تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-10-2014

گم نام سپاہی

اکتیس جولائی کوبھارت کے سبکدو ش ہونے والے آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے اپنا چارج چھوڑنے کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کے دوران یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ'' میں نے کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے سر قلم کرنے کا پاکستان سے ایسا بدلہ لیا ہے جسے وہ ہمیشہ یاد رکھے گا ‘‘بھارتی میڈیا سے کی جانے والی اس گفتگو نے تمام ابہام دور کر تے ہوئے ان اندازوں کو سچ ثابت کر دیا کہ تحریک طالبان پاکستان در اصل بھارت کی مکتی باہنی کا دوسرا نام ہے جو افغانستان میں ان کی تربیت کرنے والے بھارتی افسران کے کہنے پر پاکستانی فوجیوں کے سر قلم کر رہی ہے۔ جب چند ماہ قبل ٹی ٹی پی سے مذاکرا ت چل رہے تھے تو اس وقت ایف سی کے23 جوانوں کے سر قلم کرنے کے بعد ان سے فٹ بال کھیلتے ہوئے طالبان کی ویڈیو نے سب کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ اس کے پیچھے پاک فوج کے کسی ابدی اور جانی دشمن کا ہاتھ ہی ہو سکتا ہے۔
جب سوات میں ہر طرف بے گناہوں کا قتل عام جاری تھا‘ جب لاشوں کو قبروں سے نکال کر چوکوں میں لٹکایا جا رہا تھا‘ جب لاکھوں کی تعداد میں نورانی چہرے والی پختون مائیں، اپنی عزتوں کو ایمان کا درجہ دینے والی پاکباز پشتون بیٹیاں ،معصوم بچے اور بچیاں،سفید داڑھیوں اور جھکی ہوئی کمروں والے بوڑھوں کا جینا حرام ہو کر رہ گیا تھا‘ جب ان کے صحت کے مراکز اور ان کی درسگاہیں جلائی جا رہی تھیں‘ جب ان کا گھروں میں رہنا عذاب بن گیا تھا‘ جب انتہا پسند اﷲ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کرتے ہوئے سوات کی نوعمر بیٹیوں سے '' زبردستی نکاح‘‘ کر رہے تھے ۔۔۔۔اس وقت
پاک فوج کو اللہ کا حکم یاد دلایا گیا۔ مفہوم: اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں لڑائی کیلئے نہیں نکل رہے‘ نکلو ان کمزور مردوں ، بچوں اور عورتوں کے واسطے جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب‘ ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مدد گار بھیج ( سورہ نساء:75) اور پاکستان کی فوج اﷲ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے ان مظلوموں کی مدد کے لیے سوات‘ مالاکنڈ اور مہمند ایجنسی کی آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑی تھی۔۔۔ پاک فوج،ایف سی اور پولیس کے درجنوں افسر اور جواں راہ حق میں اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ ان شہیدوں کی شان حضرت ابو امامہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ۔۔۔اﷲکو کوئی بھی چیز اتنی محبوب نہیں جتنے دو قطرے محبوب ہیں۔ان میں سے ایک قطرہ آنسوئوں کا جو خوف خدا سے گرے اور دوسرا قطرہ خون کا جو راہ خدا میں گرے۔۔۔ایک دوسری حدیث مبارکہ جو حضرت عباسؓ سے روایت ہے۔۔۔رسول اﷲﷺ نے فرمایا‘ دو آنکھیں ایسی ہیں جن کو دوزخ کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی۔۔۔ایک وہ جو راتوں کو خوفِ خدا سے روئی اور دوسری وہ جس نے رات راہِ خدا میں نگہبانی کرتے گزاری۔ 
رمضان المبارک کی ستائیسویں شب معرض وجود میں آنے والے پاکستان کی نگہبانی کرتے ہوئے شہید ہونے و الے سپاہی آصف جوکھیو،حوالدار خالد، اﷲڈینو، نثار علی ، غلام مصطفیٰ ، ساجد علی سولنگی،لانس نائیک عاصم محمود ، ذکااﷲ ،پشاور پولیس کے اے ایس آئی خائستہ خان اور وہ جانثارانِ وطن جن کے ناموں سے کوئی واقف نہیں‘ وہ جنہیں صرف ان کے ارد گرد کے لوگ بمشکل جانتے تھے لیکن آج وہی اﷲ کے نزدیک سب سے پیارے اور بلند رتبے والے ہیں۔ ہماری تاریخ کا فخر ایسے ہی جانبازوں سے قائم ہے جنہیں ہم نے سوات‘ مالا کنڈ اور وزیرستان میں دیکھ لیا ہے۔
