پاکستانی سیاست ایک عجیب موڑ مڑ رہی ہے ۔ایسا لگتاہے کہ فنا کا ازلی کھیل شروع ہو چکا۔
پیپلز پارٹی کو دیکھیے ۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جویحییٰ خاں اور شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مشرقی پاکستان سانحے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ 1970ء کا الیکشن مجیب الرحمن نے جیتا تھا۔ اتنی واضح اکثریت کے ساتھ کہ بھٹو ان سے نصف نشستیں ہی حاصل کر پائے تھے۔ ایسے میں پنجاب سندھ، سرحد اور بلوچستا ن کی صوبائی حکومتوں پہ اکتفا کرتے ہوئے بھٹو انتقالِ اقتدار کے لیے اپنا وزن مجیب الرحمن کے پلڑے میں ڈال دیتے تو مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا۔
خیر، ہوسِ اقتداراور انتقام سے قطع نظر، ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے لیڈر تھے ۔ پیپلز پارٹی کی باگ بظاہر اب بلاول بھٹو ، درحقیقت آصف علی زرداری کے ہاتھ ہے ۔ انہیں سیاست کا ایک ایسا شاطر کھلاڑی سمجھا جاتاہے ، جو کسی بھی وقت حیران کن سیاسی چال سے اپنے حریفوں کو چت کر سکتاہے ۔ ایسے میں ، میں ان کے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے ڈوبتے ہوئے سفینے کو دیکھتا اور حیران رہ جاتاہوں ۔ بھٹو کی جماعت اب اپوزیشن کا کردار اداکرنے کے قابل بھی نہیں رہی ۔ چالاکی، لفاظی اور وقتی مفاد کا حصول سیاسی جماعت کو لمبی عمر نہیں بخش سکتا۔ ایک کم از کم کارکردگی درکار ہے ۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کو یہ اصول معلوم ہے اور انہوں نے کم از کم کارکردگی کا تہیہ کر لیا ہے ۔
تحریکِ انصاف کو دیکھیے ۔ کبھی کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ 80لاکھ ووٹ اڑا لے جائے گی ۔ یہ سب تو ٹھیک لیکن تا دمِ تحریر پی ٹی آئی کی تمام تر مقبولیت کا منبع کپتان ہی کی ذات ہے ۔دوسرے الفاظ میں شخصیت پرستی ۔ پارٹی اور پختون خوا حکومت کی سطح پر وہ اقدامات نظر نہیں آتے ، جو اسے پاکستانی عوام کا نجات دہندہ ثابت کر سکیں ۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے ، سیاست کے میدان میں وہ ایسی سوچی سمجھی حکمتِ عملی اپنانے میں ناکام نظر آتے ہیں ،جو انہیں کامیابی دلا سکے ۔
14اگست سے جاری تحریک ہی کو دیکھیے ۔ خلقِ خدا میں نون لیگ کی حکومت سے بیزاری اپنے نقطہ عروج پر پہنچے سے بہت قبل ہی کپتان نے مہم شروع کر دی ۔ سول نافرمانی پر خود پارٹی رہنمائوں نے عمل درآمد نہ کیاکہ یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ اگلے عام انتخابات جب بھی ہوں ، تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو استعفوں کی سیاست کا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتاہے ۔ کراچی، لاہور، میانوالی اور ملتان کے شاندار جلسوں کے بعد کپتان کو اسلام آباد کے اس طویل اور غیر موثر دھرنے سے جان چھڑا لینی چاہیے ، جس میں شرکا کی تعداد ناکافی ہے ۔ علّامہ طاہر القادری سے اتحاد بھی ایک بڑی سیاسی غلطی ہے ، جس کے نتائج انہیں بھگتنا ہوں گے ۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن جب ہم پے درپے عظیم الشان جلسوں کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ تین دہائیوں سے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی روایتی سیاست سے تنگ عوام کی ایک بڑی تعدادخان ہی کواپنا مسیحا سمجھ رہی ہے ۔ عمران خان کے مدّاح مایوس ہرگز نہیں اور ڈٹ کر اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
