عید الفطر پر کراچی کے ساحل نے در درجن سے زائد افراد کو نگل لیا تھا۔ عید الاضحیٰ پر یہ کام کَچّی شراب نے کر ڈالا۔ جسے لوگ کَچّی شراب کہتے ہیں وہ کام پَکّا کرتی ہے۔ بندے کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ جان بچ بھی جائے تو بینائی جاتی رہتی ہے۔ یا پھر سماعت کا بھرم ختم ہو جاتا ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ بہت معصوم ہیں۔ ہر معاملے کو وہ بچوں کی سی سادگی سے لیتے ہیں اور اچھے خاصے بحران کے غبارے میں ایسی پِن مارتے ہیں کہ وہ پُھوٹ کر غائب ہوجاتا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ کَچّی شراب پینے والے معصوم لوگ تھے، اُنہوں نے عید الاضحی پر تھوڑا سا شوق پورا کیا۔ اور یہ کہ ہم تو اُنہیں بھی شہید ہی کہیں گے!
سید قائم علی شاہ نے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ جن لوگوں نے عید الاضحیٰ پر خوشی منانے کے لیے کَچّی شراب کا سہارا لیا اُنہیں ایسا کرنا نہیں چاہیے تھا۔ محض معطلی کافی نہیں، ذمہ داران یعنی کَچّی شراب بیچنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
آپ نے کیا محسوس کیا یہ ہمیں معلوم نہیں، ہم تو شاہ صاحب کا یہ بیان پڑھ کر چکراگئے۔ کَچّی شراب پی کر مرنے والوں کے لیے شہید کا رُتبہ! ایسا کچھ بھی کہنا ہما شُما کا کام نہیں۔ اِتنی بات کہنے کے لیے اِنسان کے سینے میں جیالے کا جگرا چاہیے! اور 87 سال کی عمر میں بھی اِس قدر جیالا پن کچھ شاہ صاحب ہی پر پَھبتا ہے! یہ بھی خوب رہی کہ عید پر معصوم لوگوں نے کچھ شغل میلہ کیا، شوق پورا کرلیا تو کیا ہوا۔ کَچّی ہو یا پَکّی، کسی بھی طرح کی شراب بیچنا انتہائی قبیح فعل ہے۔ مگر شراب پینا بھی کیا کم قبیح فعل ہے؟ اپنے ہی گلے پر چُھری پھیرنے والوں کو سادہ و معصوم قرار دے کر پورے معاملے سے اپنی جان چُھڑانا کہاں کی دانش ہے؟ اگر شراب پینے والے معصوم تھے اور بھولپن میں اپنے آپ پر یہ قیامت گزار گئے تو شراب بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کس کھاتے میں کی جائے گی؟ ایک طرف تو کَچّی شراب پی کر جان سے ہاتھ دھونے والوں کو شہید قرار دینا اور دوسری طرف کَچّی شراب بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ! ع
ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اِسے کیا کہیے!
اگر ان کے مطابق شراب پینے والے شہید ہیں تو پھر کچی شراب بنانے والوں کو تو ایوارڈ سے نوازنا چاہیے۔
مرزا تنقید بیگ بھی ''نشئی‘‘ ہیں مگر اُن کا نشہ تاحال چائے تک محدود ہے۔ اگر کبھی طبیعت زیادہ جوش مارتی ہے تو بھابی سے کافی کی فرمائش کرتے ہیں۔ مگر اِس کے لیے پہلے وہ بھابی کے مُوڈ کا اندازہ لگاتے ہیں کیونکہ بھابی کو کافی کی تلخ بُو سے شدید نفرت ہے!
ہم نے جب مرزا سے کَچّی شراب کا ذکر کیا تو کہنے لگے۔ ''ہمیں تو کَچّی شراب حکومت کی سازش معلوم ہوتی ہے۔ غریبوں کا جینا مشکل ہے اِس لیے اُن کا مرنا آسان کیا جارہا ہے۔ اور پھر اِس زہریلی شراب کے پینے سے مرنے والوں کو شہید ٹھہرانا! شاہ صاحب کے اِس بیان میں سادگی و معصومیت بھی ہوگی مگر اُس سے بڑھ کر تو کَچّی شراب پینے والوں کے لیے تحریک ہے کہ شوق پُورا کریں اور اِس یقین کے ساتھ جان دیں کہ اُن کا کفن سفید نہیں رہے گا، اُس میں تقدس کا رنگ شامل کردیا جائے گا!‘‘
عید الاضحیٰ کے مبارک موقع پر جن لوگوں نے شراب ایسی قبیح چیز سے شوق پُورا کرکے جان دی اُن کا معاملہ تو اللہ کے ہاتھ ہے مگر ہمیں حیرت اِس امر پر ہے کہ اِس ملک میں طرح طرح کے نشوں کے ہوتے ہوئے کَچّی شراب کا اِضافی نشہ پالنے کی ضرورت کیا ہے۔ اور عید الاضحیٰ کے ایام میں قربانی کا نشہ کیا کم ہوتا ہے کہ کوئی اور نشہ تلاش کرکے سَر اور حواس پر سوار کیا جائے؟
کون سا نشہ ہے جو معاشرے کی نَس نَس میں سِکّہ رائج الوقت کی طرح بسا ہوا نہیں؟ کئی زمانے گزر گئے ہیں مگر حُب الوطنی کا راگ الاپنے کا نشہ ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ یاروں نے حُب الوطنی کا راگ الاپنے ہی کو حُب الوطنی سمجھ لیا ہے!
