تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-10-2014

محض دس منٹ

معاملہ صرف دس منٹ کا تھالیکن یہ دس منٹ گھنٹوں پر محیط لگتے تھے۔ میں بس میں تھا اور صرف فون ملا رہا تھا۔ مانچسٹر سے روانہ ہوا تو سب کچھ انتہائی نارمل تھا۔ مانچسٹر شہر سے نکلتے نکلتے تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ گلاسگو جانے کے لیے بس کا وقت مناسب نہیں تھا مگر مجبوری تھی۔ یہ رش کا وقت تھا اور خاص طورپر ''لانگ ویک اینڈ‘‘ کا آغاز ہورہا تھا۔ جمعہ کی شام چھ بجے انتہائی رش کا وقت تھا۔ روانگی سے تھوڑا پہلے میری‘ اپنی منجھلی بیٹی سے فون پر بات ہوئی‘ وہ اس وقت جلسے میں تھی۔ کئی بار کی ٹرائی کے بعد اس سے بات ہوئی۔ جب فون ملا تب بھی پیچھے بہت شور تھا۔ بڑی مشکل سے بات ہورہی تھی اور بیک گرائونڈ کے ہنگامے کے باعث بات ہونے میں بڑی دقت پیش آرہی تھی مگر بہرحال آدھی پچادھی بات ہوئی۔ سارہ بہت پرجوش تھی اور اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ یہ اس کی کسی سیاسی جلسے میں پہلی بار شرکت تھی۔ اس لحاظ سے وہ بڑی Excitedتھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جلسہ بڑا شاندار تھا اور وہ اتنے لوگوں کے جمع ہونے سے بھی بڑی ہیجان زدہ تھی۔ اس نے جلسے میں شامل ہونے کے لیے پچھلے کئی دنوں سے تیاری کی ہوئی تھی۔ عزیر اس کے ساتھ جلسے میں آنے کے لیے پہلے سے ہی تیار تھا۔ شادی کے بعد بھی وہ کہاں جانا ہے اور کہاں نہیں جانا‘ مجھ سے پوچھتی ہے لیکن میں ہمیشہ اسے یہی کہتا ہوں کہ اب اس بات کا فیصلہ تم نے عزیر سے پوچھ کر کرنا ہے لیکن برسوں کی عادت اتنی جلد ختم نہیں ہوتی۔
سارہ کے ساتھ سارے بچے شامل تھے ۔ اسد، انعم ، توقیر گزشتہ کافی عرصے سے کسی ایسے جلسے میں شرکت کرنے کے لیے بے چین تھے اور اب انہیں بڑی مدت کے بعد مشکل سے یہ موقع ملا تھا۔ میں چار دن پہلے ملتان سے برطانیہ روانہ ہوا تو اسد اور انعم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ عمران خان کے 10اکتوبر والے جلسے میں جاسکتے ہیں ؟ میں خود پاکستان سے باہر جارہا تھا لہٰذا ایک لمحہ کے لیے میں تھوڑا پریشان ہوا کہ کیا جواب دوں ؟ اسی دوران اسد کہنے لگا کہ وہ سارہ باجی کے ساتھ جائیں گے۔ عزیر بھائی بھی ساتھ ہوں گے، انعم ہوگی ، ماہ رخ وغیرہ بھی ہوں گے۔ میں خود ساتھ ہوتا تو اور بات تھی مگر باوجود اس کے کہ بچے سمجھدار ہیں ، محتاط ہیں اور ماشاء اللہ بڑے بھی ہوچکے ہیں، میں ابھی تک انہیں چھوٹا بچہ سمجھتا ہوں۔ پھر جلسوں وغیرہ میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے خوف نے مزید محتاط کردیا ہے، اس لیے میں تھوڑا متذبذب تھا۔ مجھے نا رضامند دیکھ کر اسد کہنے لگا‘ مجھے سب پتا ہے کہ آپ خود جلسوں جلوسوں میں جاتے تھے۔ ایک بار ندیم انکل بتا رہے تھے کہ آپ 1977ء میں کرفیو کے دوران بھی جلوس 
میں شرکت کے لیے گلیوں میں سے چوک بازار والی مسجد پھول ہٹ میں پہنچ جاتے تھے۔ میں نے ایک لمحہ سوچا اور پھر انہیں جلسے میں جانے کی اجازت دے دی۔