ایسے میں آپ نون لیگ کو دیکھیے اورآصف علی زرداری سے ان کے گٹھ جوڑ کو دیکھیے ۔ اپنی تمام تر خامیوں اور ناقص حکمتِ عملی سے قطع نظر ، تحریکِ انصاف اگر نہ ہوتی تو کسی بھی دبائو سے آزاد شریف حکومت کا روّیہ کیا ہوتا؟ میٹرواور لیپ ٹاپ سمیت، یہ جو چمکتے دمکتے منصوبے آپ دیکھ رہے ہیں اور یہ جو تحرّک نون لیگ میں نظر آتاہے ، تحریکِ انصاف کی عدم موجودگی میں بھی کیا یہ اسی طرح ہوتا؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر کپتان کا دبائو لیگی رہنمائوں میں عاجزی پیدا کیے رکھتاہے وگرنہ وہ خدائی لہجے میں بولنے لگتے ہیں ۔
پھر چھوٹی جماعتیں ہیں ۔ ایم کیو ایم ، جمعیت علمائِ اسلام ، جماعتِ اسلامی اور اے این پی ۔ سب آزمائی جا چکیں اور ناکام رہیں ۔ ان میں سے تو کوئی سینکڑوں سال تک بھی ملک گیر کامیابی کا تصور نہیں کر سکتی ۔ سب اپنے اپنے بحرانوں کا شکار اور اپنے محدود سے حامیوں کے ساتھ بقا کی جنگ میں مصروف ۔
پھر آپ فوج کی طرف دیکھتے ہیں ۔ پے درپے مارشل لائوں اور ماضی کی غلطیوں سے قطع نظر، اب وہ سول قیادت کی راہ میں رکاوٹ نہیں ۔ 2009ء کے جنوبی وزیرستان اور سوات آپریشن ، شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی ، اندرونی دہشت گردی کے خلاف دس سالہ مزاحمت، افغان سرحد پر دبائو کا سامنااور سات گنا بڑے بھارت کی کامیاب مزاحمت ۔ فوج ہی اپنا کردار درست طریقے سے ادا کر رہی ہے ۔عراق، شام ، افغانستان ، لیبیااور مصر کی صورتِ حال کے بعد جب میں اپنی مسلح افواج، شاندار میزائل اور ایٹمی پروگرام کو دیکھتا ہوں تو شکر بجا لاتا ہوں ۔یہی وہ قوّت ہے ، جس نے ریاستِ پاکستان کو بکھرنے سے روک رکھا ہے ۔ انشاء اللہ خدا کے حکم سے روکے رکھے گی ۔
پھر میں دوبارہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے اس منافقانہ گٹھ جوڑکو دیکھنے لگتا ہوں ، جس کی اصل بنیاد شاید حقیقی احتساب کے نفاذ سے انکار ہے ۔ ادھر شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک جیسے کردار کلہاڑیاں تھامے تحریکِ انصاف کے اس تنے پر وار کر رہے ہیں ، جسے کپتان نے 18برسوں میں پروان چڑھایا تھا۔ اس سب کے باوجود،تاحال کپتان کی مقبولیت برقرار ہے ۔تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور خیر خواہوں کو یقین ہے کہ عمران خان کی قیادت میں ملک حقیقی تبدیلی کی منزل پا سکتاہے ۔ ایسا ممکن ہے لیکن پارٹی میں ایک سخت گیر احتساب اور حقیقی الیکشن کے بعد۔ اپنا گریباں چاک کرنے کے بعد۔ ایسا اگر نہ ہو سکا تو کوئی بھی کامیابی حاصل نہ ہوگی ۔ ہوئی بھی تو عارضی اور ادھوری ۔ اس کے بعد ایک عام آدمی کے لیے مایوسی کا دور دورہ ہوگا۔
ایسا اگر نہ ہوسکا ۔ اگر پاکستانی سیاست اپنی موجودہ روش پہ گامزن رہی تو ؟؟
ایسا لگتاہے کہ فنا کا ایک ازلی کھیل شروع ہو چکا ، جو سبھی کو نگل جائے گا۔ ایسا لگتاہے کہ اپنی ناکامی سے قبل کپتان پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو تباہ کر ڈالے گا۔ اگر یہی ہمارا مقدر ہے تو اس کھیل کے بطن سے پھر نئی قوّتیں جنم لیں گی ۔ یہ بہرحال طے ہے کہ پرانی سیاست کی عمر مکمل ہوچکی ۔مجھے یقین ہے کہ اگلے عشرے میں ہم کئی اداروں کو تشکیل پاتے دیکھیں گے ۔
پاکستان بدل رہا ہے ۔جو سیاسی قوّتیں خود کو اس تبدیلی سے ہم آہنگ نہ کریں گی ، مٹ جائیں گی ۔
جو تھا نہیں ہے ، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