سیاست میں نام اور الفاظ تو بدلتے رہتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ سیا ست دانوں کی زبان سے کچھ ایسے الفاظ ادا ہوجاتے ہیں کہ بے ساختہ بھولی بسری باتیں یاد آنے لگتی ہیں۔دودن پہلے پاکستانی سیا ست کی سب سے ذہین و فطین شخصیت آصف علی زرداری فیصل آباد اور اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے پُرانے جیالوں اور نئے متوالوں سے خطاب کرتے ہوئے پیار بھری مسکراہٹ، جو ان کی شخصیت کا خاصہ ہے ، سے سب کا جی لبھاتے اور کبھی زمانے کی اونچ نیچ سے ہوشیار کرتے رہے۔ اسی دوران انہوں نے ''سرخی پائوڈر‘‘ دیکھ کر عمرا ن خان کی جانب مائل ہونے والوں کو بھی ہدایت فرمائی اور کہا کہ عمران خان تو پاکستان کی سیا ست میں فقط'' پانی کا ایک بلبلہ‘‘ ہے اور یہ کہ سوچو ، پانی کا بلبلہ کتنی دیر تک قائم رہ سکتا ہے؟
جناب آصف علی زرداری کی زبان سے جو سب سے با معنی اور خوبصورت فقرہ نکلا وہ'' بلبلے‘‘ والا ہے۔ کس قدر خوب صورت تشبیہ دی ہے انہوں نے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک کی اصل سیا سی شخصیت کون ہے؟ ان کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر جب بار بار چمک رہے تھے تو مجھے پاکستان کی سیا ست کے دو پرانے کردار بھی یاد آنے لگے ۔ان میں سے ایک تو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو شہا دت کے منصب پر فائز ہو کر اپنے اﷲ کے دربار میں پہنچ چکے ہیں لیکن دوسرا کردار جو ابھی خیر سے زندہ سلامت ہے ۔ان کا اسم گرامی سید احمد سعید کرمانی ہے۔ زرداری صاحب نے عمران خان کے بارے میں 9اکتوبر2014 ء کو جو الفاظ کہے ،ہو بہو وہی الفاظ آج سے45 برس قبل سید احمد سعید کرمانی نے،جو اس وقت ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خزانہ اور اطلاعات ( پرویز رشید) کے فرائض انجام دے رہے تھے، پیپلز پارٹی کے بانی چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں اس دن کہے تھے جب وہ لاہور میں4-A مزنگ روڈ پر پیپلز پارٹی کے مرکزی دفتر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرنے والے تھے ۔ ان کے خطاب سے چند گھنٹے قبل سید احمد سعید کرمانی نے کہا تھا کہ '' پیپلز پارٹی صابن کی جھاگ سے بننے والا فقط ایک بلبلہ ہے‘‘یہ الفاظ اگلے روز ملک کے تمام اخبارارت کے پہلے صفحات پر شائع ہوئے تھے ۔وہ جیالے جو آج بقید حیات ہیں۔انہیں کرمانی صاحب کے فرمائے گئے وہ الفاظ یاد ہی ہوں گے؟۔ لیکن اگر وہ پارٹی کو اسی طرح بھول چکے ہیں جیسے پارٹی انہیں بھول چکی ہے تو پھر ہو سکتا ہے کہ انہیں کچھ بھی یاد نہ رہا ہو؟۔ اس وقت ہر نوجوان کی طرح ہم بھی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ترقی پسندانہ منشور اور مزدور کسان کے حوالے سے ان کی تقریروں کے گرویدہ ان کی سحر انگیز شخصیت کے شیدائی تھے ۔ جب کرمانی صاحب نے ان کے بارے میں مذکورہ الفاظ کہے تو اسی وقت میں نے ایک شعر لکھا تھا اور وہ شعر آج سے بارہ سال قبل کرمانی صاحب کو ان کے گھر واقع شادمان میں سنایا بھی تھا ۔شعر کچھ یوں تھا '' یہ وہ بلبلہ نہیں جسے تم
کہتے ہو بلبلہ۔۔۔خوش فہمی میں ہو مبتلاتم خود ہو بلبلہ ‘‘۔اور وقت نے ثابت کر دیا کہ ذوالفقار علی بھٹو جنہیں بلبلہ کہا گیا تھا ان کو شہید ہوئے35 برس ہو چکے ہیں لیکن وہ آج بھی اپنی قبر سے اس ملک پر تو کبھی اس کے کسی نہ کسی حصے پر حکومت کر رہے ہیں لیکن انہیں بلبلے سے تشبیہ دینے والے کرمانی صاحب زندہ سلامت ہوکر بھی، ہر چند کہیں کہ ہیں ،نہیں ہیں؟۔
پاکستان کے ایک لکھاری نے عمران خان کے تیس اکتوبر کے مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کے بعد لکھا تھا کہ اب عمران خان کو اس دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی ،ہاں جب تک وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ختم نہ کرے۔ اس لکھاری نے پنجابی کی ایک مشہور ترین فلم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کی مثال اس وقت ایسے ہے کہ'' مولے نوں مولا نہ مارے ، تے مولا نہیں مر سکدا ‘‘۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کس قدر غلطیاں اور بلنڈر کرتے ہیں۔ بہرحال ایک بات انہیں ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ان کے چاہنے
والوں میں نہ تو جیالوں کی بھرمار ہے اور نہ ہی متوالوں کے ہجوم ‘‘۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی ذات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی ہر بات پتے کی ہوتی ہے۔ سب کو یاد ہو گا کہ انہوں نے انتخابات کے چار دن بعد بلاول ہائوس لاہور میں سینئر صحافیوںسے گفتگو میں کھل کر کہا تھا'' اگر میرے پاس اس قسم کے ریٹرننگ افسر ہوں جیسے میاں نواز شریف کے پاس تھے تو میں اگلا صدارتی الیکشن آسانی سے جیت سکتا ہوں‘‘اب رہی بات بلبلے والی تو انہوں نے یہ بات ہوا میں نہیں کہی بلکہ پاکستان کی سیا سی تاریخ کے آئینے میں سب کچھ دیکھنے کے بعد کہی ہے ۔اگر کسی نے زرداری صاحب کی عمران خان کے بارے میں کہی ہوئی بات کی گہرائی میں جا کر اسے جانچا تو اسے یہ سچائی سامنے رکھنی ہو گی کہ اس ملک میں صرف اور صرف موروثی سیا سی جماعتیں ہی پنپ سکتی ہیں جیسے بھٹو کے بعد بے نظیر اور اب بلاول۔ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ اور مریم ۔مفتی محمود، فضل الرحمن، باچا خان ، ولی خان اور اب اسفند یار ولی خان، چوہدری ظہور الٰہی، شجاعت حسین ‘ پرویز الٰہی اور مونس الٰہی۔ غوث بخش بزنجو اور اب حاصل بزنجو؟اور ...اور نہ جانے کتنے؟...!