ایں گُلِ دیگر شگفت!
یہ خبر آپ نے بھی سن لی ہوگی کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی کے گارڈ خان محمد نے معمولی جھگڑے پر ایک نوجوان کو اس وقت فائر مار کر ہلاک کردیا جب خود عبدالقادر گیلانی اپنے متعدد ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی میں موجود تھے۔ گیلانی خاندان کا موقف یہ ہے کہ یہ واقعہ کراس فائرنگ کے نتیجے میں ہوا ہے جبکہ پولیس نے ان کا یہ موقف یہ کہہ کر جھٹلا دیا ہے کہ مقتول کے قبضے سے نہ تو کوئی ہتھیار برآمد ہوا ہے ،نہ ہی وہ پولیس کا کوئی ریکارڈ یافتہ ہے۔ پولیس نے پرچہ درج کر لیا ہے جس میں عبدالقادر گیلانی اور ان کے ساتھی بھی نامزد ہیں۔ پولیس نے صرف گارڈ کو گرفتار کیا ہے جبکہ دیگر ملزمان کو ابھی تک چھیڑا ہی نہیں گیا۔ اب یہ کہنا کہ عبدالقادر گیلانی نے گارڈ کو فائر کرنے کے لیے نہیں کہا یا وہ اس واردات میں شامل نہیں تھے‘ امر واقعہ کے سراسر خلاف ہے کیونکہ گارڈ نے فائر کرنے کی جس جسارت کا مظاہرہ کیا وہ خود موصوف ہی کی مرہونِ منت تھی ورنہ مبینہ قاتل اگر کسی اور کا گارڈ ہوتا تو ہرگز یہ جرأت نہ کرتا۔ اب ظاہر ہے کہ گیلانی خاندان کی طرف سے نہ صرف گارڈ کو بچانے کی کوشش کی جائے گی اور اس ضمن میں پنجاب حکومت کی مدد حاصل کیے جانے کا امکان بھی ہے وہاں حتیٰ الامکان عبدالقادر گیلانی کو بھی اس عمل سے گزارنے کی مزاحمت کی جائے گی جو اس طرح کے ملزموں کے لیے قانون کے تحت ضروری ہے‘ اس لیے کہ اس ملک میں دو قانون ہیں‘ امیروں کے لیے الگ اور غریبوں کے لیے علیحدہ۔ اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو اب تک وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب یا تو گرفتار کیے جا چکے ہوتے یا ضمانت قبل از گرفتاری کروانے کا تردد کر چکے ہوتے جن کے خلاف قتل اور دہشت گردی کے الزام میں تین تین پرچے درج ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قانون بااختیار لوگوں کے گھر کی لونڈی ہے اور وہ اس کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو لونڈیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو تو بالخصوص خوفِ خدا کھانے کا مظاہرہ کرنا چاہیے جن کا ایک بیٹا پہلے ہی کوئی ڈیڑھ سال سے اغوا ہو کر دہشت گردوں کے قبضے میں ہے بلکہ خود عبدالقادر گیلانی قتل کی دھمکیوں کی زد میں ہیں۔ اور جہاں تک وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا تعلق ہے تو وہ شاید اس بات کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ ایسے طرزِ عمل سے نہ صرف ان کی مقبولیت کو بے پناہ نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ عوام کی اکثریت کی نظروں میں نفرت کا استعارہ بن چکے ہیں اور جس کا سب سے بڑا ثبوت وہ پذیرائی ہے جو والہانہ انداز میں عمران خاں کو عوام کی طرف حاصل ہو رہی ہے اور جو اس کے ناقابلِ یقین جلسوں سے پھوٹی پڑ رہی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نفرت میں اب غصہ بھی شامل ہو رہا ہے۔ اور یہ وہ روشن تبدیلی ہے جو اندھوں کو بھی نظر آ رہی جو معاشرے میں ظہور پذیر ہو چکی ہے اور ہمارے حکمران شترمرغ کی طرح جس پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔
بھارتی جارحیت اور ہم