جیسا کہ میں پہلے بھی اپنے ایک کالم میں بتا چکا ہوں کہ میرے بچے تحریک انصاف کے بلکہ زیادہ صاف بتائوں تو عمران خان کے دیوانے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بالکل نہیں کہ انہیں عمران بحیثیت سابق کپتان یا کھلاڑی پسند ہے۔ میرے بچوں کو کرکٹ سے رتی برابر دلچسپی نہیں لیکن وہ بھی '' پاکستان ‘‘ چاہتے ہیں اور ان کے نزدیک اس کام کے لیے عمران سے بہتر تو چھوڑیں عمران کے علاوہ اور کوئی بھی شخص فی الوقت نظر نہیں آرہا۔ میری اجازت ملتے ہی بچوں نے جلسے کے لیے باقاعدہ پلاننگ اور اس سے بھی بڑھ کر تیاری شروع کردی۔ اسد نے سبز ٹی شرٹ اور سرخ جوگرز کا انتخاب کیا۔ بچیوں نے سرخ اور سبز دوپٹے بنوائے ۔ آہستہ آہستہ گھر کے علاوہ دیگر بچوں نے بھی اس جلسے میں شرکت کے لیے اپنی اپنی انٹری ڈالنی شروع کردی۔ ماموں کی دونوں بڑی بیٹیاں ماہ رخ اور رامین تو شرکاء میں شامل تھیں لیکن اسی دوران آٹھ سالہ فاطمہ نے رو رو کر بُرا حال کرلیا حتیٰ کہ اسے بھی شرکت کی اجازت مل گئی۔ اسی دوران انعم کی سہیلیاں جن کی قیادت طوبیٰ کررہی تھی شامل ہوگئیں۔ سارہ کی سہیلیاں اور خالہ زاد سلمان سب ملاکر تقریباً پندرہ لوگ تھے جو اس جلسے میں جانے کے لیے تیار تھے ۔ ان سب بچوں نے اس سے پہلے جلسوں کا منظر صرف ٹی وی چینلوں پر تو دیکھا تھا مگر زندگی میں پہلی بار کسی جلسے میں بذات خود شرکت کررہے تھے۔ 
اگر سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو ملتان کا10اکتوبر کا جلسہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ سب کے لیے، عمران خان کے لیے ، حکومت کے لیے اور سب سے بڑھ کر جاوید ہاشمی کے سیاسی مستقبل کے لیے ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں جو اس جلسے کے حوالے سے 16دسمبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج سے جڑے ہوئے ہیں مثلاً شاہ محمود قریشی اینڈ کمپنی۔ ملتان میں ابھی تک الیکشن کا ماحول نہیں بنا تھا لیکن 10اکتوبر والے جلسے نے ماحول بنا دیا ہے اور زور و شور سے معاملہ گرما گرمی کی طرف چل پڑا ہے۔ ملتان میں بہت سے لوگوں کی عزت اس الیکشن سے منسلک ہوچکی ہے خاص طور پر جاوید ہاشمی کی سیاسی عزت و آبرو اور مستقبل۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ الیکشن عمران خان کے لیے بھی عزت و آبرو کا سوال بن چکا ہے اور حکومت کے لیے بھی۔ اگر جاوید ہاشمی جیت جاتا ہے تو یہ عمران خان کے لیے جہاں ہزیمت کا باعث ہوگا وہیں شاہ محمود قریشی کے لیے بھی شرمندگی اور شکست کا باعث ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے الیکشن سے محض چھ دن قبل ایک بڑا جلسہ کرکے الیکشن کا ماحول بنانے اور اپنے ورکر کو مزید چارج کرنے کی کوشش کی ہے۔ بظاہر (محض انتخابی نشان بلے کی حد تک) پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار نہیں ہے مگر عامر ڈوگر پی ٹی آئی کا حقیقی امیدوار ہے۔ عامر ڈوگر بے شک محنتی سیاسی ورکر ہے مگر ڈوگر خاندان کی تمام تر سیاسی کامیابیوں اور عوامی رابطوں سے قطعِ نظر پڑھے لکھے ووٹروں میں ابھی تک ان کی شہرت کوئی اچھی نہیں۔ عامر ڈوگر بحیثیت امیدوار بڑا اچھا انتخاب ہے اور پی ٹی آئی کی حمایت کے بعد اس کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈوگر خاندان اپنے رہائشی حلقے میں جہاں رہتے ہیں وہاں کی یونین کونسل میں بھی نہیں جیت سکتے۔ 
(باقی صفحہ 17پر) 
(بقیہ خالد مسعود) 
