نوبیل لارئیٹ ملالہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ایک استاد‘ ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس میں بنیادی حیثیت کتاب ہی کو حاصل ہے کہ کتاب ہوگی ہی تو استاد پڑھائے گا اور قلم کا کتاب لکھنا ہی اس کا کوئی جواز ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں کتاب کا چلن اسی تناسب کا مرہون منت ہے جو ہمارے ہاں شرحِ تعلیم کا ہے جو انتہائی قابلِ رحم ہے اور جو ہمسایہ ملک بھارت سے تشویشناک حد تک کم ہے حالانکہ دونوں ملک ایک ہی دن آزاد ہوئے تھے‘ حتیٰ کہ شرح تعلیم کے لحاظ سے بنگلہ دیش بھی ہم سے کہیں آگے ہے؛ چنانچہ اگر کتاب کو ہمارے ہاں ایک کلچر کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ میں یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ الیکٹرانک میڈیا اور کمپیوٹر کے آنے سے کتاب کی اہمیت کم ہو گئی ہے‘ کیونکہ اس ٹیکنیک کی روشنی جس مغرب میں ہم سے کہیں پہلے پھیلی‘ وہاں کتاب کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہمارے ہاں رشتہ طے کرنا ہو تو یہ پوچھا جاتا ہے کہ فریق ثانی کی جائداد کتنی ہے جبکہ وہاں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کے گھر میں کتابیں کتنی ہیں۔ حتیٰ کہ وہاں پر صنف ادب کی دکانیں ہی علیحدہ علیحدہ ہیں تاکہ آپ کو کتاب خریدنے میں سہولت حاصل رہے‘ جبکہ ہمارے ہاں صورتِ حال یہ ہے کہ بعض اطلاعات کے مطابق پہلے جہاں کتابیں فروخت ہوا کرتی تھیں اب وہاں جوتوں کی دکان کھل گئی ہے۔ وہاں پر شوقِ مطالعہ کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ جو شخص بس یا ٹرین میں سفر کر رہا ہے‘ وہ ساتھ ساتھ کتاب بھی پڑھ رہا ہے‘ حتیٰ کہ اگر لوگ قطار میں لگے ہوئے ہوں تو بھی کتاب کے مطالعے سے غافل نہیں ہوتے۔
ہمارے ہاں کتاب کے نکاس کا کوئی سسٹم ہی موجود نہیں ہے اور ڈسٹری بیوٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے کتاب پبلشر کو خود ہی دکانوں پر پہنچانا ہوتی ہے۔ اول تو کتاب کا چھپنا بذاتِ خود ایک مسئلہ ہے‘ بجائے اس کے کہ ایک نیا شاعر رائلٹی کا حقدار ٹھہرے‘ پبلشر کی ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ مصنف خود کتنی کتابیں خریدے گا بلکہ اکثر حالات میں کتاب کا پورا خرچہ مصنف کو خود برداشت کرنا ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کتاب بکتی کم ہے اور پبلشر گھاٹے کا سودا کیوں کرے گا۔ کتاب کا کم بکنا اس وجہ سے بھی ہے کہ کاغذ روز بروز مہنگا ہو رہا ہے اور کتاب سے متعلقہ دیگر اخراجات بھی جبکہ ناشر کو بھی اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے اور حکومت کسی بھی صورت اس کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔
ہمارے ہاں کبھی کبھار کوئی کتاب میلہ بھی لگتا ہے اور ہم رسمی طور پر کتاب کا عالمی دن بھی مناتے ہیں‘ لیکن کتاب کی ترویج یہاں پر کسی حکومت کا دردِ سر نہیں ہوتی‘ حالانکہ اسے چاہیے کہ پبلشر کو کاغذ میں سبسڈی دی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک میں لائبریریوں کا جال بچھایا جائے کیونکہ لائبریریاں نہیں ہوں گی تو کتابوں کا نکاس کیونکر ہوگا جبکہ شہروں اور دیہات میں یونین کونسل کی سطح پر ایک اچھی لائبریری ہونی چاہیے جس کے قیام اور انتظام و انصرام کی ذمہ دار حکومت ہو۔ ہر لائبریری اس بات کی پابند ہو کہ شائع ہونے والی ہر معقول کتاب لائبریری ایک مقررہ تعداد میں خریدے جبکہ کتاب کے معیار کو جانچنے کے لیے حکومت مختلف مراکز میں ایسے بورڈز بھی قائم کرے۔ اسی طرح ضلعی سطح پر ہر سال معیاری کتابوں پر ایوارڈز بھی دینے کا اہتمام کیا جائے‘ جبکہ حکومتی سطح پر ناشرین کے سالانہ سیمینارز کا انعقاد بھی ہونا چاہیے تاکہ حکومت نہ صرف ان کے مسائل سے آگاہ ہو سکے بلکہ انہیں حل کرنے کا بھی تردد کرے‘ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں ٹیکس میں چھوٹ دے اور اہل اداروں کے لیے ایوارڈز کا اہتمام کرے کیونکہ ناشر ہی کتاب کی تکمیل و تشکیل اور ترویج کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے اس قدر آسودہ حال ہونا چاہیے کہ وہ ادیبوں کو مناسب رائلٹی بھی ادا کر سکے۔
اس کے علاوہ ناشرین کے لیے کرنے کا اور بھی کام ہے جو کتاب اور اس کے مطالعے کو آگے بڑھانے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ مثلاً کتابوں کے پیپر بیک ایڈیشن بھی شائع کیے جائیں کیونکہ اس طرح سے کتاب کی قیمت چوتھائی حد تک کم کی جا سکتی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچ سکے۔ بیشک اس میں پبلشر کا منافع بہت کم رہ جائے گا کیونکہ وہ پہلے ہی دکاندار کو کتاب 40 فیصد قیمت پر دینے پر مجبور ہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت پبلشر کو مناسب سبسڈی بھی دے۔ اس کے علاوہ پبلشر کو چاہیے کہ وہ طلبہ اور اساتذہ کو کتابوں پر مناسب ڈسکائونٹ بھی دے لیکن یہ سب کچھ خود پبلشر کے اپنے حالات و معاملات کے مناسب حد تک درست ہونے ہی پر منحصر ہے۔
آپ کے صاحبِ ذوق اور اہلِ علم ہونے کا اندازہ آپ کے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ سے نہیں بلکہ آپ کی لائبریری سے کیا جائے گا جبکہ آپ کے سرہانے کتاب ہی ہوتی ہے‘ کمپیوٹر نہیں۔ کسی کو تحفہ دینا ہو تو کتاب سے بڑا تحفہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ بیشک ہمارے ہاں تخلیقِ ادب یا کتاب کا مصنف ہونا ایک معقول ذریعۂ معاش نہیں ہو سکتا لیکن جن ملکوں میں تعلیم عام ہے وہاں محض تخلیقِ ادب ہی آپ کے خوشحال ہونے کی ضمانت ہو سکتا ہے جبکہ ہمارے ہاں جو صورتِ حال ہے‘ وہاں ایک ادیب کو اپنی کتاب بیچنے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں مثلاً اس طرح کا اشتہار بھی دینا پڑتا ہے کہ کتاب کے ہمراہ خریدار کو ایک خوبصورت قلم اور ڈائری کا تحفہ بھی پیش کیا جائے گا‘ وغیرہ وغیرہ۔
پھر پبلشر کی طرف آتے ہوئے کہ اگر وہ کتاب چھاپتا ہے تو ایک رسک بھی لے رہا ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات کتاب ویسی کی ویسی ہی پڑی رہتی ہے۔ بیشک اس کا انحصار پبلشر کے مارکیٹنگ نیٹ ورک پر بھی ہے لیکن بنیادی بات پھر بھی شرحِ تعلیم ہی ٹھہرتی ہے جس کی ذمے دار صرف اور صرف حکومت ہی ہوتی ہے جبکہ حکومتوں کو صرف اپنے حلوے مانڈے کی فکر ہوتی ہے اور وہ عوام کو ارادتاً بھی تعلیم سے محروم ہی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جتنے جاہل رہیں گے اتنی ہی حکمرانوں کی اندھی پیروی بھی کریں گے۔ چنانچہ ہمارے ہاں جہاں سیاست کو ایک دھندے کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے وہاں ملک کی تعلیمی صورت حال وہی ہوگی جو ہمارے ہاں موجود ہے حالانکہ حکومتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تعلیمی ترقی ہی میں ان کی اپنی مقبولیت کا راز بھی ہے اور ملک کے اپنے وقار کا بھی۔ اور جس معاشرے میں ادیب اور کتاب کی عزت نہیں ہوگی وہاں حکومت بھی اتنی ہی معزز ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ اور اگر پبلشر کو مطلوبہ سہولیات فراہم کر دی جائیں تو ایک انقلاب کتاب کے ذریعے بھی برپا کیا جا سکتا ہے۔ آزمائش شرط ہے!
آج کا مقطع
ظفرؔ، ماحول کا مجھ پر اثر ہوتا بھی ہے، لیکن
خیال اُس شہر کا کیسی بیابانی میں رکھتا ہوں