عالمی سطح پر سرمایہ دارطبقے اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے جام گزشتہ چار دہائیوں سے نہیں بھر پائے ہیں اور نہ ہی بھر سکتے ہیں۔ امریکہ میں محنت کشوں کی حقیقی اجرت 1975ء کے بعد سے منجمد ہے۔ یورپ میں نجکاری کے ذریعے فلاحی ریاست کو تار تار کیا جارہا ہے۔ سرمایہ داروں نے 32ہزار ارب ڈالر اپنی تجوریوں میں یرغمال بنا رکھے ہیں اور مطلوبہ شرح منافع نہ ملنے کی وجہ سے سرمایہ کاری کرنے سے انکاری ہیں۔ 2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد سے ایک کے بعد دوسری ریاست غیر اعلانیہ طور پر دیوالیہ ہو رہی ہے۔بیروزگاری دنیا بھر میں ایک وبا کی طرح نوجوان نسل کا مستقبل اندھیر کر رہی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے سرمایہ دار روز اول سے ہوس، کمینگی اور لالچ میں اپنی مثال آپ رہے ہیں۔انہوں نے دولت کو ''ٹرکل ڈائون‘‘ تو کیا کرنا تھا الٹا بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کے ذریعے ریاست کو ہی کنگال کر ڈالا ہے۔اس ملک کے سرمایہ دار کبھی ریاست کو ٹیکس دیں گے نہ ہی یہ بدعنوان اور مفلوج ریاست ان سے لے سکتی ہے۔ریاستی قرضوں کے گھن چکر میں 90فیصد بالواسطہ ٹیکس دینے والے عوام برباد ہورہے ہیں ۔ 1977ء کے بعد آنے والی ہر حکومت ڈائون سائزنگ، قرضہ خوری اور نجکاری کے اسی نیو لبرل ماڈل پر عمل پیرا رہی ہے جس کے ''فضائل‘‘ آج سب کے سامنے ہیں۔
ضیا الحق کے بعد جب ریاست شدید سیاسی بحران سے دوچار تھی تو سامراج کی مداخلت سے بینظیر کے ساتھ پہلی ڈیل کے ذریعے پیپلز پارٹی کو اقتدار دے کر عوام کی ابھرتی ہوئی بغاوت کو زائل کیا گیا۔محنت کش طبقے کی کھلی دشمن، نجکاری کی عالمی علمبردار اور برطانوی عوام میں ''بچوں کا دودھ چھیننے والی ڈائن‘‘ کے نام
سے مشہور مارگریٹ تھیچر، محترمہ بینظیر بھٹو کی ''آئیڈیل‘‘ تھیں۔ یاد رہے کہ 1988ء کے انتخابی منشور میں پیپلز پارٹی قیادت نے واضح طور پر ڈی نیشنلائزیشن اور نجکاری کرنے کے ساتھ ساتھ ''ریاستی مداخلت کی بجائے دوسرے طریقوں سے صنعتکاری‘‘ کے عمل کو آگے بڑھانے کا عندیہ دیا تھا۔یہ ''دوسرا طریقہ‘‘ دراصل مارگریٹ تھیچر طرز کی جارحانہ نجکاری تھی جس سے برطانوی صنعت اور محنت کش طبقے کا بیڑا غرق ہوا۔ بینظیر نے برسر اقتدار آنے کے بعد پیپلز پارٹی کی 1967ء کی تاسیسی دستاویزات کو یکسر رد کرتے ہوئے ضیا الحق دور کی سرمایہ دارانہ اور سامراجی معاشی اور اقتصادی پالیسیاں جاری رکھیں۔''مصالحت‘‘ اور ''جمہوریت‘‘ کے نام پرنظریاتی انحراف اور موقع پرستی کا رجحان وقت کے ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔1993ء کی انتخابی مہم میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں بینظیر نے کہا تھا کہ ''نظریاتی سیاست اب پچھلی نشست پر چلی گئی ہے۔‘‘اگلی نشست پر حکمران طبقے کی اطاعت، سامراج کی پیروی اور نجکاری کی پالیسی براجمان ہو چکی تھی۔ 1993ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ اور سامراج کی خوشنودی کے لئے ماضی کی نسبت زیادہ بڑے پیمانے پر نجکاری کا عمل شروع کیا اور 1996ء تک بیس صنعتی یونٹس اور پی ٹی سی ایل (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ) کے 12فیصد شیئرز کے ساتھ ساتھ کچھ مالیاتی اداروں اور پاور پلانٹس کی نجکاری کی گئی۔ بعد ازاں پرویز مشرف نے پی ٹی سی ایل کا کنٹرول مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کر دیا۔
بجلی کی پیداوار میں آئی پی پیز کی سرایت بھی بینظیر بھٹو کے دور میں شروع ہوئی۔ سستی بجلی کے ریاستی منصوبوں کو ترک کے آٹھ گنا زیادہ قیمت پر نجی شعبے سے بجلی خریدنے کا عمل شروع کیا گیا۔تھرمل پاور کے منصوبوں میں ریاست کی 75فیصد سرمایہ کاری کے باوجود ملکیت اور مینجمنٹ نجی شعبے کو دے دی گئی، پیداواری صلاحیت کے 60فیصد کے برابر ادائیگی کی گارنٹی اور ریٹ آف ریٹرن کی مد میں دوسری ادائیگیاں اس کے علاوہ تھیں۔آج توانائی کا بحران، نہ ختم ہونے والی لوڈ شیڈنگ، برباد ہوتی ہوئی صنعت اور ہر مہینے بڑھتے ہوئے بجلی کے ریٹ اسی نجکاری کے ثمرات ہیں۔