بھارتی فوج نے سیالکوٹ کے قریب بین الاقوامی سرحد پر جو حملے اور جارحانہ کارروائی شروع کر رکھی ہے اور جس کے نتیجے میں ایک درجن سے زیادہ عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی وقوع پذیر ہو چکی ہیں اور جس سے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑی ہوئی ہے‘ وزیراعظم کی اس پر ،پُراسرار خاموشی ملک کے لیے ایک مزید صدمے کا باعث ہے۔ صاحبِ موصوف کی طرف سے اس پر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس تو طلب کر لیا گیا ہے جو ان وارداتوں کے پانچ روز بعد منعقد ہونا ہے‘ حالانکہ اس میں کوئی امر مانع نہیں تھا کہ وہ اس پر کوئی ردعمل یا بیان جاری کرتے جو کہ بے حد ضروری تھا۔ اس بات کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ وزیراعظم اپنے دل میں بھارت کے لیے ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ بھارت کے ساتھ ان کے ایسے کاروباری مسائل اور معاملات موجود ہیں کہ وہ اس کے بارے میں کوئی حقیقت پسندانہ اور مضبوط موقف اختیار کرنے سے معذور ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بھارت کے ساتھ تجارتی لین دین بھی جاری ہے بلکہ اسے 'موسٹ فیورٹ نیشن‘ کا رتبہ دینے کا معاملہ بھی زیر غور رہا ہے حالانکہ ہمارے بعض اہم ترین قومی تنازعات ایسے ہیں جو بھارت کے ساتھ جوں کے توں موجود ہیں جن میں کشمیر‘ پانی کا مسئلہ‘ کارگل‘ سیاچن اور سرکریک وغیرہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت اور عسکری قیادت میں دلسوزی کے جو معاملات چل رہے ہیں ان میں غالباً سرفہرست بھارت کے ساتھ موجودہ حکومت کا عاجزانہ رویہ ہے جو کہ قومی مفاد کے سراسر خلاف ہے اور عسکری قیادت جسے ہرگز پسند نہیں کرتی۔
مقصد یہ نہیں کہ بھارت کے خلاف اعلان جنگ کردیا جائے کیونکہ ہم امن پسند ملک ہیں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن و آشتی کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بھارتی حکومت ہمیں اپنا تابع مہمل بنانے کی کوشش کرے جس نے ہمیں اب تک دل سے تسلیم نہیں کیا اور ہم اس کے لیے نیازمندی ہی کا اظہار کیے جا ئیں حالانکہ ہمیں اسے یہ واضح پیغام دینا چاہیے کہ اس طرح معاملات آگے نہیں چلتے اور یہ تلنگ پُنا مزید برداشت نہیں کیا جائے گا جو ایک ایٹمی طاقت کے ساتھ روا رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہماری کمزور اور مصلحت کیش حکومت کا طرزِ عمل ہی ہے جس کا ہمسایہ ملک فائدہ اٹھانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے؛ چنانچہ اگر اس تناظر میں کسی ٹھوس اور باعزت ردعمل کا اظہار نہ کیا گیا جس کی امید ذرا کم ہی ہے تو یہ عسکری قیادت کے اضطراب کا مزید باعث بنے گا۔ حکومت کی معاملات میں دلچسپی کا اندازہ اسی ایک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیڑھ سال سے ملک کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے اور یہ پورٹ فولیو بھی وزیراعظم خود ہی سنبھالے ہوئے ہیں تاکہ بھارت کے ساتھ روابط اور دیگر معاملات میں اپنی من مانی بروئے کار لاتے رہیں جبکہ یہ رویہ عوامی جذبات کے بھی سراسر خلاف ہے اور جو پہلے ہی حکومت کے حق میں نہیں جا رہے اور کئی دیگر عوامل کے ساتھ مل کر یہ کسی طوفان کا پیشہ خیمہ بھی بن سکتے ہیں۔
آج کا مطلع
اک دن اس نے یوں نظروں سے اوجھل ہو جانا تھا
جسم نے ہلکا پھلکا، دل نے بوجھل ہو جانا تھا