عمومی طور پر ڈوگر خاندان کے بارے میں ان کی ملنساری ، عوامی میل جول اور لوگوں کی غمی خوشی میں شرکت کے حوالے سے بڑی اچھی رائے ہے اور خصوصاً عامر ڈوگر کے بارے میں مگر اس کے باوجود ماضی میں قبضے ، بھتہ خوری، دادا گیری اور مال پانی بنانے کے حوالے سے شہرت ابھی لوگوں کے ذہن سے نہیں نکلی اور اس حوالے سے پی ٹی آئی کا پڑھا لکھا ووٹر پریشان بھی ہے اور متذبذب بھی کہ وہ اس خاندان کے چشم و چراغ کو ووٹ دے کر کون سا نیا پاکستان تشکیل دے رہے ہیں؟
یہ جاوید ہاشمی کی سیاسی زندگی کے لیے فیصلہ کن الیکشن تو ہے ہی۔ ایک مشکل الیکشن بھی ہے۔ اس سے قبل جاوید ہاشمی اپنی ساری سیاسی زندگی میں اس قسم کے حالات سے دو چار نہیں ہوا۔ پی پی پی کا امیدوار بظاہر الیکشن لڑرہا ہے مگر حقیقتاً وہ جاوید ہاشمی کی مدد کررہا ہے اور عامر ڈوگر کے لیے نقصان دہ ہے۔ 10اکتوبر کے جلسے کے بعد حالات جاوید ہاشمی کے لیے مزید مشکل ہوگئے ہیں۔ دھاندلی ممکن ہی نہیں اور دونوں بڑے امیدواروں کے پاس انتخابی نشان بالٹی اور خرگوش ہے۔ الیکشن میں اب جوش پیدا ہوگا۔
میں نے پانچ بجے فون کیا تو سارہ سے بات ہوئی وہ جلسے میں تھی۔ اس نے بتایا کہ قاسم باغ سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور بہت سے لوگ باہر ہیں۔ بقول اس کے اس نے اتنا بڑا مجمع پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے ہنس کرپوچھا کہ اس نے اس سے پہلے کبھی کوئی جلسہ دیکھا بھی ہے؟ وہ ہنسی اور کہنے لگی میں نے دیکھا تو نہیں لیکن مجھے پتا ہے‘ ملتان میں اس سے پہلے ایسا جلسہ کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ ملتان میں قاسم باغ سٹیڈیم میں اس سے پہلے دو بڑے جلسے ہوئے ہیں۔ پی این اے کا جلسہ جو 1977ء میں ہوا اور 1993ء میں نوازشریف کا جلسہ جو انہوں نے فارغ ہونے کے بعد کیا تھا مگر دونوں بار قاسم باغ سٹیڈیم پورا سو فیصد نہیں بھرا تھا۔ اس دوران گزشتہ اکیس سال میں کسی پارٹی نے اس سٹیڈیم میں جلسہ کرنے کی جرأت اور ہمت ہی نہیں کی تھی۔ اس لحاظ سے پورا سٹیڈیم بھرنا اور اردگرد کی سڑکوں ، پلاٹوں اور راستوں کا بھرجانا۔ یہ یقینا بلاشبہ ملتان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ ساڑھے چھ بجے جب میں مانچسٹر سے گلاسگو کے راستے میں تھا‘ پتا چلاجلسے میں واپسی پر بھگدڑ مچنے سے کئی لوگ جاں بحق ہوگئے ہیں۔ میں نے سارہ کو فون کیا۔ اس کا فون مصروف تھا۔ اسد کو فون کیا‘ فون بند تھا۔ انعم ، ماہ رخ اور طوبیٰ کا فون بھی بند تھا۔ سارہ کا فون مسلسل مصروف تھا۔ یہ صرف دس منٹ کا معاملہ تھا مگر صدیوں پر مشتمل لگ رہا تھا۔ بالآخر کامران کو فون کیا‘ اس کا فون مل گیا۔ اس نے بتایا کہ بچے خیریت سے ہیں۔ فون بند کیا تو سارہ کا میسج آچکا تھا کہ سب خیریت ہے۔ اس دوران میری جان سولی پر اٹکی رہی ۔ دو منٹ بعد سارہ سے بات ہوئی تو تسلی ہوئی۔ میں نے بس کی سیٹ پر ٹیک لگائی اور سوچا کہ ماں باپ ہونا کتنا مشکل کام ہے۔ مجھے خیال آیا کہ ہمارے والدین بھی ہمارے لیے اسی طرح پریشان ہوتے تھے ۔ تب موبائل ہوتا تھا اور نہ ہی لائیو ٹی وی کوریج۔ جب تک ہم بذات خود گھر نہ پہنچ جاتے تھے ان کی جان سولی پر لٹکی رہتی تھی۔ ماں باپ بنے بغیر ماں باپ کے جذبات سمجھے ہی نہیں جاسکتے۔ ان دس منٹوں نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور کیا کیا بات سمجھادی۔ صرف دس منٹوں نے عشروں پرانی چیزیں یاد دلادیں۔ ماں باپ کی محبت اور فکر مندی۔ محض دس منٹ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved