو یتیم کیا ۔ عورتوں غلام بنائیں لہٰذا سات دریائوں کے باسی اس امتحان میں فیل ہوئے اور کمّی کہلائے۔
جن لٹیروں نے ان کا سب کچھ لوٹ لیا انہوں نے ہمیں بھی یہی پڑھایا کہ سات دریائوں کے باسی کمّی تھے۔ آج ہمارے بچے امتحان پاس کرنے کے لیے یہی پڑھتے ہیں کہ ان کے آبائو اجداد کمّی تھے۔ جب کہ جنہوںنے سات دریائوں کی سرزمین پر قبضہ کیا ، انسانی سر کاٹے، اناج، غلہ، زمینیں، بچے، عورتیں، کلچر، شناخت اور ان کی زندگیاں تک چھین لیں، وہ اب پاکستان کی جدید تاریخ کی کتابوں میں ہیرو اور ہزاروں برس سے اس خطے میں آباد قدیم قومیں کمی کمین ٹھہریں ۔
سچ کہتے ہیں۔ دنیا ہمیشہ سے طاقت ور کی ہے۔ ہر جگہ تلوار کا زور چلتا ہے۔ چاہے میدان جنگ ہو یا پھر کوئی تاریخ کی کتاب...!!