میاں نوازشریف نے 1990ء میںاقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی نشری تقریر میں وہی کہا تھا جو 2013ء میں وزیر اعظم بننے کے کچھ ہفتوں بعد کہا: ''سیاست اور حکومت کا کاروبار میں کیا کام ہے؟ معیشت اور کاروبار تو بزنس کرنے والوں کا کام ہے۔‘‘ سرمایہ داروں کی اس پارٹی نے برسر اقتدار آکر ہمیشہ وحشیانہ نجکاری اور مزدور دشمن پالیسیاں نافذ کی ہیں ۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار بینکوں کی نجکاری کا آغاز 1991ء میں نواز شریف نے ہی کیا تھا۔ اس وقت بھی سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے دیو ہیکل قرضے معاف کئے گئے تھے اور یہ سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈال دیا گیاتھا۔ آج تقریباً پچیس سال بعداگر کوئی چیز مختلف ہے تو یہ کہ شریف خاندان سمیت سرمایہ دار طبقے کی دولت کے انبار کئی گنا بڑھ چکے ہیں جبکہ عوام 1990ء کی نسبت کہیں زیادہ محرومی، ذلت اور غربت کا شکار ہیں۔
ماضی میں ریاست اور دائیں بازو کے سیاستدان نجکاری کا نام لیتے ہوئے تھوڑا ہچکچایا ضرور کرتے تھے جس کی وجہ مضبوط ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک تھی۔ آج نجکاری کی '' برکات‘‘ سر عام بیان کی جاتی ہیں۔ ٹیلی وژن اینکر ہوں یا حکمران طبقے کے تجزیہ نگار اور دانش ور، ہر مسئلے کا حل نجکاری کو قرار دیا جاتا ہے۔ یورپ سے لے کر چین اور ''ایشین ٹائیگرز‘‘ تک، نجکاری کی تباہ کاریوں پر ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔پاکستان میں نجکاری نے ایک طرف کالے دھن کو فروغ دیا ہے تو دوسری طرف سامراجی اجارہ داریوں کے لئے لوٹ مار کے وسیع مواقع میسر آئے ہیں۔ محنت کش طبقے کے لئے یہ نجکاری مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، دیہاڑی یا ٹھیکے کی مزدوری اور 'کچی نوکری‘ کے سوا کیا لائی ہے؟ پچھلی تین دہائیوں کی ہر ''جمہوری‘‘ اور فوجی حکومت میں ''وزارت نجکاری‘‘ قائم رہی ہے۔
نواز لیگ کی موجودہ حکومت نے نجکاری کا تازہ وار کرنے کی ذمہ داری آئی بی ایم کے سابق چیف فنانشل افسر محمد زبیر کو سونپی ہے۔ محمد زبیر نے 25ستمبر کو نئی دہلی میں ایک خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بعض اداروں کی نجکاری کے منصوبے پر روشنی ڈالی۔ محمد زبیر نے تسلیم کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ بیل آئوٹ سمجھوتے کے تحت نجکاری کا عمل تیز کیا جارہا ہے اور چند ماہ میں 4ارب ڈالر کے اثاثے فروخت کئے جائیں گے۔
تیل اور گیس کی سرکاری کمپنی او جی ڈی سی ایل کے 815ملین ڈالر کے شیئر بھی فروخت کئے جارہے ہیں۔ او جی ڈی سی ایل انتہائی منافع بخش ادارہ ہے جس کا ریونیو 223ارب روپے جبکہ سالانہ منافع تقریباً 100ارب روپے ہے۔ اس کے بعد نومبر اور مارچ کے دوران ایک بینک کے 40فیصد ریاستی شیئر فروخت کئے جائیں گے جن کی مالیت کا تخمینہ 1.2ارب ڈالر ہے۔ ایک اور بینک میں 150ملین ڈالر کے 7.5فیصد ریاستی شیئر بھی فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ محمد زبیر کے مطابق اس ''آمدن‘‘ سے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو ایک ہزار ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کی جائے گی۔یہ سامراجی آئی پی پیز عوام کو نچوڑ کر‘ بعض اندازوں کے مطابق 1995ء سے اب تک 50سے 75ارب ڈالر کا منافع بیرون ملک منتقل کر چکی ہیں جبکہ 2020ء تک ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 20ہزار میگا واٹ کے اضافے کے لئے صرف 32ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے۔
اگر سرمایہ داروں کی یہ حکومت نجکاری کے منصوبوں میں کامیاب ہو گئی تو لاکھوں محنت کش پہلے مرحلے میں ہی بیروزگار ہو جائیں گے۔ یہ صورتحال ان اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے؛ تاہم کسی بھی ادارے کے مزدور تنہا اس بربریت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پورے محنت کش طبقے کو یکجا ہوکر حکمرانوں کے ساتھ ساتھ غدار ٹریڈ یونین قیادتوں سے ٹکرانا ہوگا اور طبقاتی جنگ کو آخری معرکے تک لڑنا ہوگا۔ (ختم)