بے عملی کا نشہ بھی وہ ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ ایک بار یہ نشہ چڑھ جائے تو اُترنے کا نام نہیں لیتا۔ اور جس پر چڑھ جائے وہ بھی اُترنے نہیں دیتا۔ کچھ نہ کرو اور جیے جاؤ۔ زندہ رہنے کا اِس سے سُکون بخش اور پائیدار طریقہ کون سا ہوسکتا ہے؟
ہمارے معاشرے کو جن نشوں نے پوری قوت کے ساتھ گرفت میں لے رکھا ہے اُن میں بے حِسی کا نشہ بھی نمایاں ہے۔ حکمرانوں پر تو یہ نشہ سوار رہتا ہی ہے، جن پر حکومت کی جارہی ہے وہ بھی اِس نشے میں غرق ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی معاملے میں کسی بہتری کے آثار نہیں۔ گویا ع
دونوں طرف ہے آگ برابر ''بُجھی‘‘ ہوئی!
کبھی کبھی بے حِسی میں بے حواسی بھی مل جائے تو نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ فرازؔ نے کہا ہے ع
نَشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
حکومت کرنے کا نشہ بھی وہ ہے کہ چڑھ جائے تو کسی طور اُترنے کا نام نہیں لیتا۔ جس پر یہ نشہ چڑھ جائے وہ سب کچھ داؤ پر لگاکر بھی اقتدار کی بوتل کو سینے اور مُنہ سے لگائے رکھنا چاہتا ہے۔ انسان اپنے اہل خانہ کی خاطر کچھ بھی کرسکتا ہے مگر اقتدار اور حکمرانی کا نشہ وہ ہے کہ اہل خانہ کو بھی چٹ کر جاتا ہے!
ایک نشہ غلامی کا ہے جس میں ہم صدیوں سے غرق ہیں۔ جب بھی اِس کا زور ٹوٹنے لگتا ہے، ہم مزید چند جام لُنڈھاکر اِس نشے کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ کر بیٹھتے ہیں۔
دو نشے ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں مگر لوگ دونوں سے ایک ساتھ ''لطف‘‘ کشید کرتے ہیں۔ ایک نشہ احساسِ برتری کا ہے اور دوسرا احساسِ کمتری کا۔ احساسِ برتری کا نشہ اِس لیے کہ لوگ مَرعوب ہوکر جُھکیں اور سلام کریں۔ اور احساسِ کمتری کا نشہ اِس لیے کہ اگر ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑے تو ''ضمیر‘‘ کی عدالت میں کھڑے ہوکر اپنی تمام ناکامیوں کو درست ثابت کرنے کے لیے ٹھوس دلائل دیئے جاسکیں!
اِتنے سارے اور پَکّے نشوں کے ہوتے ہوئے لوگ پتا نہیں کِس نشے کی خاطر کَچّی شراب کو مُنہ لگاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ شراب پی کر نشے میں گم رہنا چاہتے ہیں وہ اِتنا بھی نہیں جانتے کہ وہ تو پہلے ہی سے نشے میں غرق ہیں۔ ٹھیک ہے، شراب پینے سے نشہ ہوتا ہے مگر شراب پینا بھی تو ایک نشہ ہے!
اور پھر ایسی بھی کیا بے تابی کہ ذرا سے نشے کے لیے زندگی کے نشے کا طوق گردن سے اُتار پھینکا جائے؟ جو چیز خود کَچّی ہو وہ پَکّا اثر کیسے پیدا کرسکتی ہے؟ ایک ذرا سے نشے کے معاملے میں اِتنا کَچّا پن! جگرؔ مراد آبادی کے شاگردِ رشید حبابؔ ترمذی نے خوب کہا ہے ؎
حبابؔ! ایسی بھی کیا بے اعتمادی
ڈبو دے گی ہمیں موجِ نفس کیا؟
اور پھر یہ بھی تو دیکھیے کہ جیتے جاگتے انسان میں زندگی کا نشہ اِس قدر مُحکم ہوتا ہے کہ مزید کسی نشے کی احتیاج باقی نہیں رہتی۔ کیا نشہ کرنے والوں نے سُنا نہیں کہ ع
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل!
اور مے پرستی کا مزا کب آتا ہے؟ مے میں بھی مستی ہوتی ہوگی مگر کندن لعل سہگل کی گائی ہوئی فلم ''یہودی کی لڑکی‘‘ کی ایک غزل میں یہ خوبصورت شعر بھی شامل ہے ؎
مے پرستی کا مزا جب ہے کہ ساقی کہہ اُٹھے
مے میں وہ مستی کہاں جو میرے مستانے میں ہے!
اور آخر میں ایک ''دانش مندانہ‘‘ مشورے کا ذکر جسے سُن کر ہم پھڑک اور بھڑک اُٹھے۔ ہم روزنامہ دنیا کراچی کی مین نیوز ڈیسک پر کَچّی شراب سے ہلاکتوں کی خبر کو فائنل ٹچز دے رہے تھے کہ ایک ساتھی بھی سامنے آبیٹھے۔ ہم نے یونہی پُوچھ لیا کہ کَچّی شراب کا معاملہ ہے کیا۔ موصوف نے کَچّی شراب کے اجزائے ترکیبی گِنوانے کے بعد ہم سمیت وہاں موجود تمام احباب کو ''مشورہ‘‘ دیا کہ بھائیو! کبھی بُھول کر بھی کَچّی شراب مت پینا! (یعنی یہ کہ پینا تو پَکّی، برانڈیڈ پینا!) اِس خالص ''تکنیکی‘‘ مشورے پر جب لوگوں نے لَتّے لیے تو وہ ساتھی اُسی طرح غائب ہوئے جس طرح شرابی پر بالٹی بھر پانی پھینکنے سے اُس کا نشہ غائب ہوجاتا ہے!