سندھ کے ضلع سانگھڑ کے ایک چھوٹے سے گوٹھ بھاروسن کے 21 سالہ ساجد علی سولنگی کی شادی کو ابھی صرف چھ ماہ ہوئے تھے اور اس کی دلہن ابھی اپنے ہاتھوں پر لگی سہاگ کی مہندی کے نقش و نگار میںکھوئی ہوئی تھی کہ ساجد علی رخصت ہو گیا۔ وہ سہاگن آج بیوہ ہو چکی ہے‘ کس کیلئے؟ ۔۔۔ ہم میں سے کسی نے ایک دفعہ بھی سوچا ہے کہ کیوں اور کس کیلئے؟ میر پور خاص سندھ کے گائوں علی نواز کا تیس سالہ غلام مصطفیٰ راہِ نجات میں شہید ہوا۔ اس کا تین سالہ بیٹا اور ایک سال کی ننھی منی گڑیا باپ کی شفقت سے محروم ہو چکے ہیں ۔کیا کبھی سوچا گیا کہ یہ کس لئے اور کس کیلئے یتیم ہوئے ہیں؟ یہ اس پاکستان کی خاطر یتیم ہوئے ہیں جو ہمارے پاس اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی امانت ہے۔ اﷲ کی امانت یہ پاکستان چند ہزار لٹیروں کا نام نہیں‘ اوپر اور نیچے مختلف شکلوں میں قابض ٹیکس چوروں کا نام نہیں، راشی افسروں اور کمیشن کھانے والے لٹیرے سیاستدانوں کا نام نہیں، بینکوں کے اربوں روپوں کے قرضے ڈکارنے والے لیڈروں کا نام نہیں، پورے لاہور کی ہر گلی‘ سڑک اور کونے پر کھڑی ہوئی گاڑیوں سے سرکار کے نام پر بیس روپے چھیننے والوں کا نام نہیں،منشیات فروشوں اور قبضہ گروپوں کا نام نہیں۔۔۔۔پاکستان نام ہے ان لوگوں کا جن کی ہزاروں مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی پاک عصمتوں کا خون اس کی بنیادوں میں شامل ہے‘ جس کی بنیادوں میں1947ء میں لا الہ الا اﷲ کے نعرے لگانے کے جرم میں کافروں کے ہاتھوں ذبح ہونے والے ہزاروں نہتے مسلمانوںکی کٹی پھٹی لاشیں دفن ہیں ۔۔۔خاکی وردی پہن کر پاکستانی فوج کا ہر ساجد سولنگی، عاصم محمود، آصف جوکھیو، ذکا اﷲ اور غلام مصطفیٰ یہی سوچتا ہے کہ اگر ایک قدم بھی پیچھے ہٹایا تو دشمن کا ناپاک ہاتھ پاکستان کی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کی طرف بڑھے گا۔
ان گم نام شہیدوں کا تعلق پاکستان کے ہر خطہ سے ہے۔ پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلے ہوئے یہ گم نام سپاہی جو سوات کی وادیوں، مہمند ایجنسی ،بونیر، دیر بالا، وزیرستان، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ میں ارض پاکستان کی نگہبانی کرتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں‘ ان کی رگوں میں وہی خون دوڑ رہا ہے‘ جس نے 1947ء میں کافروںکے ہاتھوں مقدس کتاب کی بے حرمتی ہوتے دیکھی تھی۔ ان کے بزرگوں نے انہیں بتایا تھا کہ کس طرح کافروں نے مسجدوں میں جانوروں کو باندھا۔ ان کے سامنے ان مسجدوں میں پلید جانوروں کو ذبح کیا گیا اور یہ سپاہی جان گئے کہ مساجد میں پلید جانور باندھنے والا وہی دشمن آج نئے میرجعفروں اور میر صادقوں کی آڑ میں دہشت پھیلا کر اﷲ کی دی گئی امانت پاکستان کو ہم سب سے چھیننے نکلا ہے۔ 
یہ گم نام شہید کون ہیں؟۔۔۔۔انہیں کوئی جانتا پہچانتا نہیں تھا ۔ پاکستان کی مختلف چھائونیوں کی سڑکوں پر، با زاروں میں یہ کئی بار ہمارے قریب سے گزرے ہوں گے، بسوں، ویگنوں، ریل گاڑیوں میں ان میں سے اکثر ہمارے ساتھ بیٹھے ہوں گے اور ہم نے ان کی طرف دیکھا بھی نہ ہو گا۔ وہ دوردراز گمنام سے دیہات کے گم نام سپاہی تھے۔ سادہ سے۔ لیکن سب دیکھ رہے ہیں کہ گمنام دیہات کے یہی بے نام اور گم نام سپاہی نعرۂ حق کی گرج بن کر دشمن کی سدھائی ہوئی کفر کی آہنی اور آتش فشاں متحرک چٹانوں پر بجلیاں بن کر گر رہے ہیں۔ ان کے جسم زخموں سے چُور ہیں لیکن وہ آخری دم تک دیکھے اور ان دیکھے دشمن کی راہ میں فولادی چٹانیں بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔میرا آج کا یہ کالم قوم کے انہی گمنام جانبازوں کے نام ہے جن کے سر تحریک طالبان والوں نے کاٹے...!! 
وہ شہیدانِ وطن جن کا کہیں ذکر نہیں
انہی گم نام شہیدانِ وطن کو ہو سلام! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved