سیاسی تعطل ختم کرنے کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق اینڈ کمپنی نے جو آنیاں جانیاں لگا رکھی ہے اُس کا اب تک تو کوئی قابل ذکر نتیجہ نہیں نکلا جسے دِکھاکر ہم یہ کہیں کہ دیکھیے، اِس بحر کی تہہ سے یہ اُچھلا ہے۔ ہاں، سراج الحق صاحب کا بھلا ضرور ہوگیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سیاسی بحران ختم کرنے کا اُنہوں نے کوئی صِلہ چاہا ہوگا مگر قوم نے اُنہیں بابائے جمہوریت کا لقب دے ڈالا ہے۔ جمہوریت تو کسی نہ کسی شکل میں برقرار تھی مگر قوم کو ایک بابائے جمہوریت کی تلاش تھی۔ سراج الحق نے قوم کی مشکل آسان کردی۔
اشفاق احمد مرحوم ہوتے تو سراج الحق کو لے اُڑتے۔ مرحوم باباؤں کی تلاش میں رہتے تھے۔ گفتگو کے فن سے خوب واقف تھے اور گفتگو میں کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی بابا کی انٹری ڈالنے کا ہنر بھی جانتے تھے۔ باتوں ہی باتوں میں کسی بابا کو تذکرہ اشفاق احمد کی مجبوری تھی۔ جو باتیں وہ کہنا چاہتے تھے وہ کسی بابا کے مُنہ ہی سے اچھی لگتی ہیں۔ اشفاق احمد خود بابا بننے سے گریز کرتے تھے۔ جو کچھ کہنا چاہتے تھے وہ کسی بابائی کردار کے مُنہ سے نکلواتے تھے اور نتائج، اثرات اور عواقب سے بری الذمہ ہوجایا کرتے تھے۔
ڈیڑھ ماہ سے زائد مُدت گزری ہے کہ سراج الحق، رحمن ملک اور دیگر ہم خیال افراد سیاسی بحران کے فریقین کے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں۔ ''اِک طرف اُس کا گھر، اِک میکدہ‘‘ والی کیفیت برقرار ہے۔ فریقین اُن کی بات پورے دھیان اور خلوص سے سُنتے ہیں مگر مانتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں! یقین دہانی ہر وقت تیار رہتی ہے جو کرادی جاتی ہے۔ سراج الحق، رحمٰن ملک اور دیگر شخصیات پر مشتمل سیاسی جرگہ جب اِس طرف سے اُٹھ کر اُس طرف جاتا ہے تو ایک بار پھر یقین دہانی کا بازار گرم ہوتا ہے۔ بات توجہ سے سُنی جاتی ہے مگر جب جواب میں مُنہ کُھلتے ہیں تو صرف انکار برآمد ہوتا ہے۔
سراج الحق بھی دُھن اور تربیت کے پَکّے ہیں۔ جو کچھ اُنہوں نے جماعت اسلامی میں تربیت کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے سیکھا ہے وہ خوب کام آرہا ہے۔ تحمل اور استقامت جماعت اسلامی کے ارکان کا خاصہ ہے۔ پھر بھلا سراج الحق میں یہ اوصاف کیوں نہ ہوں کہ وہ تو جماعت اسلامی کے امیر ہیں! فریقین کو اُنہوں نے کئی بار منانے کی کوشش کی ہے مگر اُدھر سے پیہم انکار کے باوجود اِدھر اولوالعزمی ہے ماند پڑتی ہے نہ واماندہ ہوتی ہے۔ ایک آدھ موقع پر سراج الحق نے جمود برقرار دیکھ کر جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ کیا مگر پھر تحمل، مستقل مزاجی اور اولوالعزمی نے اُنہیں اپنے حصار میں لے لیا۔
سراج الحق کو اچھی طرح معلوم ہے کہ قوم کا حافظہ کمزور ہے اور قوم پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والوں کا حافظہ کمزور تر ہے۔ یاد دہانی کے طور پر جماعت اسلامی کے مرکزی امیر نے کہا ہے کہ جمہوریت میں داخل ہونے کا دروازہ موجود ہے۔ اِس دروازے کو انتخابات کہتے ہیں۔ اور جب دروازہ موجود ہے تو کوئی روشن دان کے ذریعے جمہوریت میں داخل نہ ہو۔ ہفتے کو پشاور میں نیوز کانفرنس کے دوران سراج الحق نے کہا کہ حکومت اور دھرنا دینے والوں کے درمیان چند اسپیڈ بریکرز آگئے ہیں جنہیں دور کرنا ہی پڑے گا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی جرگے نے لاشیں گرنے کا انتظار کرنے والوں کو مایوس کیا ہے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے انتخابات میں حصہ لینے پر طاہرالقادری کے آمادہ ہوجانے کو نیک شگون سے تعبیر کیا۔
سراج الحق خاصے ذہین ہیں۔ جمہوریت میں نقب لگانے والوں کو روشن دان تک تو پہنچادیا مگر ''چور دروازہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کیا۔ یہ اصطلاح وہ کیوں استعمال کرتے؟ ''چور دروازہ‘‘ میں بھی دروازہ تو موجود ہے! ایک بات اور بھی ہے۔ جمہوریت کے کمرے یا ہال میں ''غیر روایتی‘‘ طریقے سے داخل ہونے والوں کو سراج الحق چور نہیں کہنا چاہتے! سیدھی سی بات ہے، سراج الحق کے پاس کینیڈا، امریکہ یا برطانیہ کی شہریت تو ہے نہیں۔ کل کو اُنہیں منتخب ہوکر چوروں ہی کے ساتھ بیٹھنا ہے!
طاہرالقادری کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان کو نیک شگون قرار دینا ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ اول تو یہ بات جماعت اسلامی کے فلسفے کے خلاف ہے۔ خالص اسلامی تعلیمات کے تناظر میں تو کوئی اچھا یا بُرا شگون نہیں ہوا کرتا۔ اور اگر مان لیجیے کہ ایسا ہوتا بھی ہے تو منحوس و مذموم پارلیمنٹ کو قبول کرنے پر طاہرالقادری کی آمادگی کو نیک شگون کیوں کہیے؟ ہم تو اُس وقت کا سوچ کر ڈر رہے ہیں کہ جب طاہرالقادری اپنی جماعت کے دیگر منتخب ارکان کے ساتھ اسپیکر کی نشست کے سامنے دھرنا دیں گے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی نشست کے سامنے بھی تو ڈی چوک جتنی جگہ ہے!
جماعت اسلامی کے امیر فرماتے ہیں کہ وسط مدتی انتخابات کی راہ ہموار کرنے میں حکومت ہی مرکزی کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ بات بھی ہم سمجھ نہیں پائے کہ ن لیگ اقتدار کی فلم ادھوری چھوڑ کر کیوں ہال سے نکلے گی؟ کہیں سراج الحق یہ تو نہیں کہنا چاہتے کہ ن لیگ کی حکومت چلنے دو، اقتدار کی آئینی مدت کا ہاف ٹائم آنے تک اِتنے بلنڈرز ہوچکے ہوں گے کہ وسط مدتی انتخابات کی راہ خود بخود ہموار ہوجائے گی!
سراج الحق صاحب کی احتیاط پسندی کا یہ عالم ہے کہ کسی کی دل آزاری کا سوچنے سے بھی کتراتے ہیں۔ حکومت اور اُس کے مخالفین کے درمیان بات چیت یا رابطوں کی راہ میں کھڑی کی جانے والی دیواروں یا رکاوٹوں کو بھی وہ اسپیڈ بریکرز قرار دے رہے ہیں!
لاشیں گرنے کے منتظر افراد میں مایوسی پھیلنے والی بات البتہ درست ہے کیونکہ ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ جس سسٹم پر لعنت بھیجی جارہی ہے اب اُسی سے معانقے کا عندیہ دیا جارہا ہے! چلیے، برف کچھ تو پگھلی، ماتھے پر بَل کچھ تو کم ہوئے! ؎
راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کُھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
ایک بار جب سسٹم کو اپنالیا جائے تو اُس کے خلاف جانے کی بات کون کرتا ہے؟ بارہا ایسا ہوا ہے کہ جو لوگ سسٹم کو اُلٹنے، پَلٹنے کی باتیں کرتے تھے وہ جب سسٹم کا حصہ بنے تو پچھلی باتیں محض بُھول نہیں گئے بلکہ حافظے ہی کو کہیں رکھ کر بُھول گئے! ع
جو بھی نمک کی کان میں پہنچا، نمک ہوا!
جب قوم کے سیاہ و سفید کے فیصلے کرنے کا اختیار اور قومی خزانے سے ''حسبِ توفیق‘‘ مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے تو اِنسان ہر گزری ہوئی بات کو ذہن سے کُھرچ کر پھینک دینا چاہتا ہے۔ ؎
اپنی ہی وفا یاد نہ اوروں کی جفا یاد
اب کچھ بھی نہیں ہم کو ''حکومت‘‘ کے سِوا یاد
سراج الحق ایسے اصحاب کا دم غنیمت ہے جو سیاسی حبس کے ماحول میں نقب لگاکر تازہ ہوا کے چند جھونکوں کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے سیاست کے منچلوں کو روشن دان کا غلط استعمال ترک کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اچھا ہے کہ روشن دان سے تازہ ہوا آئے، تعفّن کے بھپکے جمہوریت کی چار دیواری میں داخل نہ ہوں۔
احتجاجی تحریک سے لوگوں نے بہت کچھ کشید کیا ہے۔ انقلاب اور آزادی کے وحشت انگیز نعروں کی کوکھ سے نغموں اور ٹُھمکوں نے بھی جنم لیا ہے۔ بہت سوں نے حکومت مخالف تحریک سے برآمد ہونے والی تفریح کو سرپرائز سمجھ کر آنکھوں سے لگایا ہے اور چُوم کر دِل میں بسایا ہے! ایسے میں دُعا کرنی چاہیے کہ سراج الحق اور اُن کے ہم خیال اصحاب کی پُرخلوص کاوشوں کے بطن سے کوئی سرپرائز ہویدا نہ ہو۔ قوم کو جمہوریت اور جمہوری روایات کا استحکام درکارہے، محض دل بہلانے والا سرپرائز نہیں! کوشش کی جائے کہ دھرنوں کے خاتمے کو قوم کسی ہنی مُون پیریڈ کے خاتمے سے تعبیر نہ کرے!